شرک سے بچنے کے عملی طریقے
شرک ایک ایسا گناہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کریں گے اگر اس پر توبہ کیے بغیر موت واقع ہو جائے۔ اس لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے عقیدے کی اصلاح کرے اور شرک سے مکمل طور پر بچے۔ درج ذیل نکات ایسے عملی طریقے ہیں جنہیں اپنا کر شرک سے محفوظ رہا جا سکتا ھے
خالص عبادت کی پہچان
عبادت کا مطلب صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ہی نہیں، بلکہ ہر وہ عمل جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے، وہ عبادت میں شامل ہوتا ہے۔ نیت کا خالص ہونا ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔" (بخاری: 1). اگر کوئی عبادت ریاکاری (دکھاوے) یا کسی اور نیت سے کی جا رہی ہو تو وہ ضائع ہو جاتی ہے۔ صرف اور صرف اللہ کے لیے عبادت کی جائے، کسی ولی، پیغمبر، قبر یا کسی اور ہستی کے لیے نہیں.
. بدعات اور شرکیہ امور سے اجتناب
بدعت (دین میں خود ساختہ اضافے) کی وجہ سے شرک پیدا ہوتا ہے۔ بہت سی بدعات ایسی ہیں جو بظاہر نیک لگتی ہیں لیکن درحقیقت شرک کے دروازے کھول دیتی ہیں، جیسے: قبروں پر چادریں چڑھانا، ان سے حاجات مانگنا۔ ولیوں اور بزرگانِ دین کو مشکل کشا سمجھنا۔ کسی مخصوص دن یا رات کو عبادت کے لیے لازم سمجھنا، جبکہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "دین میں نیا کام ایجاد کرنا بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔" (مسلم: 867)
قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنا
دین کو ویسا ہی اپنانا چاہیے جیسا کہ قرآن و حدیث میں آیا ہے، اس میں اپنی طرف سے کچھ شامل نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن و حدیث ہی وہ اصل معیار ہیں جن کی بنیاد پر صحیح اور غلط کا فیصلہ ہوتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "جو لوگ اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، ہم ان کے اجر کو ضائع نہیں کریں گے۔" (الاعراف: 170). اگر کوئی عمل یا عقیدہ قرآن و حدیث کے خلاف ہو، تو اسے چھوڑ دینا لازم ہے۔ جو لوگ مذہبی رسومات کو اپنے آباء و اجداد کی تقلید میں کرتے ہیں، انہیں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اللہ کے حکم کے مطابق ہیں یا نہیں؟
اللہ سے براہِ راست دعا کرنا
دعا اللہ تعالیٰ سے براہِ راست مانگنی چاہیے، کیونکہ وہی ہر چیز کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور تمہارے رب نے فرمایا: مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔" (غافر: 60). کسی ولی، نبی، پیر یا فوت شدہ شخص کو وسیلہ بنا کر دعا کرنا جائز نہیں، کیونکہ اللہ ہر شخص کی دعا براہِ راست سنتے ہیں. نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جب تم دعا کرو، تو صرف اللہ سے مانگو۔" (ترمذی: 2516). بعض لوگ بزرگوں اور اولیاء کی قبروں پر جا کر دعا مانگتے ہیں یا ان سے مدد طلب کرتے ہیں، یہ سراسر شرک ہے۔ دعا کے قبول ہونے کے لیے اللہ کے خوبصورت ناموں (اسمائے حسنیٰ) کے ذریعے دعا مانگنی چاہیے، جیسا کہ قرآن میں ہے: "اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں، سو ان سے دعا کرو۔" (الاعراف: 180)
شرک سے بچنے کے لیے عقیدہ کی اصلاح
ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ عقیدۂ توحید کو گہرائی سے سمجھے اور اسے مضبوط کرے۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ کرے اور علما سے صحیح عقیدہ سیکھے، تاکہ شرک کے جال میں نہ پھنسے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ جانتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ جنت میں داخل ہوگا۔" (مسلم: 26). کچھ لوگ غیر محسوس طریقے سے شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جیسے: نظروں کے اثر (نظر بد) سے بچنے کے لیے تعویذ پہننا، کسی مخصوص درخت، پتھر یا چیز کو بابرکت سمجھنا، کسی پیر، فقیر یا عامل کے کہنے پر غیر شرعی عمل کرنا۔ ایسے تمام غیر اسلامی نظریات اور رسومات سے اپنے عقیدے کو پاک رکھنا ضروری ہے۔
توحید کی تعلیمات کو فروغ دینا
