بر صغیر غزنیوں، غوریوں،غلاموں، خلجیوں،تغلقوں،سیدوں، لودھیوں، سوریوں اور مغلوں کے بعد مولویوں کی ہتھے چڑھا۔ بیچ میں طہر متخلل کے طور پر نظام سقہ بھی مشکیزہ اور چھاگل لے کر آیا ۔ایک بار تو خاتون خانہ رضیہ بھی غنڈوں میں پھنس گئی۔ پھر اٹھارہ سو ستاون ہوا اور علامتی مغلیہ سلطنت جو بتدریج معاہدہ الہ آباد کے نتیجے میں 1765ء سے ہی زوال پذیر تھی اختتام کو پہنچی ۔۔ملک برٹش راج کے زیر سایہ چلاگیا اور مسلمانوں کی عقل خبط ہوگئی۔ ارباب حل وعقد کی سینگ جدھر سمائی ادھر نکل گئے۔ اقتدار کے چھن جانے سے عقلیں اور مال و اسباب بےٹھور ٹھکانے ہوئے۔ اقتدار نہ ہوتو مال کی ضرورت بہت ہوتی ہے۔۔کہ اقتدار میں جو کام حکم سے ہوتا ہے۔وہی کام محکوم قومیں مال سے نکالتی ہیں ۔مال نہ ہو تو عقلِ رسا دست گیر ہوتا ہے۔ مگر اقتدار اور مال جب دونوں ہی قبضے سے نکل جائیں تو عقل بھی اپنے ہاتھ کھڑے کر دیتی ہے۔
مغلیہ سلطنت جب مسلسل زوال آمادہ رہی تو اتفاق سے ارباب حل وعقد کی عقلیں بھی مستقل چراگاہ میں ہی رہیں ۔یعنیمسلسل گھاس چرتی رہیں ،کبھی آسودہ نہ ہوسکیں۔ اسی ناآسوگی کے عالم میں مغلیہ سلطنت ختم ہوگئی۔اب تک ہرے میدانوں میں جو ہماری عقلیں اٹکھیلیاں کررہی تھیں انھیں پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اب چراگاہوں سے بھی نکلنے کی نوبت ہے۔ بڑے بتاتے ہیں کہ ایسے ہی موقع پر انھیں تعلیم کی سوجھی۔یعنی علی گڑھ اور دیوبند کا پودا لگا۔تعلیم کا دور دورہ اگلے وقتوں میں بھی تھا میں طور زمانہ کے بدلنے اور حکم وامر کے چھن جانے سے وہ تعلیم اور مقامات تعلیم دونوں نارکارگی کا شکار ہوئے۔ مگر جب یہ دونوں پودے خوب ہرے بھرے ہوئے تو بالغ نظروں نے دیکھا کہ بر صغیر کی عقل اگر مدرسۂ علی گڑھ اور مدرسہ دیوبند کے حوالے رہی تو ملک میں مسلمانوں کے دو انتہاؤں پر رہنے والے طبقے پیدا ہوجائیں گے۔چنانچہ ندوے نے پالنے سے پاؤں نکالے۔ مسلمانان ہند کی نہایت بالغ نظر تحریک، ایک ایسے نظام و نصاب تعلیم کی داعی تحریک تھی جو مسلمانوں کی جملہ ضروریات کی کفیل ہو۔ اس تحریک کے اجزائے ترکیبی کو جس شخص کی سب سے زیادہ فکری قوت حاصل ہوئی وہ جدید برصغیری عقل کا بنیادی پتھر رکھنے والا شبلی نعمانی ہے۔ جو خیالات سواسوسال پہلے شبلی اور اس کے بالواسطہ اور بلا واسطہ شاگردوں نے پیش کیے، اس کی طرف اب کہیں جاکر علمائے ہند بجبر لائے گئے ہیں اور اب وہ کسی طرح بالا بالا اپنے بچوں کی تعلیم کو قدرے علم چشیدہ کرنے کے خواہش مند ہوئے ہیں۔
شبلی 1857 کے ہنگامۂ دار وگیر کے دوران اعظم گڑھ کے گاؤں بندول میں پید ہوئے ۔تعلیم کی ابتدا فاروق چریا کوٹی سے کی، متون احادیث کی تعلیم احمد علی سہارنپوری سے لی۔ شبلی روایتی طرز تعلیم کے پیدا کیے ہوئے خالص پرانے طور کے مولوی تھے۔ معاشی ضرورتوں کے لیے اس زمانے کے معتبر پیشے وکالت کی تعلیم بھی حاصل کی، ان کی طبیعت ضرورت آشنا ضرور تھی مگر اس راہ میں نہ چل سکی، ناچار اسے خیرآباد کہا . انھوں نے بیس سال کی عمر میں حجاز و نجد کا سفر کیا اور حج کی سعادت حاصل کی۔ شبلی جیسا اخاذ طالب علم اس سفر حج سے بہت کچھ سیکھ کر لوٹا۔ علی گڑھ کے قیام اور خان صاحب کی صحبت نے شبلی کے سامنے علم وتحقیق اور فکر نظر کے کئی باب کھولے۔یہیں سے انھوں نے اپنے علمی تحقیقی سفر کا آغاز کیا۔یہیں انھوں نے پریچنگ آف اسلام والےپروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی زبان سیکھی۔ عین جوانی کا شوریدہ ، بیکل اور تڑپتا ہوا دل بے تاب لے کر 1892 میں روم وشام کی سیر کی، اور علم وفکر کا اوقیانوس لے کر لوٹے، جس کا بھرپور اثر ندوے کی تعلیمی تجاویز ،دستور ندوۃ العلماء اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے نظام و نصاب میں دکھائی دیتا ہے۔
