گھڑی کی ٹک ٹک اس کے درد میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔ وہ چپ چاپ سنسان جگہ پر بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔ آس پاس کھڑے درخت اور پودے اسے بے جان ڈھانچوں کی طرح محسوس ہو رہے تھے، جیسے وہ سب اس کی بے بسی پر ہنس رہے ہوں۔ اگلے دو گھنٹوں میں اس کا پیپر تھا، لیکن اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔
وہ ہمیشہ ایک محنتی اور پرجوش لڑکی رہی تھی، جسے پڑھائی کے ساتھ ساتھ دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے کا بے حد شوق تھا۔ مگر نہ جانے کیوں، اس ادارے میں داخلہ لینے کے ایک سال بعد، اس کی شخصیت بدلنے لگی تھی۔ آج وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھی اسی تبدیلی پر غور کر رہی تھی، اور پچھلے سال کی یادیں اسے اپنی زندگی کا سب سے بے وقعت وقت محسوس ہو رہی تھیں۔
اس خاموشی میں کچھ سرگوشیاں اس کے دل و دماغ پر مزید گہرے اثرات مرتب کر رہی تھیں۔ قریب بیٹھی دو لڑکیاں خوشگپیوں میں مصروف تھیں، اور ان کی ہنسی اسے تیز دھار خنجر کی مانند محسوس ہو رہی تھی، جیسے کوئی اس پر طنز کر رہا ہو۔ وہ خود کو کافی حد تک سنبھال چکی تھی، مگر جب بھی وہ اس کے سامنے آتی، وہ تمام لمحے پھر سے آنکھوں کے سامنے آ جاتے، اور وہ افسوس کرتی کہ کاش اس نے اپنا وقت اس پر برباد نہ کیا ہوتا۔
یونیورسٹی میں داخلہ لیتے وقت اس کا واحد مقصد اچھے طریقے سے پڑھنا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ کسی سے دوستی نہیں کرے گی کیونکہ وہ یونیورسٹی کی دوستیوں کے بارے میں بہت کچھ سن چکی تھی۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اسے احساس ہوا کہ چار سال یوں اکیلے نہیں گزارے جا سکتے۔ یہی احساس شاید پوری کلاس کو ہو چکا تھا۔
ایک دن، ایک محنتی اور پرکشش لڑکی نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، اور اس نے بغیر کسی جھجک کے دوستی کر لی۔ اسے ایسی لڑکیاں پسند تھیں جو سست نہ ہوں بلکہ پرجوش ہو کر کام کریں، اور اسی وجہ سے وہ اس کی طرف کھنچتی چلی گئی۔ شروع میں دونوں کے درمیان بہت اچھا تعلق تھا، اور شاید اپنی بہن نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے بہت زیادہ اہمیت دینے لگی۔ دونوں ہر جگہ ساتھ ساتھ ہوتی تھیں، اور لوگ انہیں دیکھ کر یہی سمجھتے کہ شاید وہ پہلے سے ایک دوسرے کو جانتی ہیں۔
چند ہی دنوں میں وہ ایک دوسرے کے بے حد قریب آ چکی تھیں، اور وہ اسے اپنی بہن کی طرح چاہنے لگی تھی۔ ان کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے کافی ملتی جلتی تھیں۔ مگر جلد ہی، اسے محسوس ہونے لگا کہ شاید وہ اسے وہ توجہ، محبت اور خلوص نہیں دے رہی جو وہ خود اس کے لیے رکھتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کا خدشہ حقیقت میں بدلنے لگا۔ وہ دیکھتی کہ اس کی دوست کلاس کے باقی افراد کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ کرتی جیسے اس کے ساتھ۔ اس کے نزدیک شاید وہ کوئی خاص نہیں تھی۔
وقت گزرتا گیا اور حقیقت واضح ہوتی چلی گئی۔ جب بھی وہ اس سے ناراض ہوتی، اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ ایک دو بار دیگر لڑکیوں نے مداخلت کر کے صلح کروانے کی کوشش کی، مگر جب اسے احساس ہوا کہ وہ اس کے لیے خاص نہیں ہے، تو اس کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ گم سم رہنے لگی۔ بہت سے لوگوں نے اس تبدیلی کو محسوس کیا، مگر تب تک اس کے دوسرے سمسٹر کے امتحانات قریب آ چکے تھے، اور اس نے اپنی اداسی کو پڑھائی کے دباؤ کا نام دے کر سب سے چھپا لیا۔
یوں، یونیورسٹی کی دوستیوں کے متعلق جو خدشات اس کے دل میں تھے، وہ سچ ثابت ہو گئے۔ لیکن آج بھی، شاید وہ اسے اتنی ہی محبت کرتی ہے۔ جب کوئی اس سے اس بارے میں پوچھتا ہے، تو وہ کہتی ہے کہ شاید وہ اسے سمجھ نہیں سکی، ورنہ ہو سکتا ہے کہ اس کے نزدیک دوستی کا مطلب کچھ اور ہو۔ وہ کہتی ہے کہ وہ سب کچھ بھول چکی ہے، مگر یہ سچ نہیں تھا۔ جب بھی وہ اس کے سامنے آتی، اس کے چہرے کی اداسی اس کی سچائی کا ثبوت بن جاتی۔
تبھی، ایک بار پھر ہنسی کی آواز نے اس کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا، وہی دو لڑکیاں خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ اور ان میں ایک وہ بھی تھی، جو کبھی اس کی سب سے قریبی دوست ہوا کرتی تھی۔