خود بھی توحید کے عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہنا اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینا ضروری ہے۔ اگر کوئی عزیز یا رشتہ دار شرکیہ اعمال میں مبتلا ہے تو محبت اور حکمت سے سمجھانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: "اور اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو۔" (النحل: 125). بچوں کی تربیت میں توحید کو بنیادی حیثیت دینی چاہیے تاکہ وہ چھوٹے شرکیہ اعمال (جیسے تعویذ، بدشگونی، قبر پرستی) سے بھی بچ سکیں۔
شرک سے بچنے کے لیے مستقل استغفار اور دعا
انسان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اللہ سے مغفرت طلب کرتا رہے، کیونکہ بعض اوقات انجانے میں بھی شرک سرزد ہو سکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے خود بھی شرک سے بچنے کے لیے دعا فرمائی: "اے اللہ! میں جان بوجھ کر شرک کرنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور جو شرک میں نے نادانستہ کیا، اس سے بھی مغفرت طلب کرتا ہوں۔" (مسند احمد: 3722). یہ دعا روزانہ پڑھنی چاہیے تاکہ اللہ ہمیں ہر قسم کے شرک سے محفوظ رکھے۔ شرک ایک تباہ کن گناہ ہے جو انسان کی دنیا اور آخرت دونوں کو برباد کر دیتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے عقیدہ کی اصلاح، خالص عبادت، بدعات سے اجتناب، اور قرآن و حدیث پر عمل ضروری ہے۔ ہمیں ہر وقت اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ظاہری اور پوشیدہ شرک سے محفوظ رکھے اور ہمیں خالص توحید پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عقیدہ توحید اور دیگر مذاہب
اسلام کا بنیادی عقیدہ توحید (یعنی اللہ کی وحدانیت) ہے، جبکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں یا تو شرک پایا جاتا ہے یا پھر توحید میں تحریف کر دی گئی ہے۔ اب ہم مختلف مذاہب میں توحید کے نظریے کا جائزہ لیں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اسلام کا عقیدۂ توحید کس طرح خالص اور منفرد ہے۔
اسلام میں توحید کی خالص تعلیم
اسلام میں توحید کا عقیدہ تین بنیادی پہلوؤں پر مشتمل ہے:
1. توحید الربوبیہ (اللہ کی ربوبیت) – اللہ ہی ہر چیز کا خالق، رازق اور مالک ہے۔
2. توحید الألوہیہ (عبادت میں وحدانیت) – صرف اور صرف اللہ کی عبادت کی جانی چاہیے۔
3. توحید الاسماء والصفات (اللہ کے ناموں اور صفات میں یکتائی) – اللہ کی صفات کسی اور کے ساتھ مشابہ نہیں ہو سکتیں۔
قرآن میں فرمایا گیا:
"کہو، وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے۔" (سورۃ الاخلاص: 1-4). یہ عقیدہ بغیر کسی تحریف کے آج بھی مسلمانوں میں موجود ہے، جبکہ دیگر مذاہب میں اس میں تبدیلیاں کی جا چکی ہیں۔
دیگر مذاہب میں توحید کا تصور
یہودیت میں اللہ کی وحدانیت پر زور دیا گیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اللہ کو صرف بنی اسرائیل کا خدا سمجھ لیا، جبکہ اسلام میں اللہ پوری کائنات کا رب ہے۔ بعض انبیاء (خصوصاً عزیرؑ) کو "اللہ کا بیٹا" کہا، جو شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ اللہ کی صفات میں کمی بیشی کی اور کچھ انسانی صفات کو اللہ سے منسوب کیا۔
حضرت عیسیٰؑ توحید کی دعوت لے کر آئے، لیکن بعد میں عیسائیوں نے اللہ کے ساتھ حضرت عیسیٰؑ کو بھی معبود بنا لیا (تثلیث کا عقیدہ – Father, Son, Holy Spirit)۔ حضرت مریمؑ اور دیگر اولیاء کو بھی عبادت کے لائق سمجھا، جبکہ اسلام میں عبادت صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا کہنے لگے، جبکہ اللہ کے لیے ایسی نسبت ممکن نہیں۔ قرآن نے ان عقائد کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے۔" (المائدہ: 72
ہندو مت میں کچھ لوگ واحد برہمن (پرمیشر) کے ماننے والے ہیں، لیکن عملی طور پر: بہت سے دیوی دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی ہے۔ پتھروں، درختوں، دریاؤں اور جانوروں کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اوتار کا نظریہ (اللہ کسی انسان کی شکل میں دنیا میں آتا ہے) شرک کا بدترین تصور ہے.
