ہوم << آپ ریٹائرمنٹ لے لیں-جاوید چوہدری

آپ ریٹائرمنٹ لے لیں-جاوید چوہدری

566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480
جارج ڈبلیو بش دنیا کے خوش قسمت ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، بش فیملی امریکا میں دو سو سال سے امیر چلی آ رہی ہے، یہ لوگ پٹرول، اسپورٹس، انٹرٹینمنٹ اور اسٹاک کے کاروبار سے وابستہ ہیں، جارج بش سینئر جنوری 1989ء سے جنوری 1993ء تک امریکا کے صدر رہے، جارج ڈبلیو بش جونیئر جوانی میں بے راہ رو ہو گئے ، یہ شراب کی لت میں مبتلا ہو ئے اور خاندان کو ناکوں چنے چبوا دیے لیکن پھر بش سینئر کا ایک پادری دوست آگے بڑھا۔
بش جونیئر کو اپنی مریدی میں لیا اور یہ انھیں راہ راست پر لے آیا، بش جونیئر بھی بعد ازاں سیاست میں آئے، ٹیکساس کے گورنر بنے اور یہ 2001ء میں امریکا کے صدر بن گئے، یہ 20 جنوری 2001ء سے 20 جنوری 2009ء تک دو بار امریکا کے صدر رہے، ان کا دور ہنگامہ خیز تھا، ان کے دور میں نائین الیون، افغانستان اور عراق وار جیسے واقعات پیش آئے، یہ بڑی کامیابی سے ان تمام چیلنجز سے نبٹ گئے، یہ تین لحاظ سے خوش نصیب ہیں، پہلی خوش نصیبی سونے کا چمچ تھا۔
بش خاندان کا ہر فرد دو صدیوں سے منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہو رہا ہے، یہ رئیس ابن رئیس ہیں، یہ لوگ فیملی کی ہسٹری میں کبھی غربت سے متعارف نہیں ہوئے، دو، یہ تاریخ کے ان چند خوش نصیب انسانوں میں شامل ہیں جن کا باپ بھی عوامی ووٹ سے حکمران بنا اور یہ خود بھی لوگوں کا ووٹ لے کر اقتدار کے ایوان میں داخل ہوئے اور ان کی حلف برداری کی تقریب میں ان کے والدین بھی شامل تھے اور تین، یہ لوگ ان ادوار میں دنیا کی واحد سپر پاور کے حکمران رہے جب تاریخ اپنا رخ موڑ رہی تھی۔
جب دنیا نئے دور میں داخل ہو رہی تھی چنانچہ جارج بش دنیا کے خوش نصیب ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، یہ خوش نصیب بش جنوری 2009ء میں اپنی دوسری صدارتی مدت پوری کر کے سیاست سے ریٹائر ہو گئے، یہ ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیلاس میں اپنے فارم ہاؤس میں گئے اور یہ وہاں پچھلے آٹھ برسوں سے کتابیں پڑھ رہے ہیں، فلمیں دیکھ رہے ہیں، جانور پال رہے ہیں، گالف کھیل رہے ہیں، تیراکی کر رہے ہیں اور اپنی یادداشتیں لکھ رہے ہیں، یہ ان آٹھ برسوں میں ٹیلی ویژن پر آئے، انٹرویو دیا اور نہ ہی کوئی اخباری بیان جاری کیا، یہ مکمل طور پر گمنام زندگی گزار رہے ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا امریکا نے دو مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے گھر پر حملہ کیا، اسامہ بن لادن مارے گئے اور ان کا خاندان گرفتار ہو گیا، یہ نائین الیون کے بعد امریکا کی سب سے بڑی کامیابی تھی، صدر باراک اوباما نے کامیابی کی خبر جاری کرنے سے قبل جارج ڈبلیو بش سے رابطہ کیا اور انھیں وائیٹ ہاؤس آنے اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا اعلان کرنے کی دعوت دی، جارج بش نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’جناب صدر، میں ریٹائر ہو چکا ہوں، آپ امریکا کے صدر ہیں، آپ جانیں اور اسامہ بن لادن جانے‘‘ جارج بش کے انکار کے بعد صدر اوبامہ نے وہ اعلان تنہا کیا۔