گھڑی کی ٹک ٹک اس کے درد میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔ وہ چپ چاپ سنسان جگہ پر بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔ آس پاس کھڑے درخت اور پودے اسے بے جان ڈھانچوں کی طرح محسوس ہو رہے تھے، جیسے وہ سب اس کی بے بسی پر ہنس رہے ہوں۔ اگلے دو گھنٹوں میں اس کا پیپر تھا، لیکن اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔
وہ ہمیشہ ایک محنتی اور پرجوش لڑکی رہی تھی، جسے پڑھائی کے ساتھ ساتھ دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے کا بے حد شوق تھا۔ مگر نہ جانے کیوں، اس ادارے میں داخلہ لینے کے ایک سال بعد، اس کی شخصیت بدلنے لگی تھی۔ آج وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھی اسی تبدیلی پر غور کر رہی تھی، اور پچھلے سال کی یادیں اسے اپنی زندگی کا سب سے بے وقعت وقت محسوس ہو رہی تھیں۔
اس خاموشی میں کچھ سرگوشیاں اس کے دل و دماغ پر مزید گہرے اثرات مرتب کر رہی تھیں۔ قریب بیٹھی دو لڑکیاں خوشگپیوں میں مصروف تھیں، اور ان کی ہنسی اسے تیز دھار خنجر کی مانند محسوس ہو رہی تھی، جیسے کوئی اس پر طنز کر رہا ہو۔ وہ خود کو کافی حد تک سنبھال چکی تھی، مگر جب بھی وہ اس کے سامنے آتی، وہ تمام لمحے پھر سے آنکھوں کے سامنے آ جاتے، اور وہ افسوس کرتی کہ کاش اس نے اپنا وقت اس پر برباد نہ کیا ہوتا۔
یونیورسٹی میں داخلہ لیتے وقت اس کا واحد مقصد اچھے طریقے سے پڑھنا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ کسی سے دوستی نہیں کرے گی کیونکہ وہ یونیورسٹی کی دوستیوں کے بارے میں بہت کچھ سن چکی تھی۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اسے احساس ہوا کہ چار سال یوں اکیلے نہیں گزارے جا سکتے۔ یہی احساس شاید پوری کلاس کو ہو چکا تھا۔
ایک دن، ایک محنتی اور پرکشش لڑکی نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، اور اس نے بغیر کسی جھجک کے دوستی کر لی۔ اسے ایسی لڑکیاں پسند تھیں جو سست نہ ہوں بلکہ پرجوش ہو کر کام کریں، اور اسی وجہ سے وہ اس کی طرف کھنچتی چلی گئی۔ شروع میں دونوں کے درمیان بہت اچھا تعلق تھا، اور شاید اپنی بہن نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے بہت زیادہ اہمیت دینے لگی۔ دونوں ہر جگہ ساتھ ساتھ ہوتی تھیں، اور لوگ انہیں دیکھ کر یہی سمجھتے کہ شاید وہ پہلے سے ایک دوسرے کو جانتی ہیں۔
چند ہی دنوں میں وہ ایک دوسرے کے بے حد قریب آ چکی تھیں، اور وہ اسے اپنی بہن کی طرح چاہنے لگی تھی۔ ان کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے کافی ملتی جلتی تھیں۔ مگر جلد ہی، اسے محسوس ہونے لگا کہ شاید وہ اسے وہ توجہ، محبت اور خلوص نہیں دے رہی جو وہ خود اس کے لیے رکھتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کا خدشہ حقیقت میں بدلنے لگا۔ وہ دیکھتی کہ اس کی دوست کلاس کے باقی افراد کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ کرتی جیسے اس کے ساتھ۔ اس کے نزدیک شاید وہ کوئی خاص نہیں تھی۔
وقت گزرتا گیا اور حقیقت واضح ہوتی چلی گئی۔ جب بھی وہ اس سے ناراض ہوتی، اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ ایک دو بار دیگر لڑکیوں نے مداخلت کر کے صلح کروانے کی کوشش کی، مگر جب اسے احساس ہوا کہ وہ اس کے لیے خاص نہیں ہے، تو اس کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ گم سم رہنے لگی۔ بہت سے لوگوں نے اس تبدیلی کو محسوس کیا، مگر تب تک اس کے دوسرے سمسٹر کے امتحانات قریب آ چکے تھے، اور اس نے اپنی اداسی کو پڑھائی کے دباؤ کا نام دے کر سب سے چھپا لیا۔
یوں، یونیورسٹی کی دوستیوں کے متعلق جو خدشات اس کے دل میں تھے، وہ سچ ثابت ہو گئے۔ لیکن آج بھی، شاید وہ اسے اتنی ہی محبت کرتی ہے۔ جب کوئی اس سے اس بارے میں پوچھتا ہے، تو وہ کہتی ہے کہ شاید وہ اسے سمجھ نہیں سکی، ورنہ ہو سکتا ہے کہ اس کے نزدیک دوستی کا مطلب کچھ اور ہو۔ وہ کہتی ہے کہ وہ سب کچھ بھول چکی ہے، مگر یہ سچ نہیں تھا۔ جب بھی وہ اس کے سامنے آتی، اس کے چہرے کی اداسی اس کی سچائی کا ثبوت بن جاتی۔
تبھی، ایک بار پھر ہنسی کی آواز نے اس کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا، وہی دو لڑکیاں خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ اور ان میں ایک وہ بھی تھی، جو کبھی اس کی سب سے قریبی دوست ہوا کرتی تھی۔
تبصرہ لکھیے