اصل بدھ مت کسی خدا کے تصور پر زور نہیں دیتا، بلکہ روحانی پاکیزگی اور نروان (moksha) پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن بعد میں بدھ کو دیوتا کی طرح پوجنا شروع کر دیا گیا، جو شرک کی ایک قسم ہے۔
نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے عربوں میں بت پرستی عام تھی۔ وہ اللہ کو خالق مانتے تھے لیکن بتوں کو اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے تھے، جو شرک ہے۔ قرآن نے اس غلط عقیدے کو واضح طور پر رد کیا: "اور وہ لوگ جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف انہیں اللہ کے قریب کرنے کے لیے پوجتے ہیں۔" (الزمر: 3)
دنیا کے دیگر مذاہب میں یا تو شرک پایا جاتا ہے یا اللہ کی وحدانیت میں تحریف کر دی گئی ہے، جبکہ اسلام نے خالص توحید کو ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح اعلان فرمایا: "بے شک، دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔" (آلِ عمران: 19)
عقیدۂ توحید انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے اور یہی وہ بنیادی پیغام ہے جو تمام انبیاء کرام علیہم السلام لے کر آئے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرنا اور اسی کی عبادت کرنا ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ یہ عقیدہ نہ صرف دنیا میں کامیابی اور سکون کی ضمانت ہے بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کا واحد ذریعہ ہے۔ قرآن و حدیث میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انسان کو ہر حال میں توحید پر ثابت قدم رہنا چاہیے اور شرک کی کسی بھی صورت کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "بے شک، اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دے۔" (النساء: 48) یہ آیت ہمیں خبردار کرتی ہے کہ توحید پر استقامت اختیار کرنا نجات کی بنیاد ہے اور شرک سے بچنا لازمی ہے۔
توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان ہر معاملے میں اللہ پر مکمل بھروسہ کرے، اسی سے دعا کرے، اور اسی کے فیصلوں پر راضی رہے۔ "اور جو اللہ پر بھروسہ کرے، اللہ اس کے لیے کافی ہے۔" (الطلاق: 3). یہی توحید کا اصل حسن ہے کہ بندہ کسی مخلوق سے ڈرنے یا کسی اور سے امید لگانے کی بجائے صرف اور صرف اللہ پر یقین رکھے۔
انسان سے غلطیاں ہو سکتی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کو معاف کر دیتا ہے۔ جو شخص اپنے عقیدے میں کوئی غلطی کر بیٹھے، اسے فوراً توبہ اور استغفار کرنا چاہیے اور توحید پر مضبوطی سے جم جانا چاہیے۔ "اور تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو، اے مومنو! تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔"
(النور: 31). نبی کریم ﷺ نے بھی توحید کی حفاظت کے لیے یہ دعا سکھائی: اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي لَكَ شَكُورًا، لَكَ ذَكُورًا، لَكَ رَهَّابًا، لَكَ مُطَوِّعًا، إِلَيْكَ مُخْبِتًا أَوَّاهاً مُنِيبًا "اے اللہ! مجھے تیرا شکر گزار، تیرا ذکر کرنے والا، تجھ سے ڈرنے والا، تیری اطاعت کرنے والا اور تیری طرف جھکنے والا بنا دے۔"
نتیجہ
عقیدۂ توحید اسلام کا سب سے بنیادی اور سب سے اہم عقیدہ ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو تمام نبیوں نے دیا، یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں کامیاب کرتا ہے، اور یہی وہ حقیقت ہے جو انسان کو شرک کی گمراہیوں سے بچاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ:
✔ اپنے عقیدۂ توحید کو مضبوط رکھیں
✔ ہر قسم کے شرک اور بدعات سے بچیں
✔ اللہ پر مکمل بھروسہ کریں اور اس سے ہی مدد مانگیں
✔ ہمیشہ دعا اور استغفار کرتے رہیں
دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں سچی توحید پر قائم رکھے اور اس پر استقامت عطا فرمائے اور ہر ہر قسم کے شرک سے وہ جلی ہو یا خفی اس سے اپنی پناہ میں رکھیں ۔ آمین
تبصرہ لکھیے