ہوم << معذور - حمیراعلیم

معذور - حمیراعلیم

پاکستانی معاشرے میں خواتین یا شاید خود مرد بھی یہ کیوں چاہتے ہیں کہ انہیں معذوروں کی طرح ٹریٹ کیا جائے؟اس سوال کی وجہ ہر جگہ حتی کہ ڈراموں فلموں میں بھی اس بیوی، بہن،بیٹی، ماں کو اچھی خاتون ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرنا ہے جو صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے تک اپنے گھر کے ہر مرد کا ہر کام کرتی ہیں۔

بیڈ ٹی، کپڑے نکالنا ، تولیہ دینا، موزے، ٹائی، آزار بند ڈھونڈنا، بیڈ سائیڈ پر گھڑی والٹ رکھنا، شوز پالش کرنا، ناشتے کی میز پر انڈہ، پراٹھا پلیٹ میں چائےپانی کپ گلاس میں ڈالنا، ان کے اسکول، کالج، یونیورسٹی، آفس ، جاب کاروبار پر جانے کے بعد گندے کپڑے، تولیہ اٹھانا، چپل اسٹینڈ میں رکھنا،برتن کچن میں رکھنا دھونا، بستر بنانا، صفائی کرنا،ان کی واپسی پر بیگ، لنچ باکس لینا رکھنا، جوتے لے کر چپل صوفے پر بیٹھے مرد کو دینا، کھاناپیش کرنا ؛ بس نوالے چبا کر منہ میں ڈال کر انگلی سے حلق میں اتارنے کی کسر رہ جاتی ہے، ان کے قیلولہ کے وقت سارے بچوں کو خاموش رکھنا انہیں کمرے سے باہر رکھنا، شام میں ٹی وی کا ریموٹ سینٹر ٹیبل سے اٹھا کر صوفے پر بیٹھے مرد کو پکڑانا، ساتھ میں چائے، کافی، جوس اور اسنیکس پیش کرنا، رات کو پھریہی سب کام کرنا۔

یہ سب تو دنیا بھر میں معذور اشخاص بھی خود ہی کرتے ہیں۔ مگر آفرین ہے ہم پاکستانیوں پر جواچھے خاصے تندرست مردوں کو بھی معذوروں کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔ انہی مردوں کے گھر کی خواتین بھی پڑھتی ہیں، جاب بزنس یا کوئی اور کام بھی کرتی ہیں بچوں کو پالتی پڑھاتی ہیں۔گھر کی دیکھ بھال،صفائی، لانڈری ، بچوں کی پڑھائی اور اس کے ساتھ ساتھ مردوں کے سب کام بھی کرتی ہیں۔اور ایسے معذور مردوں کے گھر کی خواتین دو دن کے لیے کہیں چلی جائیں یا خدانخواستہ بیمار ہو جائیں تو سارا گھر تلپٹ ہو جاتا ہے۔کیونکہ مردوں کو تو نہ یہ معلوم ہے کہ گھر کے کام کیسے کرنے ہیں نہ ہی اپنی چیزوں کا پتہ ہے کہ کہاں ہیں ۔لہذا بیماری میں بھی انہیں آرام نہیں ملتا۔

اور جونہی کوئی اپنے گھر کے مردوں کو صحت مند لوگوں کی طرح ٹریٹ کرے۔اس عورت کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔کیونکہ بقول پاکستانیوں کے زنانیوں والے کام مردوں سے کروائے جا رہے ہوتے ہیں۔حالانکہ زنانیاں مردوں عورتوں والے سب کام کر رہی ہوتی ہیں تو کسی کو پرواہ ہی نہیں ہوتی۔دیہاتوں میں گھر کے ہر کام سے لے کر کھیتی باڑی، مویشیوں کی دیکھ بھال، پانی بھرنا یا کسی بھی سمال انڈسٹری کے گھریلو یونٹ میں بھی زیادہ تر کام عورت ہی کرتی ہے۔ شہروں میں یہی کام جاب بزنس یا گھر سے آن لائن کام میں بدل جاتے ہیں۔ میرے خیال میں تو ہر کام ہر شخص کی ذمہ داری ہے سوائے ان فرائض کے جو اللہ نے مرد عورت کی تخصیص کے ساتھ بتا دئیے۔کفالت کمائی مرد کا اور بچے پیدا کرنا پالنا عورت کا کام ہے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی نہ اپنے کپڑے دھوتے، نہ جوتے مرمت کرتے، نہ بکریوں کا دودھ دہوتے، نہ بیگمات کو سبزی بنا کر دیتے، نہ آٹا گوندھ دیتے، نہ آگ جلا دیتے ، نہ پانی بھر دیتے ۔ ان سب کاموں کے کرنے کے بعد اپنی مردانگی دکھانے کے لیے اور اپنا درجہ اوپر شو کرنے کے لیے طعنے بھی ضرور دیتے کہ بھئی میں نہ صرف تم سب کی کفالت کر رہا ہوں بلکہ سارے کاموں میں مدد بھی کر رہا ہوں۔میرے کام تو نو بیگمات مل کر بھی نہیں کر سکتیں۔میں اکیلا نو کے ساتھ گزارہ کر رہا ہوں۔ اور تو اور نو بیگمات، غلام لونڈیوں کے ہونے کےباوجود کبھی کھانا نہ ملتا تو لڑنے کی بجائے چپ چاپ روزہ رکھ لیتے۔

کیا یہی سب کام ہم اپنے مردوں کو نہیں سکھا سکتے؟؟؟؟ کیا یہ سب سنتیں نہیں ہیں۔مجھے یقین ہے بہت سے گھرانوں میں مرد سب نہیں تو چند سنتیں تو ضرور پوری کر ہی رہے ہوں گے۔اور جب یہی مرد بیرون ملک پڑھنے کام کرنے یا کسی فارن نیشنل لڑکی سے شادی کے لیے جاتے ہیں توگھر کا ہر کام کر لیتے ہیں کیونکہ وہاں امی، باجی،بیگم، بیٹی ساتھ نہیں ہوتیں اور میڈ افورڈایبل نہیں۔اور فارن نیشنل بیوی کو عادت ہوتی ہے اپنے کام خود کرنے کی۔تو بندہ خدا پاکستان میں یہ سب کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ہمارے خاندان میں بھی بہت سے معذور ہیں۔لیکن الحمدللہ زیادہ تر گھر کے ہر کام میں طاق ہیں۔ اور عورتوں کے ساتھ سارے کاموں میں مدد کرتے ہیں۔

یقین مانیے نہ ان کی مردانگی میں کمی ہوتی ہے نہ ہی عزت میں۔ کوشش کیجئے آپ بھی اپنے گھر کے مردوں کو صحت مند رہنے دیں۔اور بھائی لوگ آپ خود بھی کچھ ہل جل لیں تاکہ آپ کے گوڈوں گٹوں میں پانی نہ پڑے۔

Comments

Avatar photo

حمیرا علیم

حمیراعلیم کالم نویس، بلاگر اور کہانی کار ہیں۔ معاشرتی، اخلاقی، اسلامی اور دیگر موضوعات پر لکھتی ہیں۔ گہرا مشاہدہ رکھتی ہیں، ان کی تحریر دردمندی اور انسان دوستی کا احساس لیے ہوئے ماحول اور گردوپیش کی بھرپور ترجمانی کرتی ہیں۔ ایک انٹرنیشنل دعوی تنظیم کے ساتھ بطور رضاکار وابستہ ہیں اور کئی لوگوں کے قبول اسلام کا شرف حاصل کر چکی ہیں۔ کہانیوں کا مجموعہ "حسین خواب محبت کا" زیرطبع ہے

Click here to post a comment