ہوم << روزہ؛ ایمان کی مضبوطی کی علامت - عرفان علی عزیز

روزہ؛ ایمان کی مضبوطی کی علامت - عرفان علی عزیز

”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے ۔“ (سورۃ البقرہ آیت نمبر.183). اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر تمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے ۔ یاد رہے کہ رمضان کے روزے 10 شعبان 2 ہجری میں فرض ہوئے تھے۔ (در مختار، کتاب الصوم، 3 / 383). شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔( خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: 183، 1 / 119). بلاشبہ نماز کے بعد دوسری عبادت جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہے روزہ ہے۔

روزہ مخفی عبادت
روزہ ایک مخفی عبادت ہے۔ یعنی دوسرے تمام عبادات کسی ظاہری حالت میں موجود ہے۔ جیسے نماز کے وقت اپنے وجود کو سجدے قیام کی طرف حرث دینا ۔ یہاں تک کہ زکوٰۃ بھی مخفی عبادت نہیں رہتی کہ ایک شخص دیتا ہے دوسرا شخص لیتا ہے۔ مگر روزہ ہر طریقے سے ایک مخفی عبادت ہے، جس کا حال صرف اللہ تعالیٰ اور انسان کے درمیاں راز رہتا ہے۔ سخت گرمی کی حالت میں انسان جب پیاس سے حلق خشک کر لیتا ہے۔ پانی کا ایک قطرہ تک حلق میں نہیں ڈالتا۔ جبکہ وہ یہ سب کچھ کر سکتا ہے، کھا پی سکتا ہے چوری چھپ کر۔ مگر دیکھیے کہ اس شخص کو اپنے رب پر کتنا یقین ہے کہ وہ عالم الغیب ہے، اس کے سامنے کوئی راز چھپ نہیں سکتا۔

روزے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ روزہ ایک مدت تک شریعت کی لگاتار اطاعت کراتا ہے۔ نماز کی مدت ایک وقت میں چند منٹ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ زکوۃ ادا کرنے کا وقت سال بھر میں صرف ایک وقت آتا ہے۔ حج میں البتہ لمبی مدت صرف ہوتی ہے مگر اس کا موقع عمر بھر میں ایک دفعہ آتا ہے اور وہ بھی سب کے لیے نہیں ۔ ان سب کے بر خلاف روزہ ہر سال پورے ایک مہینے تک شب و روز شریعت محمدی کے اتباع کی مشق کراتا ہے۔ صبح سحری کے لیے اُٹھو، ٹھیک وقت پر کھانا پینا سب بند کر دو۔ دن بھر فلاں فلاں کام کر سکتے ہو اور فلاں فلاں کام نہیں کر سکتے۔ شام کو ٹھیک فلاں وقت پر افطار کرو، پھر کھانا کھا کر آرام کو پھر تراویح کے لیے دوڑو. اس طرح ہر سال کامل مہینہ بھر صبح سے شام اور شام سے صبح تک مسلمان کو مسلسل فوجی سپاہیوں کی طرح پورے قاعد سے اور ضابطے میں باندھ کر رکھا جاتا ہے اور پھر گیارہ مہینے کے لیے اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے تا کہ جو تربیت اس ایک مہینے میں اُس نے حاصل کی ہے ، اُس کے اثرات ظاہر ہوں اور جو کمی پائی جائے وہ پھر دوسرے سال کی ٹریننگ میں پوری کی جائے۔

پس منظر
روزہ جیسا کہ بتایا گیا کہ 2 ہجری کو فرض کیاگیا۔ اس سے پہلے عاشورہ یعنی دس محرم کا روزہ فرض تھا پھر اس کے بجائے ہر مہینہ میں ایام بیض یعنی تیرھویں، چودھویں اورپندرھویں کے روزے فرض ہوئے۔ پھر ان کے بعد رمضان کے روزے فرض ہوئے، لیکن اختیار دیا گیا تھا کہ اگر روزہ نہ رکھے تو ہر روزہ کے فدیہ میں کسی مسکین کو نصف صاع گندم یا ایک صاع جو ادا کرے۔ پھر بھی روزہ رکھنا بہتر قرار دیا گیا مگر اس طرح کہ دن اور رات دونوں میں روزہ ہوتا۔ صرف غروب آفتاب سے نماز پڑھنے یا سونے تک کھانے پینے اور ہم بستر ہونے کی اجازت تھی۔ اگر عشاء سے پہلے آدمی سو جاتا تو اس وقت یہ تینوں باتیں حرام ہو جائیں۔ مگردو واقعے ایسے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے رات میں کھانے پینے اور بیوی کے پاس جانے کو جائز قرار دے دیا ۔

پہلا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے مکان پر پہنچے خوشبو محسوس ہوئی جس سے قلب میں انبساط اور قوت میں انتشار پیدا ہوا۔ اہلیہ محترمہ سے ہم بستر ہوگئے۔ فارغ ہونے کے بعد عدول حکمی کے احساس سے طبیعت متاثر ہوئی، اپنے نفس پر ملامت کرنے لگے اور روتے ہوئے بارگاہ شفیع المذنبین میں حاضر ہوئے۔ واقعہ عرض کیا۔ یہ سن کر مجلس میں کچھ اور حضرات بھی کھڑے ہوئے اور معذرت پیش کرنے لگے جن سے اس قسم کا ارتکاب ہوا تھا۔ اس پر وحی نازل ہوئی اور پوری شب میں کھانا پینا اور ہم بستر ہونا حلال فرما دیا گیا۔

دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ روزہ سے تھے۔ یہ مدینہ شریف کے باغات میں مزدوری کرتے تھے۔ شام کو کچھ کھجوریں لے کر مکان پر آئے۔ اور اہلیہ سے کہا۔ کہ ان کے بدلے کسی سے آٹا لے لو، وہ پڑوس میں آٹا بدلنے کے لئے گئیں۔ یہ صاحب تھکے ہوئے تھے۔ لیٹتے ہی فورا آنکھ لگی اور سو گئے۔ جب وہ واپس آئیں انھیں سوتا دیکھ کر فسوس کرنے لگیں اور کہا نامراد ہے کسی طرح رات گذری ، صبح ہوئی مگر ان کی حالت درست رہی ۔ جب دوپہر ہوئی تو بیہوش ہو گئے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا گیا۔ وحی آئی اور غروب آفتاب سے آخر شب تک کھانا پینا حلال کر دیا گیا۔ (حنفی بہشتی زیور از عالم فقری)

روزے کا مقصد
روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى ۔(نازعات: 40 -42 ) '' اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔''

حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اے جوانو! تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ قاطعِ شہوت ہے۔( بخاری، کتاب النکاح، باب من لم یستطع البائۃ فلیصم، ۳ / ۴۲۲، الحدیث: ۵۰۶۶)

Comments

عرفان علی عزیز

عرفان علی عزیز بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسانہ و ناول نگاری اور شاعری سے شغف ہے۔ ترجمہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں افسانے اور جاسوسی کہانیاں ناول شائع ہوتے ہیں۔ سیرت سید الانبیاء ﷺ پر سید البشر خیر البشر، انوکھا پتھر، ستارہ داؤدی کی تلاش نامی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ شاعری پر مشتمل کتاب زیرطبع ہے

Click here to post a comment