اپنی تحریر کو میں ایک نجی لَے سے شروع کر رہا ہوں۔ گزشتہ دنوں میں، محترم بھنڈر صاحب کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا۔ انھوں نے فیس بک پر اس سانحے کی اطلاع دی تھی اور میں نے تعزیت کا اظہار کیا اور ان کی والدہ محترمہ کے لیے کلمات خیر کہے۔ لیکن ناگزیر ذاتی وجوہ سے انھیں فون کرنے میں تاخیر ہو گئی۔ گوشت پوست کی معاشرت کے دباؤ میں آدمی سائبر معاشرت کے تقاضوں میں کوتاہی کر جاتا ہے۔ بعد ازاں جب ان کا شکوہ مجھ تک پہنچا تو مجھے شرمندگی ہوئی لیکن ان کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انھوں نے کرام الناس کی طرح میرے اعتذار کو قبول فرمایا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی والدہ محترمہ کو اپنی ردائے رحمت میں سمیٹ لے اور ان سے عفو و درگزر کا معاملہ فرمائے۔ میں خود ٹوٹا پھوٹا مسلمان ہوں لیکن بھنڈر صاحب کی ہدایت کے لیے دعاگو رہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی عافیت کا معاملہ فرمائے اور حق کو حق اور باطل کو باطل کے طور پر دیکھنے کی توفیق ارزانی فرمائے، اور انھیں ”علم کے حجاب“ سے نکل کر حقائق و اقدار تک پہنچنے کی ہمت و قوت عطا فرمائے، جیسا کہ شیخ اکبرؒ نے فرمایا ہے کہ ”العلم حجاب الاکبر“۔
آج کل بھنڈر صاحب نے اسلام اور شعائرِ دین کے خلاف محاذ کھولا ہوا ہے، اور رکاکت آمیز پوسٹوں کی بھرمار کی ہوئی ہے۔ اب تو اہلِ ایمان ان کو جواب بھی نہیں دیتے۔ مجھے بھی بعض احباب نے رابطہ کر کے ان سے دور رہنے کی ہدایت کی تھی لیکن میں نے ان سے معذرت کر لی۔ ویسے بھی ہمارے سارے اہلِ علم عذر جوئی اور عذر خواہی میں کمال کے درجے پر فائز ہیں۔ پھر ہمارے اہل علم میں دیانت داری کا بھی نہایت سنگین مسئلہ ہے، اور مذہب کی آڑ میں وہ اخلاقیات اور اقدار کو ہی فنا کر دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بھنڈر صاحب سے بات چلانا مذہبیت کے خلاف شاید کوئی ذاتی نوعیت کا مسئلہ ہے، لہٰذا ان سے اعراض ثواب کا کام ہے۔ ہمارے اہل علم اس بات سے شاید بے خبر نہ ہوں گے کہ ہمارا کلچر بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور مذہب دشمن مباحث اور تحریریں بہت تیزی سے اردو میں جڑ پکڑ رہی ہیں۔ یہ تحریریں بالعموم رکیک اور پست سطح کی ہیں لیکن اردو میں مذہبی فکری روایت کی عدم موجودگی، ثقافتی پسماندگی اور بے دماغ ملائیت کی وجہ سے یہی تحریریں بہت مؤثر ہو گئی ہیں۔ ایسی تحریروں کا ایک گیلری ایفیکٹ (gallery effect) ہوتا ہے، اور میرے نزدیک وہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا سامنا کرنے کے لیے بھنڈر صاحب کی تحریروں کا جواب دینا ضروری ہے۔ ایسے پاکستانی نوجوان جو مذہب سے محبت رکھتے ہیں سخت محاصرے میں آئے ہوئے ہیں کیونکہ مذہبی اہلِ علم ریت میں گھسنے اور گھسے رہنے کا رویہ رکھتے ہیں۔ اہل تجدد کے روبرو بڑا عرصہ مذہبی فتاویٰ سے کام چلانے کی کوشش کی گئی جس سے شکست مزید گہری ہو گئی۔ اسی طرح اب بھنڈر صاحب جیسے ملحدین اور درست تر معنی میں مرتدین کو گالی دینے یا ان کو نظرانداز کرنا بھی بے سود ہو گا۔
