ہوم << ترکی جو میں نے دیکھا - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ترکی جو میں نے دیکھا - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

وی آئی پی لاؤنج
صاحبو!
قانونِ قدرت ہے کہ ہر کسی کو اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ ’’کوئی دوسرا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا“۔ یہ اصول ہے تو آخرت کے ابتدائی مرحلے حشر کے میدان سے متعلق، جہاں ہر کسی کو اپنے اعمال کا خود ہی حساب کتاب دینا اور نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ کچھ یہی معاملہ ائرپورٹ پر بھی ہوا، جو سب ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم دونوں اپنا اپنا سامان اور کاغذات سنبھالے بصد شوق آگے اور آگے بڑھتے چلے گئے۔ امیگریشن کاؤنٹر سے پہلے ایک شخص سامنے آیا، رُکا اور کہنے لگا ”کیا آپ وی آئی پی لاؤنج استعمال کرنا چاہیں گے؟“
میں حیران ہوا کہ آخر اُسے مجھ درویش مگر عیار نہیں‘ میں ایسی کیا چیز نظر آئی کہ وی آئی پی لاؤنج جس کا اکثر ذکر سنتے ہیں، استعمال کرنے کی دعوت دے ڈالی! لمحے بھر کو خیال آیا کہ شاید اسے میرے اس بیگ نے غلط فہمی میں ڈال دیا ہے جو میرے گلے میں لٹک رہا تھا اور میرے بدن پر شاید وہی سب سے قیمتی تھا۔ پورے نو ہزار روپے کا میرے بچوں نے مجھے لے کر دیا تھا، بلکہ سفرکے سارے اخراجات بھی میرے بیٹے انس اعجاز نے برداشت کیے تھے۔ میں حقیر و فقیر آدمی ایسی عیاشی کہاں کر سکتا تھا! میں اور میرے جسم و جان یقیناً میرے بیگ کے مقابلے میں انتہائی ناپائیدار، فانی اور یقینی زوال کا شکار ہونے والے اور قبر کے کیڑوں کی خوراک بننے کے لائق تھے۔

اندلسی شاعر لسان الدین الخطیب
اندلس کا ایک معروف شاعر لسان الدین الخطیب جو کئی وزارتوں اور بڑے عہدوں پر فائز رہا، اس کا لقب ہی’’ذو الوزارتین‘‘ قرار پایا۔ بہت عمدہ خطیب، ادیب اور شاعر تھا، اور انسانی فطرت اور اہلِ اسلام کے مزاج کے عین مطابق بے شمار خصائص و کمالات اور خلیفۂ وقت کے دل میں بڑی قدر و منزلت کے باوجود اپنے کئی حاسد بھی رکھتا تھا۔ یوں سمجھ لیجئے برصغیر کے محمود و ایاز کا سا معاملہ تھا۔

اُس نے اپنی زندگی میں ہی اپنا مرثیہ لکھ ڈالا۔ اندلس کے عربی ادباء و شعراء کے دیگر بے شمار علمی و ادبی کمالات و فتوحات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے بالعموم انسانوں کے مرنے کے بعد کہے جانے والے مرثیوں میں یہ اضافہ کیا کہ غرناطہ، قرطبہ، طلیطلہ اور دیگر شہروں کے مرثیے کہے۔ ابن زیدون بھی اندلس کا بڑا شاعر ہے جس نے ’’قرطبہ‘‘ کا مرثیہ کہا۔ یہ مخمس میں ایک طویل مرثیہ ہے جس میں قرطبہ کے سقوط کا نوحہ، اس کے ساتھ اپنی محبت و عقیدت کا اظہار، مسلمانوں کی عظمت ِ رفتہ کے پلٹ آنے کی خواہش کا اظہار اور حسرت موجود ہے۔ غالباً اسی مرثیے میں وہ خود اس حقیقت کا اظہارکرتا ہے کہ ’’نہیں، مرجانے والے واپس نہیں آیا کرتے۔‘‘

