محمود حسن کی شادی ہو اور ہم نہ جائیں، ناممکن ہے بھائی، ناممکن! سو ہم بھی اپنے بہی خواہوں سمیت وہاں پہنچے۔ سب کو دعوت تھی، طفیلی کوئی نہ تھا۔ دیگر مہمانان کا تو پتا نہیں، ہم کچھ فرسٹ کلاس کے مہمان تھے۔ ہمیں شادی سے ایک دن پہلے حاضر ہونے کی دعوت تھی، بعض کو تو "ود فیملی" دعوت تھی، لیکن سب "وِد آؤٹ فیملی" تھے۔
مغرب کے قریب بندہ اپنے استاد کی معیت میں الفضل للمتقدم کا شرف حاصل کرتے ہوئے پہنچا۔ ہم ہر مرتبہ کی طرح اب بھی پہلے نمبر پر تھے۔ عشا تک سب احباب کی تشریف آوری ہو چکی تھی۔ جناب تنویر اشرف سرکی صاحب ہوں یا عبد اللہ اسلام صاحب، محمد اطہر انڑ صاحب ہوں یا صفی اللہ بروہی اور اس کے ہم جولی، مولانا نثار احمد ساسولی صاحب، سب کے سب اب ہماری مجلس کو رونق بخشنے کی کوشش کر رہے تھے۔
شادی میں شرکت تو بس ایک بہانہ تھی، اصل تو حلقہ یاراں تھا، جو ہر سال انہی دنوں استاد مکرم مفتی عبیداللہ کلادی سندھی صاحب کے ہاں لگتا ہے۔ لیکن اس بار محفل اور صاحبِ محفل، سب ہی اپنے چیف، مولانا محمود حسن کی شادی کے بہانے شکارپور کے کونے میں موجود چک شہر کے ایک قصبہ، دھارانی میں جمع تھے۔متنوع موضوعات پر ہماری مجلس کا آغاز ہو چکا تھا۔ کوئی خاص عنوان تو نہ تھا، بس جہاں بات چھڑتی، وہیں سیر حاصل گفتگو ہوتی۔ درمیان میں کھانے کا وقفہ ہوا، سو ہم کھانا کھا کر کچے کی کچی پل پر ٹہلنے نکلے۔ رات کے بھیانک اندھیرے میں جہاں ہمیں خوف محسوس ہو رہا تھا، وہیں ہم دوستوں کے گروپ میں بے خوف گھوم رہے تھے۔
کچے کے ڈاکوؤں سے کون بے خبر ہے! عین اسی وقت قریب ہی میں ایک مولانا صاحب پر بھی ڈاکوؤں نے حملہ کیا تھا، لیکن موبائل نیٹ ورک کی مہربانیوں سے ہم اس سے بے خبر تھے۔ آدھ گھنٹے کی چہل قدمی کے بعد دولہا صاحب کے ہاتھوں کی بنی چائے سے دوبارہ محبت بھری گفتگو کا آغاز ہوا۔ اب کی بار ہماری مجلس طویل ہوتی گئی اور ڈھائی بجے تک جا پہنچی۔ کچھ تو بیچ میں ہی سو گئے، اور کچھ، میری طرح، نیند میں بھی مجلس کے شریک رہے۔ خیر، طویل مجلس کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں ناممکن ہے، سو ہم سو گئے۔ دن کا آغاز نماز سے کیا اور پھر کچے کی جانب چل دیے۔ سنا تھا کہ وہاں کے بیر بڑے شاندار ہوتے ہیں، سو اسی ہوس میں وہاں نکلے۔
مٹی کی تہوں پر چلتے چلتے ٹھیک پندرہ منٹ بعد ایک حدیقہ نما باغ میں پہنچے، جو صرف بیری کے درختوں سے بھرا ہوا تھا۔ اب ہم میں ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ بغیر اجازت کوئی بیر کھائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کچھ تو ہم میں سے زیادہ متقی تھے، چاہے وہ رائے دینے میں متقی ہوں یا ظاہری طور پر! کچھ سنی مسلمان اور لکیر کے فقیر جو بڑوں کی رائے وہی ہماری رائے والے۔ باغ میں گئے، گھومے پھرے، کچھ بیر بھی کھائے، عکس بندی بھی کی، اور قدرتی مناظر سے محظوظ بھی ہوئے۔ راستے میں آتا گندم کا کچا کھیت ہو یا تیار شدہ سرسوں، ہر کھیت ہمیں اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ خیر، وہاں سے واپسی پر ناشتہ کیا، پھر دولہا ہی کے ہاتھوں کی چائے کے مزے لیے۔ اب ہم دولہے کو اجازت دے چکے تھے کہ وہ جا کر اپنے کام نمٹائے، کیونکہ اب ہم پرانے ہو چکے تھے—خود ہی مہمان اور خود ہی میزبان!
ظہر کی نماز سب نے دیکھا دیکھی نہا کر پڑھی اور پنڈال کی جانب چل دیے۔ اپنی نوعیت کی یہ پیاری محفل اب اختتام پذیر ہونے جا رہی تھی۔ دولہا محمود حسن کے برابر میں بیٹھے استاد محترم مفتی عبیداللہ کلادی صاحب، بحیثیت نکاح خواں، مجلس کی اختتامی دعا کروا رہے تھے۔ دعا ہوئی، عکس بندی بھی مکمل ہوئی، ظہرانہ بھی ہوا اب ہم ایک دوسرے سے بغلگیر ہو کر اپنی اپنی منزلوں کی جانب عازم سفر ہوئے۔ یوں ایک محبت بھری محفل، جو سال بھر میں ایک مرتبہ میسر ہوتی ہے، اپنے اختتام کو پہنچی۔اس بار مجلس کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ اس میں سب ہی محبوب ارکان شامل تھے۔ تاہم، غلام مصطفیٰ کندرانی صاحب اس بار حاضر نہ ہو سکے، جس کا ہمیں شدت سے احساس تھا۔ اس بار مجلس میں کچھ نئے چہرے بھی تھے، مگر وہ پہلے ہی ہمارے حلقۂ احباب میں شامل ہو چکے تھے۔
خدا میرے ان پیارے دوستوں کو سدا سلامت رکھے، ان کی زندگیوں کو عافیت سے بھر دے اور مشکلات سے محفوظ فرمائے۔ اور جناب محمود حسن صاحب کے نکاح کو خیر و برکت کا سبب بنائے، دونوں خاندانوں کو باہم الفت و محبت میں رکھے۔ آمین!
تبصرہ لکھیے