رمضان المبارک برکت، رحمت اور تقویٰ کا مہینہ ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہر مسلمان کے دل میں نیکی کا شوق پیدا ہوتا ہے، عبادات میں اضافہ ہوتا ہے، اور غریبوں کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنے کی ترغیب ملتی ہے۔
مگر افسوس کہ یہ بابرکت مہینہ آتے ہی کچھ تاجر اپنی ایمانی غیرت کو پسِ پشت ڈال کر مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔ گویا یہ مقدس مہینہ ان کے لیے عبادت کا نہیں، بلکہ ناجائز منافع خوری کا موسم بن جاتا ہے۔جس رمضان میں ہم سخاوت، ایثار اور دوسروں کی مدد کے دروس سنتے ہیں، اسی رمضان میں قیمتوں میں بے جا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اشیائے خوردونوش جو عام دنوں میں مناسب قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں، رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اچانک مہنگی ہو جاتی ہیں۔ گویا کسی نادیدہ قوت نے ان کے نرخ بڑھا دیے ہوں۔ پھل، سبزیاں، گوشت، دودھ اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہیں۔ اس ظلم کے مرتکب صرف بڑے سرمایہ دار ہی نہیں، بلکہ گلی محلوں کے دکاندار بھی اس دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
ذخیرہ اندوزی کی صورتِ حال اور بھی تشویشناک ہے۔ مارکیٹ میں ایک مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا جاتا ہے، اور جب لوگ مجبوری میں مہنگی اشیا خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، تو ذخیرہ شدہ مال نکال کر دوگنی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ وہ طریقۂ کار ہے جسے اسلام سختی سے منع کرتا ہے، مگر بدقسمتی سے رمضان میں یہ زیادہ عام ہو جاتا ہے۔یہ رویہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کے منافی ہے بلکہ انسانیت سے بھی گری ہوئی حرکت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جس نے ذخیرہ اندوزی کی، وہ گناہ گار ہے" (مسلم)۔
آپ ﷺ نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ ایسا شخص اللہ کی لعنت کا مستحق ہے جو لوگوں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ پھر یہ کون لوگ ہیں جو رمضان کے مقدس ماحول میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں؟اصل روزہ تو یہ ہے کہ ہم خود بھوکے رہ کر دوسروں کی بھوک کا احساس کریں۔ مگر یہاں معاملہ الٹ ہو جاتا ہے۔ جو چیزیں سستی اور عام دستیاب ہونی چاہئیں، وہی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ تاجر اگر چاہیں تو رمضان میں قیمتیں کم کر کے ثواب کمائیں، مگر وہ نفع کی ہوس میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ حلال و حرام کی تمیز بھول جاتے ہیں۔ایسے میں حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سختی سے ان عناصر کے خلاف کارروائی کرے جو رمضان کو کمائی کا موسم بنا لیتے ہیں۔
لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ تاجر خود اپنا محاسبہ کریں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ جو چند دن کی دنیا کے لیے وہ ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں، اس کا حساب قیامت کے دن کیسے دیں گے؟ وہ کیسے اللہ کے حضور کھڑے ہو کر کہیں گے کہ "میں نے روزہ تو رکھا تھا، مگر ساتھ ہی روزہ داروں کو تکلیف بھی دی تھی؟"یہی وہ وقت ہے جب ہمیں بطور مسلمان اپنی تجارتی اخلاقیات کا جائزہ لینا ہوگا۔ رمضان صرف نمازوں اور روزوں کا نام نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا بھی مہینہ ہے۔ اگر ہم واقعی اللہ کی رضا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی تجارت کو بھی اللہ کی رضا کے تابع کرنا ہوگا، نہ کہ صرف اپنی جیب کے حساب سے چلانا ہوگا۔
کاش ہمارے تاجر سمجھ سکیں کہ اصل نفع صرف وہی ہے جو آخرت میں ملے، اور وہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ایمانداری، دیانت داری اور دوسروں کی بھلائی کو اپنی تجارت کا اصول بنائیں۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دنیا کمانے کے چکر میں آخرت کے دیوالیہ ہو جائیں۔
تبصرہ لکھیے