ذکر ہو رہا تھا لسان الدین الخطیب کے اپنے ہی مرثیے کا۔ اس مرثیے کا ایک شعر میری اپنے بارے میں رائے کی تائید کرتا ہے۔ ویسے تو اس کا سارا مرثیہ ہی کمال کا ادبی شاہکار ہے۔اس نے لکھا:
قد کنّا عِظاماً فصرنا عِظاماً
قد کنا نقوت فھا نحن قوت
فنی اعتبار سے بھی یہ شعر اپنی بلندی اور معنوی اعتبار سے کمال پر فائز ہے۔ اس میں ایک ہی لفظ دو الگ معانی میں استعمال ہوا اور دونوں مصرعوں میں ’’عظام‘‘ کے پہلے لفظ کا معنی ’’عظیم‘‘ کی جمع۔ بڑے آدمی۔ دوسرے اسی لفظ کا معنی ’’ہڈیاں‘‘ ہیں۔
یہ لفظ قرآن عظیم میں بھی استعمال ہوا ’’ہم نے ہڈیوں کو گوشت کا پیرہن پہنایا۔‘‘

پہلے مصرع کا مطلب ہوا ہم بڑے سربرآوردہ لوگ تھے، بڑی عظمت، شان و شوکت کے مالک۔ اب ہم نری ہڈیاں بن کر رہ گئے۔ یعنی مرنے کے بعد انسان کی صرف ہڈیاں ہی باقی رہ جائیں گی۔ اُس کا حسن و جمال، اس کا جسم، اس کی شان و شوکت کا مظہر اور معاشرتی تفریق و امتیاز کا ہر نشان، صورت، رنگ، حُسن و جمال، قد کاٹھ، وجاہت و بشاشت سب کچھ خاک میں گم ہو جائیں گے۔ دوسرے مصرع میں پہلے ’’نقوت‘‘کا معنی ہے کہ ہم غذائیں، انواع و اقسام کے کھانے کھاتے ہیں، مگر اب یہ ہم ہی ہیں جو خود غذا بن گئے ہیں یقیناً قبر کے کیڑے مکوڑوں کی۔

خیر ہم ترکی جاتے جاتے اندلس جا نکلے۔ دراصل ’’ترکی اور اندلس‘‘ دونوں ہی مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کے دل کش و دلآویز نشان، سنہری باب اور قابلِ فخر دور ہیں تاریخ ِ اسلامی کے۔ علامہ اقبالؒ نے ان ہی کو ’’تھے تو وہ آبا تمہارے ہی…‘‘ کے ساتھ اس سوال کے ساتھ اہلِ اسلام کومتوجہ کیا ہے ’’مگر تم کیا ہو…‘‘ ترکی کے بعد اب اِن شاء اللہ اگلی منزل دل سے بہت قریب ’’اندلس‘‘ کی ہے۔ یقیناً یہ آرزو بھی پوری ہوگی۔ آیئے علامہ اقبالؒ کی فکر، پیغام اور سوال میں کھونے کے بجائے ان کے نام سے منسوب انٹرنیشنل ائرپورٹ پر چلیں جہاں کوئی ہمیں وی آئی پی سمجھ کر لاؤنج استعمال کرنے کی دعوت اور ترغیب دے رہا ہے۔

میں نے ان صاحب سے پوچھ ہی لیا ”بھائی اتنی مہربانی کیوں اور اس کی استحقاقی شرائط کیا ہیں؟“ کہنے لگے ”اگر آپ اتنے دولت مند ہیں کہ کسی چیمبر آف کامرس یا ایسے ہی تجارتی اداروں میں سے کسی ایک کے کسی عہدے کو ’’خرید‘‘چکے ہیں، یا پھر آپ کسی بڑے بینک کے بھاری بھرکم اکاؤنٹ ہولڈر ہیں اور کسی گولڈن یا پلاٹینیم اے ٹی ایم یا کریڈٹ کارڈ کے مالک ہیں“، یا اسی طرح کی اور کئی ’’مستحق‘‘ افراد کی قِسمیں گنوانے لگا۔ میں نے اس سے پوچھ لیا ”بھائی! علم کی دنیا سے تعلق رکھنے والے کسی طالب علم یا استاد کے لیے بھی کوئی استحقاق یا گنجائش ہے؟“ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہی ہونا چاہیے تھا، اور ہوا۔ میں اُس کا جواب سنے بغیر آگے بڑھ گیا اور وہ مجھے ’’ماسٹر‘‘ جیسے بے حیثیت مقام و مرتبے والا جان کر پیچھے پلٹ گیا۔