جارج ڈبلیو بش اکیلے نہیں ہیں، امریکا میں اس وقت تین سابق صدر حیات ہیں، آپ نے کبھی ان کے بارے میں کوئی خبر سنی یا پڑھی نہیں ہو گی، صدر بل کلنٹن کبھی دنیا کی طوطی ہوتے تھے، یہ 15 برس سے گمنام زندگی گزار رہے ہیں، یہ کبھی کبھار اپنی بیگم ہلیری کلنٹن کی وجہ سے سامنے آ جاتے ہیں ورنہ لوگ اب تک ان کا نام بھی بھول چکے ہوتے، بل کلنٹن سے قبل جارج بش سینئر امریکا کے صدر تھے، یہ کہاں چلے گئے، یہ کیا کرتے رہے اور یہ کیا کر رہے ہیں، کوئی نہیں جانتا، آپ باقی دنیا کی مثال بھی لے لیجیے۔
منموہن سنگھ 10 سال بھارت کے وزیراعظم رہے، آپ نے پچھلے اڑھائی برسوں سے ان کی کوئی خبر نہیں سنی ہو گی، یہ اپنے نواسوں اور نواسیوں سے کھیل کر وقت گزار رہے ہیں، اٹل بہاری واجپائی بھی چھ سال لائم لائیٹ میں رہے، یہ بھی گمنام ہو چکے ہیں، جان میجر نومبر 1990ء سے مئی 1997ء تک برطانیہ کے وزیراعظم رہے، یہ ریٹائر منٹ کے بعد آج تک میڈیا میں نہیں آئے، یہ لارڈز میں تماشائیوں کے درمیان بیٹھ کر کرکٹ میچ دیکھتے ہیں، جاگنگ کرتے ہیں اور کتابیں پڑھتے ہیں۔
مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی آئرن لیڈی تھیں، کریڈٹ کارڈ سے لے کر شمالی آئر لینڈ کی آزادی تک مارگریٹ تھیچر نے بر طانیہ کی تاریخ کے بے شمار بڑے فیصلے کیے، یہ بھی نومبر 1990ء میں ریٹائر ہوئیں اور اپریل 2013ء میں اپنے انتقال تک گمنام زندگی گزار دی، آپ حالیہ تاریخ میں ٹونی بلیئر، گورڈن براؤن اور ڈیوڈ کیمرون کی مثال بھی لے لیجیے، یہ لوگ بھی آئے، حکومت کی، رخصت ہوئے اور اب چپ چاپ ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں، کیا یہ لوگ بے وقوف ہیں، کیا یہ اب ’’لائم لائیٹ‘‘ میں نہیں آ سکتے یا پھر میڈیا، سیاست اور عوامی زندگی کو اب ان کی ضرورت نہیں رہی؟
جی نہیں، یہ بھی انسان ہیں، یہ بھی انسانی تقاضوں میں گندھے، بنے ہوئے لوگ ہیں اور میڈیا ہر وقت ان کے پیچھے بھی بھاگتا رہتا ہے لیکن یہ زندگی اور انسان کی حقیقتوں سے واقف ہو چکے ہیں، یہ جان چکے ہیں، یہ دنیا عارضی ہے اور زندگی مختصر، ہم لوگ بلبلے میں زندہ ہیں، یہ بلبلہ کسی بھی وقت پھٹ جائے گا اور ہم ’’ہیں سے تھے‘‘ ہو جائیں گے چنانچہ یہ اپنے فرائض پورے کر کے ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں اور زندگی کے آخری حصے میں اپنی وہ تمام خواہشیں پوری کر رہے ہیں جن کی گٹھڑی سر پر اٹھا کر یہ لوگ عمر بھر بھاگتے رہے، یہ لوگ اپنی اپنی ذات میں صوفی جیسی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں، یہ نفس مطمئنہ بن چکے ہیں۔
میاں نواز شریف اپنی سیاسی زندگی میں ان تمام لوگوں سے رابطے میں رہے، یہ ان سے ملتے بھی رہے اور یہ ان لوگوں کی زندگی کے تمام ظاہری اور خفیہ پہلوؤں سے بھی واقف ہیں لیکن انھوں نے اس کے باوجود ان لوگوں سے کچھ نہیں سیکھا، یہ ان کو دیکھ کر بھی ’’ریٹائر منٹ پلان‘‘ نہیں بنا رہے، یہ عمر عزیز کی 66 بہاریں دیکھ چکے ہیں، شوگر کے مریض ہیں، شوگر کی وجہ سے ان کی ٹانگ کا زخم ٹھیک نہیں ہو رہا، ڈاکٹر بار بار کہہ رہے ہیں آپ جب تک خوراک کنٹرول نہیں کریں گے۔
شوگر کنٹرول نہیں ہو گی اور جب تک شوگر کنٹرول نہیں ہو گی آپ کا زخم ٹھیک نہیں ہو گا لیکن یہ ڈاکٹروں کی وارننگ کے باوجود آلو گوشت بند نہیں کر رہے، یہ مسلسل میٹھا بھی کھا رہے ہیں، میاں نواز شریف کو شوگر کا مرض جدہ میں لاحق ہوا تھا، یہ اس دور میں ’’نرالہ سویٹس‘‘ کی مٹھائیوں کے عادی ہو گئے، میاں صاحب کے زائرین اس کمزوری سے واقف تھے چنانچہ یہ انھیں دھڑا دھڑ مٹھائیاں سپلائی کرنے لگے۔
میاں صاحب مٹھائی کے اتنے عادی ہو گئے کہ یہ رات کے وقت بھی سائیڈ ٹیبل پر مٹھائی کی پلیٹ رکھ کر سوتے تھے یوں مٹھائی کے کثرت استعمال، جلاوطنی، جائیداد اور سیاسی ورثے کی ضبطی نے انھیں شوگر پیشنٹ بنا دیا، رہی سہی کسر ایکسرسائز کی کمی اور آلو گوشت نے پوری کر دی، لوگ ہمیشہ میاں نواز شریف کے ساتھ سری پائے اور نہاری کو نتھی کرتے ہیں جب کہ حقائق بالکل مختلف ہیں۔
یہ سری پائے اور نہاری نہیں کھاتے، یہ آلو گوشت پسند کرتے ہیں، وزیراعظم کے تین خانسامے الگ الگ آلو گوشت پکاتے ہیں، یہ تینوں کی تخلیق کو ’’ٹیسٹ‘‘ کرتے ہیں اور جس آلو گوشت کو معیاری پاتے ہیں یہ اس کی منظوری دے دیتے ہیں یوں اس دن آلو گوشت کا وہ برانڈ ان کے دستر خوان کی زینت بن جاتا ہے، یہ کمزوری ان کی شوگر کنٹرول نہیں ہونے دے رہی اور اوپر سے دھرنے، پانامہ لیکس، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سرد مہری اور ڈھیلا ہوتا ہوا سسٹم یہ تمام چیزیں مل کر انھیں بند گلی کی طرف لے جا رہی ہیں اور یہ اپنی صحت، اپنی پارٹی اور اپنے ملک تینوں کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔
میں حیران ہوں میاں نواز شریف اتنے دباؤ سے کیوں گزر رہے ہیں،یہ ریٹائرمنٹ کیوں نہیں لے لیتے؟ یہ حکومت خواجہ آصف، چوہدری نثار یا احسن اقبال کے حوالے کریں، یہ خود ایوان صدر میں بیٹھ جائیں، پارٹی کو ری آرگنائز کریں، پارٹی میں نیا خون داخل کریں، مراد علی شاہ جیسے لوگوں کو سامنے لائیں، عوام سے کیے وعدے پورے کریں اور تین سال بعد سیاست کو مکمل طور پر خیر باد کہہ دیں، لوگ انھیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
یہ زندگی اور کرسی دونوں عارضی ہیں، ہم کچھ بھی کر لیں، ہم ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتے اور ہم خواہ اہرام مصر بنا لیں یا اپنے اقتدار کے گرد دیوار چین کھینچ لیں، ہمارے تخت، ہماری کرسی اور ہمارے اقتدار کے سورج نے بالآخر ڈھل جانا ہے لہٰذا پھر جانے والی چیزوں اور ڈھلنے والے سورجوں سے اتنا دل لگانے کی کیا ضرورت ہے، آپ ڈیوڈ کیمرون کی طرح اقتدار کیوں نہیں چھوڑ دیتے، آپ باقی زندگی اللہ کے شکر اور پارٹی کی پرورش میں گزار دیں، آپ بھی ٹینشن فری رہیں اور نظام بھی چلتا رہے، آخر اس میں کیا خرابی ہے، آپ ریٹائرمنٹ کیوں نہیں لے لیتے۔