شبلی نے مغرب کے پیدا کردہ شکوک کے ازالے کے لیے اپنی زندگی وقف کی، چنانچہ آپ کی کتابیں انھیں شکوک وشبہات کے ازالے کی نہایت محققانہ ، دور رس، نتیجہ خیز اور دیرپا کوشش ہے اور سوا سو سال کے بعد بھی ان کی تازگی صبح کے تازہ کھلے پھولوں کی طرح ہے۔ خواہی نہ خواہی شبلی نے بر صغیر کے تمام مسلم حلقوں کی عقل پر قبضہ کیا اور آج وہ حلقے جو شبلی کے ناقد ہیں ، جو شبلی نعمانی میں روحانیت کی رمق نہیں پاتے وہ بھی غور وفکر تحقیق وتحریر میں شبلی سے جان نہیں چھڑا سکتے ۔شبلی جدید بر صغیر کے دینی حلقوں کی عقل کا حکمران ہے۔ شبلی عقلیت پسندوں کا امام ہے۔جس کے نقوش پا کی پیروی اس کے مقام کا اعتراف کئے بغیر بھی مسلمانوں کی فکر رکھنے والے تمام حلقوں کی مجبوری ہے۔ندوۃ العلماء لکھنؤ سے شبلی خوار و رسوا ہوکر نکلے یا نکالے گئے ۔ پھر بھی آج تک ندوے کے ہر کنکر پتھر ،ہر ریت بجری ہر دیوار و ستون پر شبلی شبلی مچا ہوا ہے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ، دارالمصنفین اعظم گڑھ اور مدرسۃ الاصلاح سرائے میر کے حوالے سے شبلی نے جدید بر صغیر کے دینی عقل کی امامت کی۔ اور اسی رہنمائی کا نتیجہ ہے کہ شدت پسند روایتی طبقے میں آج بھی گاہے ماہے شبلی کو معتزلی کہا جاتا ہے۔ مگر شبلی کے نقوش پا کو چومے بغیر بر صغیر کے مسلمانوں کے شعور کی کوئی راہ کھلتی نہیں ہے۔ بلکہ کلامی مباحث کو علم کلام اور الکلام کے حوالے سے عالمی سطح پر جدید رجحان دینے کا کام شبلی سے ہی ہوا۔عقاید میں الہیات کے مباحث کے علاوہ اخلاق وغیرہ کو شامل کرنا شبلی کا ہی کارنامہ ہے۔ شبلی نے براہ راست اور بالواسطہ غیر منقسم اور منقسم ہندوستان کے استاذی کا منصب تاحال سنبھال رکھا ہے۔ عہد اخیر میں بر صغیر کے دل کو سب سے زیادہ حضرت تھانوی نے فتح کیا اور عقل پر تمام تسلط شبلی کا ہے۔ بر صغیر کا یہ البیلا بانکا 18 نومبر 1914ء کو اپنی عقل اور اپنے علم وفکر سمیت اپنے خدا کے پاس گیا۔
وہ شبلی جو ایک منطقی اور فلسفیانہ دماغ رکھتا تھا، اس کے پاس اسلام اور مسلمانوں کے لیے دھڑکنے والا ایک دل بھی تھا. شاہجہان پور کے واقعہ ارتداد کے وقت طلبائے ندوہ سے جو باتیں اس نے کیں وہ شبلی کے ایاغ دل میں کھنچی شراب کی تیزی کا پتہ دیتی ہے۔ شبلی نے تحقیق اور جذب ومستی کے جس قلم سے سیرت النبی لکھنی شروع کی وہ ان کے دل زار زار کی غماز ہے۔ شبلی کا دل ہیرے کا تھا مگر اس کی عقل کے شہرت نے اس کے دل کے جلوؤں کو رونق بزم نہ ہونے دیا۔
شبلی کو مرے ایک سو دس سال بیت گئے لیکن شبلی کا ذکر اس کی یاد ایسی ہے ، یوں لگتا ہے کہ بس ابھی ندوے کے کسی گوشے سے دارالمصنفین کے کسی کونے سے مدرسۃ الاصلاح کے کسی کنارے سے وہ پکار اٹھیں گے۔ اور علم وعشق کے مارے ان کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیں گے اور سماں یہ بندھ جائے۔۔
ہمہ آہوانِ صحرا سر خود نہادہ بر کف
بہ امید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد
تبصرہ لکھیے