۔”پروٹوکول“ تو بنتاہے
چند قدم آگے بڑھ کر امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچے تو پاسپورٹ وغیرہ چیک کرکے، مہر لگا کر دو نوجوانوں نے پاسپورٹ دینے کے بجائے ایک طرف ہوجانے کا اشارہ کیا۔ میں گھبرا گیا کہ اللہ خیر! اب کیا ہوا؟ شاید ایک ’’استاد‘‘ کا ترکی جانا بھی قابلِ گرفت نہ ٹھہرے کہ اتنے اثاثے آئے کہاں سے کہ بیرونِ ملک جا سکو! یا پھر ’’استاد‘‘ کا کیا استحقاق کہ معاشرے میں اسے عزت دی جا سکے! جہاں نوٹوں کی خوشبو، ہر روز بڑھتے اور بڑھتے چلے جاتے دولت کے انبار اور اکاؤنٹس میں پڑی رقوم کے ہندسے ساری حدیں پار کرتے جاتے ہوں، وہاں ایک ’’معلم‘‘ ایک ’’استاد‘‘ کی آخر کیا حیثیت! جسے داعیِ الی الوی آئی پی لاؤنج نے مسترد کردیا ہو اور کسی حد تک ٹھکرا دیا ہو اُسے کوئی اور کیسے گوارا کر سکتا تھا! چلیے یہ تو ’’نوحہ‘‘ ہے قوم کی بے حسی، تعلیم اور اہلِ علم (جن میں، مَیں شامل نہیں) کی بے توقیری کا۔ اور اس کا نتیجہ سوائے اپنے دل کو جلانے کے کچھ اور نہیں� ان ہی وسوسوں، اندیشوں، واہموں میں، مَیں اور اہلیہ ایک جانب کھڑے ہوکر سمٹ گئے کہ ان دو نوجوانوں میں سے ایک آگے بڑھا، عقیدت سے سلام کیا، احترام سے سر جھکایا۔ کسی خاندانی باپ اور ماں کا بیٹا تھا جنہوں نے اس کی بہت اعلیٰ تربیت کی تھی۔ کہنے لگا: ”سر میں نے آپ کو دیکھتے ہی پہچان لیا تھا، آپ ہمارے پرنسپل رہے ہیں، اور میں نے آپ ہی کے کالج سے دو سال تک تعلیم حاصل کی ہے“۔ اُس نوجوان نے جس کا نام عبدالرحیم تھا، بہت اچھا کیا کہ قانون اور ضابطے کی ہر کارروائی مکمل کرنے کے بعد ہی اپنی محبت کا اظہار اور تعلقِ روحانی کا اعلان کیا۔

دوستو! کیا خیال ہے اس پر فخر کرتے ہوئے استاد کی کی آنکھوں میں آنسو نہیں تیرنے چاہئیں! ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘. عبدالرحیم ہمیں باصرار مکمل پروٹوکول کے ساتھ اپنے باس کے دفتر لے گیا۔ ہمارے بےحد منع کرنے کے باوجود چائے، کافی اور بسکٹوں کی بھرمار کردی۔ ہم نے کہا بھی کہ یار ہمارے گروپ کے لوگ ہمارے منتظر ہیں اور ہمیں نہ پاکر پریشان ہوں گے۔ اس نے ایک نہ سنی اور اپنی ’’شاگردی‘‘ کے سامنے ہماری ’’استادی‘‘ کو ہرا کر ہی چھوڑا۔ اس ہار میں بھی ایک عجیب لذت، سرور اور طمانیت تھی۔ روح ایسے سرشار ہوئی کہ بڑے بڑے دولت مند چھوٹے لگنے لگے۔ یہ اعزاز و اکرام میرا ہرگز نہیں تھا، ایک استاد کا تھا جس کے بارے میں سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا ’’انا عبد من علمنی حرفاً واجداً“۔ جو ہستی خود علم کے شہر کا دروازہ ہو وہ اپنے استاد کے سامنے اس طرح بچھی چلی جائے کہ خود کو اس کا غلام قرار دے ڈالے، خواہ اس استاد سے اس نے ایک حرف ہی کی تعلیم پائی ہو۔