ارتداد اور الحاد میں ثقافتی مؤثرات اب فیصلہ کن اہمیت اختیار کر گئے ہیں، اور ان کا پشتیبان علم ان کو غیرمعمولی قوت فراہم کر رہا ہے۔ یہ ترتیب کچھ یوں ہے: تجدد، ارتداد اور الحاد۔ ہمارے نام نہاد روایتی علما نے تجدد کا جس طرح سامنا کیا ہے، اس سے مستقبل کا نقشہ بھی واضح ہو جاتا ہے۔ ارتداد کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دین اسلام کی کل معنویت کو سیاسی مذہبیت میں سمیٹ دیا گیا اور مذہبی سیاست کے خاتمے کے ساتھ ہی لوگ دین سے ہی برگشتہ ہونے لگے۔ جو تصورات اور نظریات سیاست اور سیاسی طاقت سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں تاریخ ان کو بہت جلد غیرمتعلق کر دیتی ہے۔ تاریخ کا لب لباب سیاسی طاقت کی ساخت اور اس پر حاکم تصورات کی تبدیلی ہے۔ جونہی سیاسی طاقت اپنی ہیئت تبدیل کرتی ہے، اس کے جوازی تصورات بھی غیر اہم ہو جاتے ہیں۔ مذہبی سیاست بازی کے دائرے سے باہر دین کی ہر معنویت ٹھٹھر کر رہ گئی اور اب اس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ مذہبی اہلِ علم تجدد، ارتداد اور الحاد کا جس طور سے سامنا کر رہے ہیں، وہ معاملات کو بدتر ہی بنا رہا ہے۔ بھنڈر صاحب جن مواقف کے نمائندہ ہیں، اگرچہ ان کی علمی بنیادیں کمزور ہیں لیکن ہمارے فکری طور پر پسماندہ کلچر میں اسے علم اور فکر کی معراج سمجھا جا رہا ہے۔ میرا ارادہ تو یہی ہوتا ہے کہ ان کی ہر تحریر کا جواب لکھوں لیکن کیا عرض کروں کہ زندگی کی مشقت نے ایسی کوئی مہلت ہی نہ دی۔
گزارش ہے کہ بھنڈر صاحب اپنے دعوے کے مطابق مارکسی ملحد ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ انکار اور اثبات کی قوت سے محروم دانشور ہیں۔ مثلاً زیر بحث تحریر ”زندگی کا مقصد“ کے پہلے ہی پیراگراف میں وہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کے لیے [سیاسی] آمر مطلق کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اگر خدا ہے ہی نہیں تو آمر مطلق چہ معنی؟ پھر یہ کہ آج کے ملحدین انسان کو مخلوق نہیں مانتے، وہ اسے ایک وجود (being) کہنے پر اکتفا کرتے ہیں جبکہ بھنڈر صاحب انسان کو ایک مخلوق سمجھتے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ مرتد کبھی ملحد یا دہریہ نہیں ہو سکتا، مرتد ہی رہتا ہے۔ ارتداد انسان کے existential decay کو ظاہر کرتا ہے، جو ایک وجودی تجربہ ہے جس کو بھاڑے کے نظریات سے نمٹایا نہیں جا سکتا۔ اگر ثقہ اور زندہ فکر میں ارتداد کی فکری توسیط ممکن نہ ہو تو وہ ایک نفسیاتی پیچاک کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس میں polemical پہلو غالب آ جاتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں بھنڈر صاحب خدا کا انکار تو نہیں کر پائے اس کی دشمنی پر اتر آئے ہیں۔ وہ مغرب کے مستعار فلسفے کو بھی ڈھنگ سے اپنے تجربے کی توسیط میں deploy کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ خدا اور بندے کے معاملات اس طرح سے زیر بحث لاتے ہیں جیسے سوتنیں اپنے جھگڑے نمٹاتی ہیں یا بچپن کے دوست آپس میں لڑ پڑیں۔ اسی باعث ان کی تحریریں رکاکت آلود ہوتی ہیں۔ بھنڈر صاحب کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارتدادی تجربے کی فکری توسیط کے طبع زاد یا خانہ زاد وسائل پیدا نہیں کر سکے اور یورپ کے نابودی فلسفیوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ یورپی فلسفے کے بنیادی مسائل کی جو مدرسانہ تفہیم ان کی تحریروں میں ظاہر ہوتی ہے وہ ان کی گہری وجودی اور فکری نارسائی پر دلالت کرتی ہے۔
براہِ بھنڈر ہمیں سپائنوزا، فیورباخ یا مارکس کی دہریت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ ہم ان کا براہِ راست مطالعہ کر کے اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھ ہے کہ ہمارا بھائی مرتد ہو گیا اور اپنے وجودی تجربے کی توسیط کے لیے مغربی فکر ان کی محض آڑ ہی بن سکی۔جیسے کہ بھنڈر صاحب انسان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں وہ ایک کثیر الجہت تخلیقی وجود ہے۔ یہ ایک لغو بات ہے۔ انسان اصلاً ایک قدری وجود ہے، یعنی ایسا وجود جو روحانی، اخلاقی اور جمالیاتی اقدار کا فطری اقتضا رکھتا ہے۔ یہ انسان کی وجودیات ہے، اور اس کی اساسی فعلیت تخلیق میں ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اس کا دائرہ کار becoming ہے۔ انسان کے تخلیقی جوہر کا اظہار صنعت یا شے سازی نہیں ہے بلکہ تشکیل ذات ہے جو اقدار کے بغیر ناقابل تصور ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انسان جو نئی سے نئی commodities ابداع کرتا ہے وہ اس ”کثیر الجہت تخلیقی وجود“ کا کمال ہے۔ آدمی اس طرح کے نتائج اس وقت اخذ کرتا ہے جب وہ انسان کو ایک مارکسی پیداواری فیکٹر یا سرمایہ دار کی نظر سے دیکھنے کا عادی ہو گیا ہو۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ زندگی کا مقصد متعین کرنے میں انسانی اختیار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن اگر انسانی زندگی کی معنویت کو نظرانداز کر دیا جائے اور انسانی اختیار پر زور دیا جائے اور اسے مقصد طے کرنے کا واحد ٹول بنا لیا جائے تو اس کی بنیاد صرف ضرورت ہی سے فراہم ہوتی ہے۔ ایک طرف وہ انسان کو تخلیقی وجود قرار دے رہے ہیں اور زندگی کا مقصد ضرورت کے تابع کر رہے ہیں۔ ان کا یہ موقف بھی تھوتھا چنا ہے۔ زندگی کی معنویت، اختیار سے پہلے متعین ہوتی ہے تو اختیار اس کے حصول کو ممکن بنا سکتا ہے۔ جدید انسان نے زندگی کے تمام مقاصد حیوان اور مشین کی سطح پر متعین کیے ہیں، جہاں ضرورت حاکم ہے اور کسی قدر کا گزر نہیں ہے۔ بھنڈر صاحب بھی اسی ایجنڈے کو لے کر چل رہے ہیں۔
جہاں تک مذہب پر بھنڈر صاحب کے اعتراضات کا تعلق ہے، تو وہ ایک روٹھے ہوئے آدمی کی بلبلاہٹ ہے۔ میں کسی وقت ان کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ اگر آدمی خدا سے روٹھ جائے اور کوئی ”ملحدانہ علم“ بھی تشکیل دے لے تو اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کی اپنی انسانیت کی affirmation بالکل غائب ہو جاتی ہے۔ جیسے کہ مالڈورر کے ہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ مثلاً مذہبی آدمی شیطان کا ایک بہت واضح تصور رکھتا ہے، اور صاف ظاہر ہے وہ کوئی معمولی ”شخصیت“ نہیں ہے، کیونکہ اسے بھی غیرمعمولی ”فکری“ عظمت حاصل ہے۔ جب آدمی اپنے خدا سے روٹھ جاتا ہے، اور اپنے جذباتی تشنج اور فکری گھٹن میں کوئی فلسفہ بنانے چل پڑتا ہے تو وہ جس locale میں پناہ لیتا ہے، وہ مذہبی آدمی کے لیے قطعی نامانوس نہیں ہے۔ علامہ فاؤسٹ بھنڈر صاحب سے کہیں زیادہ دیانت داری اور ترفع کے ساتھ اپنے وجودی اور روحانی تجربے کو اظہار میں لاتا ہے۔ علامہ فاؤسٹ کی عظمت یہ ہے کہ وہ بطور مکلف وجود لمحہ بھر کے لیے بھی اپنی تقدیر سے روگردانی نہیں کرتا، اور المیے کی بنیاد بھی یہی ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ رومانویت زدہ نہیں ہے۔ یونانی المیہ، رومانویت سے گزر کر تھیٹر آف دی ابسرڈ تک پہنچا ہے۔ تھیٹر آف دی ابسرڈ کے کردار کوئی مکلف مخلوق نہیں ہیں، بس انسان کا ملبہ ہیں۔ فکر اور عمل اس وقت بامعنی ہو سکتے ہیں جب انسان اولاً Human Condition کو قبول کر چکا ہو، جو آفاقی ہے اور جس کا جزو اعظم انسانی تقدیر کی واقعاتی حقیقت اور اس میں انسان کا مکلف ہونا ہے۔ بھنڈر صاحب کبھی بھی مکلف وجود کی جگہ پر کھڑے ہو کر گفتگو نہیں فرماتے، اور ان کی الغائے فکر کے لیے یہی کافی ہے۔
بھنڈر صاحب فرماتے ہیں کہ مذہب ” تیسرا کوئی راستہ نہیں“ دیتا۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ جس راستے پر چل رہے ہیں وہ یہی تیسرا راستہ ہے۔ اگر وہ ذرا آنکھوں پر زور دے کر دیکھیں تو علامہ فاؤسٹ اور مالڈورر اپنے سے آگے آگے دوڑے جاتے ضرور دکھائی دیں گے۔ علامہ فاؤسٹ ہی نے اس تیسرے راستے کی نشاندہی بطور ”شیطانی راستے“ کے خود ہی کی ہوئی ہے۔ Faustian bargain انسانی اختیار ہی سے پیدا ہوتا ہے اور جس تصورِ ضرورت اولیت رکھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ فاؤسٹ اپنے اختیار اور علم کے اظہار میں بھنڈر صاحب سے کہیں زیادہ دیانت دار واقع ہوئے ہیں، اور نتائج کو قبول کرنے میں بھی کہیں زیادہ heroic ہیں۔ بھنڈر صاحب اپنی سیاسی رومانویت کی وجہ سے Human Condition کو قبول کرنے کی تاب نہیں لاتے۔
وہ فرماتے ہیں کہ ” ”آزمائش“ کا فلسفہ انسان سے یہ حق چھین لیتا ہے“۔ ”آزمائش“ کوئی فلسفہ نہیں ہے، زندگی کی واقعیت ہے، اور ہیومن کنڈیشن کی بنیادی حقیقت یہی ہے۔ ابتلا کی واقعیت یونانیوں سے لے کر تھیٹر آف دی ابسرڈ تک جس طرح مغربی علوم کے قلب میں قائم ہے وہ شاید دنیا کے کسی اور ادب میں نہ ہو۔ یہاں بھنڈر صاحب صریحاً بھولپن سے کام لے رہے ہیں تاکہ اپنی مرضی کے نتائج اخذ کر سکیں۔
بھنڈر صاحب کو مذہب کے نظامِ جزا و سزا پر بھی بہت اعتراض ہے۔ میری گزارش ہے کہ کوئی انسان دوزخ میں نہیں جائے گا، دوزخ صرف ان لوگوں کا ٹھکانہ ہو گا جو دنیا میں ہی اپنی انسانیت سے دستبردار ہو گئے۔ انسانیت سے دستبردار ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے اندر اور باہر فطرت کو نظرانداز کر دیا۔ شرک اس کی ایک مثال ہے، اورِ انکار تام ایک دوسری مثال ہے۔ یہ بات عقل (یعنی جدید عقل) میں بھی نہیں آتی کہ انسان اپنے خالق کو نہ پہچانے۔ یہ ارادی طور پر ممکن ہے لیکن اس کی عقلی بنیاد غیرموجود ہے۔
تبصرہ لکھیے