تاریخ گواہ ہے کہ ایک ایسا شخص برصغیر پاک و ہند میں پیدا ہوا ، جس نے اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر سے لڑنے کی احمقانہ کوشش کی، لیکن ناکام رہا وہ تھا مرزا غلام احمد قادیانی ۔ اگر آپ تاریخ کی اس متنازعہ شخصیت کو پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ اس کی زندگی کا ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ اللہ رب العزت نے نشان عبرت بنا دیا ۔
مرزا قادیانی نے اپنی کتاب ’’ روحانی خزائن ‘‘ کے رسالہ جات جن کے عناوین ’’ تریاق القلوب ، حقیقۃ الوحی ، براھین احمدیہ ‘‘ میں اپنے نسب اور تاریخ پیدائش کو کچھ اس طرح نقل کیا ۔ 1256ھ بمطابق 1839ء یا 1840ء ۔یا پھر 1256ھ بمطابق 1845ء ۔ موصوف نے لکھا ۔
’’ یہ خاندان فارسی الاصل ہے ‘‘(جلد نمبر 13ص162 )
’’ ہمارے خاندان کی اصلیت ظاہر ہے کہ وہ قوم برلاس مغل ہیں ‘‘(جلد نمبر 15ص273)
’’میری بعض دادیاں سادات میں سے ہیں ‘‘ (جلد نمبر 21ص363)
’’ اس عاجز کا خاندان نہ فارسی ہے نہ مغلیہ ، نہ معلوم کس غلطی سے مغلیہ خاندان کے ساتھ مشہور ہو گیا ۔ ‘‘ (ر۔خ : جلد 22ص 81)
آپ اندازہ کریں اس شخص کا تحریری تضاد جس نے خود کو دنیا وی غرض و غایت اور لالچ کی بنا پر اللہ کا نبی گردان کر اپنے لیے ذلت و رسوائی کا سامان پیدا کیا ۔ مرزا صاحب کو اپنے خاندان اور نسب کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخ پیدائش کا بھی مکمل اور درست علم نہ تھا اگر تھا تو وہ ہر جگہ اپنی ذات برادری ایک لکھتا ۔ اگر نہیں تھا تو اس کا مطلب وہ جگہ جگہ جھوٹ کا سہارا لیتا رہااور تاریخ اس کو گندا کرتی رہی ۔ اس دنیا میں جب بھی کوئی ایسا انسان پیدا ہوا جس نے اسلام اور امت مسلمہ کے عقیدہ و منہج اور جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی تو اللہ رب العزت نے وہیں پر ایسے لوگوں کے رد و تردید کے لیے اپنے اولیاء کو چن کر ختم نبوت کا تحفظ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و حرمت کی حفاظت کی۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے 1882میں خود کو ’’ اللہ کا مخاطب اور الہام یافتہ ‘‘ قرار دیا ، 1884ء میں اس نے خود کو ’’ محدث اللہ ‘‘ اور ’’ مادہ فاروقی ‘‘ قرار دیا ۔ یہ القابات اس نے خود اپنے رسالہ ’’ براھین احمدیہ ‘‘ میں جگہ جگہ درج کیے ۔ اسی سال مرزا غلام احمد قادیانی نے خود کو ’’ مثیل مسیح قرار دیا ۔ 22 جنوری 1891ء میں مرزا قادیانی نے ’’ توضیح مرام اور فتح اسلام ‘‘ نام کے دو رسالے شائع کیے جس میں اس نے بڑا واضح اعلان کر دیا کہ مسیح ابن مریم علیہ السلام جن کے آنے کی پشین گوئی قرآن اور صحیح احادیث میں ملتی ہے وہ فوت ہو چکے (معاذاللہ) اور جو ایسا شخص قرب قیامت نمودار ہو گا وہ مسیح موعود ہو گا اور وہ میں ہوں ( معاذ اللہ ) پھر 17مارچ 1894ء میں مرزا قادیانی نے ایک اشتہار شائع کیا جس کا نام ’’ معیار الاخیار ‘‘ تھا لکھ کر یہ دعوی بھی کر دیا کہ وہ ’’ مہدی موعود ‘‘ بھی ہے ۔
1891ء سے لیکر 1897ء تک مرزا قادیانی نے جب علماء حق کی طرف سے خوب مزاہمت دیکھی تو اس نے ’’ جزوی نبی ، ناقص نبی ، غیر حقیقی نبی اور مجازی نبی‘‘ ہونے کے دعوے اپنے رسالوں ’’ ازالہ اوہام ، انجام آتھم ، سراج منیر ‘‘ میں تحریر کر دیئے ۔ اس کے بعد 1901ء میں مرزا قادیانی نے اپنے رسالے’’ حقیقۃ النبوۃ ‘‘ میں کلی طور پر اپنے حقیقی نبی ہونے کا دعوی کر دیا ( معاذ اللہ ) ۔ اشتہارات ، رسالوں ، جرائد میں یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ ساتھ ہی ساتھ علماء حق علماء اہلحدیث بھی اس کی سازش افروز تحریروں ، من گھڑت اور موضوع عقائد کی ترویج کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے ۔
’’علماء اہلحدیث کی خدمات اور رد قادیانیت ‘‘
یہ بات تو طے ہے کہ 1882ء سے 1901ء تک علماء حق نے مرزا قادیانی کی کذب بیانیوں پر ایسی شاندار کاری ضربیں لگائیں کہ قادیان سے ربوہ تک آج بھی انکے مربی اگر سب سے زیادہ کسی مسلک ، منہج کے مناظرین اور علماء محدثین سے خوف کھاتے ہیں تو والحمدللہ ! وہ اہلحدیث ہیں ۔ اہلحدیث قافلہ کے سالار جنہوں نے قادیانیت کی اینٹ سے اینٹ بجائی وہ ’’ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ ‘‘ ہیں ۔ جنہوں نے جو لائی 1891ء میں بھارتی شہر لدھیانہ میں مرزا قادیانی سے ایک زبردست تحریری مناظرہ کیا جو تقریباً 12روز چلا اور مرزا قادیانی کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور اس نے راہ فرار اختیار کی ۔ 1891ء میں شیخ الہند ’’ مولانا نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ ‘‘ نے مرزا قادیانی پر کفر کا فتویٰ لگایا ۔جس کی تائید میں ہند کے 200علماء نے تحریریں لکھیں ۔ میاں صاحب کا جواب الشاعۃ السنہ کے 82یا 110 صفحات پر مشتمل ہے ۔
اس کے علاوہ اہلحدیث کے مشہور جیدعلماء جن میں ’’ مولانا محمد بشیر سہسوانی ‘‘ جن کا تعلق بھوپال شہر سے تھا مولانا نذیر حسین دھلوی رحمہ اللہ اور مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کی علمی تائید و نصرت کے لیے دہلی پہنچے ۔ اور مرزا قادیانی سے مناظرہ کرنے کے لیے کوشش و کاوش کرنے لگے لیکن مرزا قادیانی ان شیروں کا سامنا کرنے سے قاصر رہا ۔ اس کے علاوہ مرزا قادیانی کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے ’’مولانا عبدالحق غزنوی رحمہ اللہ ، مولانا محمد ابراھیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ ، مولانا غلام دستگیر قصوری رحمہ اللہ ، منشی الٰہی بخش لاہوری رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی مرزا قادیانی کا علمی محاسبہ کیا ۔
لیکن ان جید علماء کرام میں ایک نام ایسا بھی تھا جس نے قادیانیوں کی نہ صرف نیندیں حرام کیں ۔ بلکہ قیامت تک کے لیے ان کی رد و تردید کا سامان پیدا کر دیا ۔ وہ تھے شیخ الاسلام مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ ۔ جنہوں نے آخری دم تک مرزا قادیانی کا علمی تعاقب کیا ۔ اس کی مختصر تفصیلات آئیندہ بیان ہوں گی جس سے اندازہ ہو گا کہ ختم نبوت کے تحفظ کے اس بے باک سپاہی نے کس طرح قادیانیوں کو شکست سے دوچار کیا ۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ اور رد قادیانیت
مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے تحفظ کے لیے خدمات کو جلدوں میں درج کیا جا سکتا ہے ۔ اس لیے کوشش کروں گا کہ مختصر اً شیخ کی خدمات کا احاطہ کر سکوں ۔ مولانا نے جب بھی مرزا قادیانی کے رد اور بطلان کے لیے قلم اٹھایا تو سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دی کہ اس کے جھوٹ اور کذبیات کو لوگوں کے سامنے پیش کیا جا سکے ۔جس میں انہوں نے 1905ء میں ایک رسالہ’’ الہامات مرزا‘‘ تحریر کیا ۔ 1907میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے مرزا قادیانی کے رد کے لیے ایک ماہانہ رسالہ شائع کیا جس کا نام ’’مرقع قادیانی ‘‘تھا۔
1909 ء میں مرزا قادیانی کے مرید ’’ حکیم نور الدین ‘‘ نے ’’صحیفہ آصفیہ ‘‘ لکھا جس میں اس نے دعوی کیا کہ 1908ء میں حیدر آباد دکن میں آنے والا طوفان جس میں سینکڑوں لوگ موت کے منہ میں گئے وہ مرزا قادیانی کی پشین گوئی کی وجہ سے آیا ۔جس کے رد پر مولانا نے ’’ صحیفہ محبوبیہ ‘‘ نامی رسالہ تحریر کیا ۔ جس میں مولانا نے حکیم نور الدین کو اس کی چمچہ گیری کا چہرہ دیکھایا اور یہ ثابت کیا کہ جس طرح مرزا قادیانی جھوٹا ہے اسی طرح اس کا محبوب حکیم نور الدین بھی جھوٹا ہے ۔ 1917ء میں ’’ مرقع قادیانی ‘‘ کے منتخب مضامین کو کتابی شکل میں شائع کیا گیا ۔ اپریل 1912ء میں مولانا کا لدھیانہ میں ’’ مرزا قاسم علی قادیانی ‘‘ سے مناظرہ ہوا ۔ جس میں قاسم علی قادیانی کو منہ کی کھانا پڑی ۔
اس مناظرے کی روداد مولانا نے ایک رسالہ کی شکل میں شائع کی جس کا عنوان تھا ’’ فاتح قادیان ‘‘ ۔ اس مناظر ہ میں اس وقت مولانا نے 300روپے بطور انعام حاصل کیے ۔ 1919ء میں مولانا نے مرزا قادیانی کی زندگی پر ایک کتاب لکھی ۔ جو اسکی کذب بیانیوں ، تضادات اور اس کی اپنی تحریر شدہ کتابوں اور رسالوں پر مبنی تھی جس کا نام ’’ تاریخ مرزا ‘‘ تھا ۔ اس کے بعد 1939ء تک مولانا نے مرزا قادیانی کے رد پر بہت سے رسالے تحریر کیے جس کی نذیر نہیں ملتی جس میں ’’ ہفوات مرزا ، تعلیمات مرزا ، اور ثنائی پاکٹ بک ‘‘مشہور ہیں۔ اور جس سے دوسرے مسالک نے بھی خوب علمی فائدہ حاصل کیا اور تحریک ختم نبوت میں قادیانی مربیوں کو ذلیل و رسوا کیا ۔
مولانا امرتسری رحمہ اللہ نے بر صغیر پاک ہند کے تقریبا 82شہروں میں تحریک ختم نبوت کے حوالے سے منعقدہ جلسوں میں اہلحدیثوں کی نمائندگی کی ۔ حید رآباد دکن ، دہلی ، پٹھان کوٹ ، امرتسر ، بٹالہ ، لدھیانہ ، جموں کشمیر ، لاہور ، چنیوٹ ، فیصل آباد ، گوجرانوالہ ، سیالکوٹ و دیگر مشہور شہروں میں بڑے بڑے جلسوں میں مرزا قادیانی اور اس کے پیرو کاروں کا تعاقب کیا ۔ اور عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے تحفظ کے لیے اپنے فرائض کو نہایت خلوص اور جاں فشانی سے سرانجام دیا ۔
یوں تو شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی زندگی پر بہت سی کتب و رسائل و مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔ لیکن رد قادیانیت کے حوالے سے مذکورہ بالا تمام تر تفصیلات کو اگر غائر نظر سے مطالعہ کرنا ہو تو ’’ الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ ‘‘ کی کتاب ’’ فتنہ قادیانیت اور مولانا ثنا ء اللہ امرتسری رحمہ اللہ ‘‘ ضرور قابل ذکر ہے ۔
اس کے علاوہ مسلک دیوبند کے نامور عالم دین ’’ مولانا منظور احمد چنیوٹی ‘‘ نے اپنی کتاب ’’ رد قادیانیت کے زریں اصول ‘‘ میں بھی رد قادیانیت کے حوالے سے شیخ الاسلام کی خدمات کو تسلیم کیا ۔ مسلک بریلویہ کے ’’ متین خالد صاحب ‘‘ نے اپنی کتاب ’’ ثبوت حاضر ہیں ‘‘ میں بھی شیخ الاسلام کی تحفظ ختم نبوت کے لیے جہود کا پرچار کیا ۔ اور وہ تمام تر تفصیلات درج کیں جس سے ثابت ہو تا ہے کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے ساتھ مباہلہ کی صورت میں ہی مرزا قادیانی جہنم واصل ہوا ۔ شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ احتساب قادیانیت ‘‘ میں شیخ الاسلام کے لازوال کام کی تعریف و تائید کی ۔
اس کے علاوہ عرب دنیا میں فتنہ قادیانیت کو صحیح معنی میں متعارف کروا کر اسلام کی خدمت کرنے والے امام العصر شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب ’’ اسلام اور مرزائیت ‘‘ میں شیخ الاسلام کی جہود طیبہ کو سنہرے الفاظ میں درج کیا ۔ غرض جتنے بھی علماء مشائخ و محدثین جنہوں نے ختم نبوت کے حوالے سے قادیانیت کا رد کیا وہ شیخ الاسلام کی پر خلوص کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیے بغیر نہ رہ سکے۔
فتح مباہلہ اور شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ
مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی سوانح حیات سے پتہ چلتا ہے کہ جب مرزا قادیانی نے 1891ء میں دعویٰ مسیحیت کیا تو تب آپ کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی ۔ یہ بات حقیقت ہے کہ جب مرزا قادیانی نے ’’ براھین ‘‘ کی پہلی جلد تحریر کی اور شائع کی تو ’’ دفاع اسلام ‘‘ کی وجہ سے بہت سے علماء مرزا قادیانی کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے تھے ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے شیخ الاسلام کو اس کی ہفوات اور انتشار المغزی کا علم ہوا ویسے ویسے آپ کے دل میں اس کے رد ، اس کے بطلان کے لیے خواہشات جنم لینے لگیں ۔
شیخ الاسلام نے مرزا قادیانی کے قریبی ساتھی ’’ حکیم نور الدین ‘‘ کے ساتھ کئی گھنٹوں تک تخلیہ میں مباحثہ و گفتگو کی اور عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے اپنے دلائل کو اس کے سامنے رکھا ۔ لیکن اس نے مزید مباحثہ کرنے سے انکار اس وجہ سے کر دیا کہ زیادہ مباحثوں میں کچھ حاصل نہیں ہوتا اس لیے ضروری ہے کہ آپ اللہ کے حضور مرزا کے متعلق استخارہ کیجیے۔ (تاریخ مرزا : ص69) شیخ الاسلام مولانا ثنا ء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے یہ استخارہ بھی کیا اور یہ استخارہ تقریباً 1894ء میں کیا جس میں شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے مرزا قادیانی کو ایک بند و تنگ کمرے میں کلین شیو داڑھی منڈے انسان کی شکل میں دیکھا ۔
آپ نے اندازہ لگا لیا کہ یہ شخص سنت کی مخالفت کرنے والا اور سنت اور عقیدے کو نقصان پہچانے والا انسان ہے ۔ اس تاریخ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ شیخ الاسلام نے تعلیم سے فراغت پاتے ہی مرزے کی تردید کا مشن سنبھال لیا تھا ۔اور یہ شیخ کی جہود کی تاریخ کے ابتدائی اوراق ثابت ہوئے ۔ اس کے بعد مولانا نے جب’’ الہامات مرزا‘‘ تحریر کی جس نے مرزائیوں کو بہت گہرے زخم دیئے جس پر مرزائیوں نے ’’ امرتسر ‘‘ میں بہت شور و غوغہ کیا ۔ جس پر 30اکتوبر 1902ء میں شیخ الاسلام کا مناظر ہ مرزائیوں کے مناظر ’’ مولوی سرور شاہ ‘‘ سے ہوا ۔ جس پر مرزائیوں کو زبردست شکست ہوئی ۔ جس پر مرزا قادیانی حواس باختہ ہو گیا ۔
پہلے تو اس کو معلوم تھا کہ میرا بڑا حریف ’’ محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ ‘‘ ہیں لیکن اب اس پر مولانا امرتسری رحمہ اللہ کا رعب و دبدبہ بھی طاری ہو چکا تھا ۔ جس پر مرزا قادیانی نے ’’ اعجاز احمد ‘‘ نامی اپنے رسالہ میں شیخ الاسلام کو گالیاں دیں اور بہت بڑا فریبی قرار دے دیا اور مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کو بھی گالیاں دیں ۔ اور گندی زبان استعمال کی ۔ یہ تمام تر تفصیلات لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مرزا نے اچانک شیخ الاسلام سے مباہلہ نہیں کیا کہ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ شاید سامنے فریق مخالف کو کم عمر نادان طالب علم ہے ۔ بلکہ لمحہ لمحہ درجہ بدرجہ شیخ الاسلام مرزائیوں اور خاص طور پر مرزا قادیانی کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے ۔
مرزا قادیانی نے شیخ الاسلام کو ایک رسالہ لکھ کر چیلنج دیا جس کا عنوان تھا ’’ اعجاز احمدیہ ‘‘ اور لکھا کہ اگر 5 دن میں اس کا جواب دے دیا جائے تو میں 10ہزار انعام سے نوازوں گا ۔ جس میں شیخ الاسلام نے اپنے رسالہ ’’ الہامات مرزا ‘‘ میں اس کے اشعار کی فصاحت کو ایسا ننگا کیا کہ مرزا قادیانی نے شیخ الاسلام کو قادیان آ کر دوبارہ زانہ بذانہ بیٹھ کر بات کرنے کا چیلنج کر دیا ۔ اور تین پشین گوئیاں بھی درج کیں
۱: مولانا میری پشین گوئیوں کو رد کرنے کے لیے قادیان نہیں آئیں گے ۔
۲: اگر اس چیلنج پر وہ مستعد ہوئے کہ کاذب صادق سے پہلے مر جائے تو وہ ضرور پہلے مریں گے.
۳: اور سب سے پہلے اس اردو مضمون اور عربی قصیدہ کے مقابلے سے عاجز رہ کر جلد تر ان کی رو سیاہی ثابت ہو گی ۔(ر۔خ۔جلد نمبر 19صفحہ نمبر 128)
مرزا قادیانی کی پشین گوئیوں کا حشر یوں ہوا کے 10جنوری 1903ء میں مولانا قادیان پہنچ گئے جس سے مرزے کی پہلی پشین گوئی باطل ہوئی ۔ اس پر شیخ الاسلام نے مرزا قادیانی کو اپنے پہنچنے کی خبربذریعہ خط دی ۔ جس پر مرزا قادیانی نے مختلف حیلے بہانے بنا کر مولانا سے گفتگو کرنے سے انکار کر دیا ۔ 11جنوری 1903کو ایک اور خط مرزا قادیانی کو ارسال کیا گیا اور شرائط مناظر ہ طے کرنے کے لیے لکھا ۔ جس پر مرزا قادیانی نے حیلے بہانے لکھ ڈالے ۔ اور کسی طرح بھی شیخ الاسلام کے سامنے بیٹھ کر مناظرہ کرنے سے قاصر رہا ۔ نومبر 1903میں شیخ الاسلام نے ہفت روزہ اہلحدیث کا اجراء کیا جس میں آریوں ، عیسائیوں اور خصوصاً قادیانیوں کی اسلام دشمنی کو ننگا کیا گیا ۔
1904ء میں قادیان میں زبردست طاعون پھیلا ۔ لیکن اس عذاب کے نزول کے بعد بھی قادیانی راہ ہدایت کو نہ پہچان سکے ۔ مرزا قادیانی مسلسل اس جریدے کی کاپیاں منگوا کر پڑھتا اور آگ بگھولا رہتا ۔ ہفت روزہ اہلحدیث کی مسلسل ضربوں نے مرزا قادیانی کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ۔ اس اخبار کی خصوصیت یہ تھی کہ شیخ الاسلام ہر اشاعت میں جو مضمون لکھتے تو مرزا قادیانی کو ’’ مردود ، کذاب ، دجال اور مفسد ‘‘ لکھتے ۔یہی وہ حق گوئی تھی جو مرزا قادیانی کو چبتی تھی ۔ جس پر 15اپریل 1907 میں مرزا قادیانی نے ایک اشتہار شائع کیا جس نے مرزا کے صدق و کذب کا دو ٹوک حتمی فیصلہ کر دیا ۔ مرزا قادیانی نے لکھا ۔
’’ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض اللہ کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون ، ہیضہ ، وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں وارد نہ ہوئیں تو میں اللہ کی طرف سے نہیں ۔ ‘‘ ( دوسرے صفحہ پر لکھتا ہے )
’’اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر دے اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے ۔ آمین ‘‘ ( پھر لکھتا ہےٌ )
’’ اس لیے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثنا ء اللہ میں سچا فیصلہ فرما وہ جو تیری نگاہ میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے یا کسی سخت آفت میں جو موت کے برابر ہو مبتلا کر ۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات : جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 578تا580)
یہ اشتہار شائع ہونے کے13ماہ 12 دن بعد 26 مئی 1908ء کو اپنے ہی مباہلہ کردہ اشتہار پر لکھی ہوئی بیماری سے مرزا قادیانی فوت ہو گیا ۔ مرزا قادیانی کی موت کی خبر قادیانی اخبار ’’ الحکم ‘‘ میں 28مئی کو شائع ہوئی وہ یہ تھی۔
’’ 25مئی کی رات کو مرزا پر ان کی قدیم بیماری اسہال کا دورہ پڑا ۔ اور یک بعد دیگر ے 11سے3 بجے کے درمیان 3زبردست دست آئے اور مرزا 26مئی کی صبح فوت ہو گیا ۔ ‘‘
بالکل اس سے ملتے جلتے الفاظ مرزا کی اہلیہ کے بھی ہیں جو مرزا قادیانی کے بیٹے نے روایت کیے ہیں ۔ دیکھئے ( سیرۃ المہدی ، جلد نمبر 1صفحہ نمبر 11) ۔ جبکہ شیخ الاسلام ، مرزا قادیانی کے فوت ہونے کے بعد 40سال تک حیات رہے ۔ اس طرح مرزا قادیانی کی دوسری اور تیسری پشین گوئی بھی باطل ثابت ہوئی جو اس نے اپنے رسالہ’’ اعجاز احمدیہ ‘‘ اور آخری اشتہار میں تحریر کی تھی ۔ اس طرح 26مئی حق و باطل کے الگ الگ ہو جانے کا دن قرار پایا ۔ یہ دن صرف شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی فتح کا دن نہیں بلکہ عالم اسلام کی فتح کا دن تھا ۔ اس دن اللہ رب العزت نے مسلک اہلحدیث کے جانباز کو عزت وشرف اور توقیر سے نوازا اور سلامتی عطا کی ۔ بلکہ غلبہ اسلام سے قادیانیوں پر تاقیامت ایک ایسا زلزلہ انگیر نقش چھوڑا جو آج بھی قادیانیوں کی تاریخ اور ان کے چہرے پر بد نما داغ کی طرح عیاں ہے۔
یہ علماء اسلام کیلیے علم کے سنہری باب کا اضافہ تھا ۔یہ دن تجدید عہد کا دن تھا کہ قیامت کی صبح تک شیخ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے نقش قدم پر چل کر ہر کذاب مدعی نبوت کا اسی طرح تعاقب کریں گے۔یہ دن فتح مباہلہ کا دن ہے ۔ یہ دن فتح مبین کا دن ہے ۔
تبصرہ لکھیے