جناب امام ابوحنیفہؒ کا ایک بھنگی سے کتّے کی عمر جاننے کے نتیجے میں ہزاروں علما و فضلا و شاگردوں کے مجمع میں کھڑے ہوہوکر تعظیم کرنا استاد کی عظمت کو سلام کرکے عظمت و وقار اور شان و شوکت حاصل کرنے والے افراد و اقوام کے روّیوں اور کامرانیوں کا موجب سمجھنے کی دلیل ہے۔سنا ہے ایک بار ابنِ انشا جاپان گئے تو یونیورسٹی کے کاریڈور میں اپنے ساتھیوں سے باتیں کرنے میں محو ہوگئے، وہاں آتے جاتے طلبہ و طالبات جب ان کے قریب پہنچتے تو کُود کر یعنی جمپ لگا کر کچھ فاصلہ طے کرتے۔ جب ابن انشا نے بار بار یہ مظاہرہ دیکھا تو اپنے میزبانوں سے متعجبانہ استفسار کیا کہ یہ کیا اور کیوں ایسے کررہے ہیں؟ انہیں بتایا گیا کہ یہ استاد کے سائے کو جو زمین پر پڑرہا ہے، روندنا نہیں چاہتے، اور اس گستاخی و بے ادبی سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں استاد کو سرِعام روند ڈالا جائے، وائس چانسلر کو ہتھکڑیاں لگادی جائیں، سرِعام بے عزت کردیا جائے، بے محابا قتل کردیا جائے، اس کی تذلیل و بے توقیری کا ہر سامان کیا جائے، وہاں ایسی حکیمانہ باتیں اور مہذب و باوقار قوموں کے نظام تعلیم و تربیت اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کی مثالیں بے معنی اور مردانِ ناداں پہ کلامِ نرم و نازک کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ہمیں لگا کہ اس گئے گزرے ماحول، معاشرے، دم توڑتی اقدار و اخلاقی روایات کے ”پاکستان“ بلکہ ’’نئے پاکستان‘‘ میں عبدالرحیم جیسے طالب علموں کی تربیت میں شاید استاد کے علمی فیض اور مکتب کی کرامت کے بجائے حلال کمانے اور پاکیزہ سوچ کو پروان چڑھانے والے اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک ماں باپ کی پاکیزہ تربیت اور لقمۂ حلال کے گہرے اثرات تھے جو عبدالرحیم جیسے نوجوانوں اور طالب علموں کی پاکیزہ سیرت و کردار اور اکرامِ استاد کے رویّوں میں ڈھل کر امید کے دِیوں کو اب بھی روشن کرنے کا باعث بن گئے۔

عبدالرحیم سے فوراً دوستی ہو گئی۔ ائرپورٹ پر بیٹھے بیٹھے فیس بک فرینڈ شپ قائم ہو گئی اور استاد و شاگرد کے تعلق نے ایک اور روپ دھار لیا۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ عبدالرحیم نے ہمیں یاد رکھا۔ جب ہم ترکی سے واپس پلٹے تو امیگریشن کی قطار میں کھڑا ایک اور انجان نوجوان آگے بڑھا، ایک چھوٹی سی چٹ پر لکھا ہوا نام آہستہ آہستہ پکارتے میرے قریب آیا اور کہا کہ مجھے عبدالرحیم نے بھیجا ہے، وہ خود ڈیوٹی پر ہے، فلائٹ کے اوقات میں امیگریشن کی ڈیوٹی پر مأمور ہے، میں آپ کی خدمت کروں گا۔ عبدالرحیم کا بھیجا ہوا نوجوان بڑے احترام سے ہمارا سامان ائرپورٹ سے باہر گاڑی تک لایا۔ میری اہلیہ نے بروقت فیصلہ کرکے دستی سامان میں موجود استنبول ائرپورٹ سے خریدی گئی سوئٹس اور چاکلیٹس میں سے کچھ اس کے اور کچھ عبدالرحیم کے لیے تحفتاً دے دیں۔ یہ ان کی خدمت کا معاوضہ تھا ،نہ اس پروٹوکول کا بدلہ جو اُس نے استاد کو دیا۔ یہ احترام، یہ چائے، کافی اور چند بسکٹ اور اُس کا ہماری واپسی کے شیڈول کو یاد رکھنا اور ہماری واپسی کی تصدیق کرکے یقین کے ساتھ ویلکم کرنا اس کا گرویدہ بنا گیا۔ یقیناً اس کی یہ محبت، یہ اکرام اس ’’خریدے‘‘ گئے پروٹوکول سے بدرجہا قیمتی، نایاب اور بھاری اثاثہ تھا جو دولت کے مظاہرے اور اے ٹی ایم یا کریڈٹ کارڈز سے ظاہر کیا جاتا، اور دولت کے وزن سے انسان کی قدر و قیمت کا تعین اور اس کی مرتبت کو تولا جاتا ہے۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment