ہوم << ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی کے نام ابنائے ندوہ کا کھلا خط

ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی کے نام ابنائے ندوہ کا کھلا خط

بخدمت معزز رکن مجلس انتظامی ندوۃ العلماء لکھنؤ
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔

جناب عالی!
آپ ہندوستان کی ایک نامور تحریک ندوۃ العلماء کی باوقار مجلس شوریٰ / مجلس انتظامی کے رکن ہیں جس کی عظیم تاریخ تحریک کے شان دار، تاب ناک اور باثروت ماضی کی گواہ ہے، آپ ایسی شخصیت کے حضور اس انقلابی، نظریاتی اور اصلاحی تحریک کی افادیت اور عہد حاضر میں اس کی ضرورت اور فعال کردار کی اہمیت کو بیان کرنا جو بنفس نفیس اس ورثہ کی امین ہو، ہم تحصیل حاصل سمجھتے ہیں۔ تحریک ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی کی رکنیت ملت اسلامی کا ایک باوزن منصب اور یہ بڑی ذمہ داری کا حامل ہے؛ اور اس میں کوئی دو راے نہیں کہ آپ تمام اساطین ندوہ اس منصب کی نزاکتوں اور تقاضوں کو ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ہماری نگاہ میں اس منصب کا بڑا تقاضا یہ بھی ہے کہ ابناے ندوہ اپنی مادر علمی میں نظر آنے والی بے ضابطگیوں، بد نظمیوں اور بے اعتدالیوں سے آپ کو مطلع کریں، حالات کی دگرگونی سے آپ کو باخبر رکھیں اور اصلاح احوال کے لیے آپ سے رجوع ہوں۔ چنانچہ پیش نظر مکتوب اسی غرض سے آپ کی خدمت میں مرسل ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے بعض احساسات جو عرصہ سے ندوی فضلا کی خلش دل بنے ہوئے تھے، آپ کی خدمت میں رکھنے کی جسارت کر رہے ہیں۔

یہ امر سخت تاسف و آزار کا باعث ہے کہ ابناے ندوہ اب عام طور پر یہ محسوس کرنے لگے ہیں اور گاہے گاہے ان کی زبانوں اور تحریروں سے بھی اس کا اظہار ہوتا ہے کہ مادر علمی اپنے بانیان کے مقصد و مشن سے ہٹ رہی ہے، اگر بار خاطر ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم یہ کہتے کہ ہٹ چکی ہے۔ مدتوں سے ندوی فضلا کے مابین ندوے کی زوال آمادگی اور انحطاط پذیری زیر بحث ہے، جس کے مختلف اسباب تجویز ہوتے رہے مگر اصلی سرا ہاتھ نہ آتا تھا۔ ابناے ندوہ کی آپسی گفت و شنید اور غور فکر کے نتیجے میں چند جزوی وجوہات ذہن میں ضرور ابھرتیں، ان میں ایک بڑی وجہ تفویض اختیارات و عہدہ جات میں بے احتیاطی اور لاپروائی کی بتائی جاتی تھی۔ ادھر پے بہ پے ایسے حالات پیش آئے جن کے بعد ناقدین انتظامیہ کی تو بات ہی جدا ہے، انتظامیہ کے ہر چت کو پٹ کہنے والے احباب بھی بے اختیار بلبلا اٹھے۔اس موقع پر ندوی فضلا کی ایک معتد بہ جمعیت کے ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ آخر یہ ساری کارروائیاں کن اصولوں کے تحت انجام پاتی ہیں۔ یہاں سے غور وفکر کا رخ اس طرف مڑا کہ آخر ندوے کے بانیوں نے ایسے عظیم ادارے اور اتنی بڑی تحریک کو چلانے کے لیے کچھ اصول بھی مرتب کیے ہیں یا یونہی سب کچھ خیال دوست پر چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا بہت سے فرزندان ندوہ نے ندوۃ العلماء کے دستور کی تلاش شروع کی، خوش قسمتی سے اس کا ایک قدیم نسخہ ریختہ پر مل گیا جسے ۵۱۹۱ء میں مجلس انتظامی نے منظور کیا تھا۔ اس دستور کا وہ ایڈیشن ہمارے پیش نظر ہے جو ڈاکٹر عبدالعلی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایما پر ۶۳۹۱ء میں شائع ہواتھا۔ اس کے مزید ایڈیشن بھی طبع ہو چکے ہیں لیکن بوجوہ ان تک ہماری رسائی دشوارہے۔ ابناے ندوہ نے ابھی حال میں ۶۳۹۱ء کے اسی نسخہ کو جدید کتابت کے ساتھ برقی شکل میں شائع کیا ہے، جس کا عکس مکتوب کے ساتھ ارسال خدمت ہے۔

مذکورہ اشاعت سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ۶۳۹۱ء تک(اور کتب خانہ شبلی میں موجود بعض نسخوں کی مراجعت سے معلوم ہوتا ہے کہ آزادی ہند کے بعد تک) دستور کو مکمل بالادستی حاصل رہی اور تمام فیصلے دستور کی روشنی میں کیے جاتے رہے، ندوۃ العلماء حسب معمول شورائی اور دستوری روایتوں پر محو سفرتھا اور تمام تقرریاں دستور کے مطابق اور مجلس انتظامی کی مشاورت و منظوری سے طے پا رہی تھیں۔ اس دستور کو دیکھنے کے بعد ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی اور دستور کی روشنی میں زوال کے سارے ڈانڈے اس بات سے جڑے نظر آئے کہ موجودہ ندوۃ العلماء میں دستور کا کہیں عمل دخل سرے سے ہے ہی نہیں اور متعدد معاملات میں اس دستور کو بے طرح پامال کیا جا رہا ہے جو تحریک اور اس کے تمام شعبوں بالخصوص دار العلوم کی بقا کے لیے سخت نقصان رساں ہے۔

سال رواں 2025 کی مجلس انتظامی کے انعقاد کے موقع پرہم ابناے ندوہ اس مکتوب کے ذریعہ چند گزارشیں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ امید ہے کہ ان کو درخور اعتنا سمجھا جائے گا اور مجلس انتظامی کے حالیہ اجلاس میں ان کی تکمیل کی تحریک پوری قوت سے کی جائے گی۔

گزارشیں حسب ذیل ہیں:
دستور اور اس کے نفاذ کی اہمیت کسی ذی شعور سے مخفی نہیں، لہٰذادستورِ ندوۃ العلماء کے کلی نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔
بانیانِ ندوۃ العلماء کے عہد میں وقتاً فوقتاً دستور میں ترمیم و تبدیلی ہوتی رہی جو کسی بھی متحرک اور فعال وجود کا ایک فطری اور لازمی عمل ہے، لیکنان ترمیمات کے بعد تحریک ندوۃ العلماء کی جانب سے دستور کا ترمیم شدہ نسخہ لازماً شائع ہوتا تھا (چنانچہ اس وقت ۴۹۸۱ء، ۵۹۸۱ء، ۶۹۸۱ء، ۷۹۸۱ء اور ۵۱۹۱ء کے نسخے ہمارے پیش نظر ہیں)۔ ہماری گزارش ہے کہ ۵۱۹۱ء کے بعد دستور میں جو ترمیمات یاتبدیلیاں کی گئی ہیں، ان تمام نسخوں کوکم از کم محدود تعداد میں اور موجودہ نافذ العمل دستور کو بڑی تعداد میں شائع کیا جائے۔
1936کے بعد دستور میں جو ترمیمات ہوئی ہیں، ان کی قانونی و دستوری بنیادیں واضح کی جائیں۔
اگر موجودہ نافذ العمل دستور میں ۵۱۹۱ء کے منظور شدہ تحریک کے مقاصد، اساسی دفعات یا اصولوں کو کلیتاً ختم کر دیا گیا ہے یا ان میں قابل لحاظ تبدیلیاں کی گئی ہیں تو ان کی دستوری توجیہ بیان کی جائے۔
عزل و نصب اور ان کے میعاد کے تعین کی ساری کارروائیاں دستور کی روشنی میں انجام دی جائیں۔
تحریک ندوۃ العلماء کے اسی دستور کے مطابق دار العلوم اس کا ایک ذیلی شعبہ ہے (دفعہ ۵۱)۔ اس امتیاز کو واشگاف لفظوں میں بیان کیا جائے۔
دستور منظور شدہ ۵۱۹۱ء کی دفعہ ۵۳ ضمن ۲ میں مجلس انتظامی کے اراکین کو انتخاب، اور عزل و نصب کا اختیاردیا گیا ہے۔ کیا یہ اختیار بدستور انھی اراکین کو حاصل ہے یا اب طریقہئ کار تبدیل ہو چکا ہے؟ ہم ابناے ندوہ اس کی تفصیل جاننے کے خواہش مند ہیں۔
مذکورہ دستور کی رو سے مجلس انتظامی تحریک ندوۃ العلماء کی سب سے طاقت ور اور با اختیار ہیئت حاکمہ ہے اور مجلس نظامت کو اس کا پابند رکھا گیا ہے۔ کیا یہ صورت حال ہنوز برقرار ہے یا مجلس نظامت کو مجلس انتظامی پر برتری عطا کر دی گئی ہے؟ وضاحت کی گزارش ہے۔
علاوہ بریں ہم آنجناب سے مودبانہ التماس کرتے ہیں کہ منسلکہ دستور کو بالاستیعاب ملاحظہ فرما کر مزید جن نکات اور دفعات کی روشنی میں ندوۃ العلماء کے موجودہ احوال کوآپ منافی دستور خیال فرمائیں، انھیں مجلس انتظامی کے جلسہ میں موضوع بحث بنائیں اور ان کے نفاذ کی اہمیت پر زور دیں۔

ہمیں قوی امید ہے کہ مجلس انتظامی کا یہ اجلاس مذکورہ تمام گزارشوں پر سنجیدگی سے غور خوض کر کے دستور ندوۃ العلماء کی روشنی میں ان پر فی الفور عمل درآمد کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔
آخر میں ہم خدا کے حضور دست بدعا ہیں کہ وہ ندوۃ العلماء اور اس کے دار العلوم کوحاسدین کے حسد، طالع آزماؤں کی تدابیراور فتنہ پروروں کے شرور سے ہمیشہ محفوظ رکھے، اسے اگلی سی رونق واستحکام پھر بخشے اور سارا جہاں اس کے چراغ علم و فکر سے منور و تاباں ہو، آمین۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر محمد عادل خان

ڈاکٹر محمد عادل خان کل ہند طلبہ مدارس فورم کے صدر ہیں۔ دارالعلوم ندوة العلماء کے فارغ التحصیل ہیں۔ دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی تعلق رہا، پھر جامعہ ہمدرد نئی دہلی سے Bums کیا۔ ان نسبتوں سے خود کو ندوی، قاسمی، علیگ اور ہمدردین کہتے۔ ایم ایس شعبہ علم جراحت (یونانی) میں پی جی اسکالر ہیں۔

Click here to post a comment