ہوم << کیا کتاب میلے کا انعقاد کوئی جرم ہے؟ ارشد زمان

کیا کتاب میلے کا انعقاد کوئی جرم ہے؟ ارشد زمان

”تعلیمی ایمرجنسی“ کے نفاذ کے ذریعے علم کے فروغ کے دعویدار حکمرانوں نے طلبہ کو اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے ”کتاب اور علم کے کلچر“ کو پروان چڑھانے کے لیے خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور میں بک فیئر کا انعقاد کیا—ایک روایت جو برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ یہ کتاب میلہ کیا ہوتا ہے؟ اس کی عملی مثال اسلامی جمعیت طلبہ نے حال ہی میں جامعہ پنجاب میں پیش کی، جہاں تین روزہ کتاب میلہ منعقد ہوا۔
اس میلے میں:
• 150 سے زائد بک اسٹالز لگائے گئے۔
• ڈیڑھ لاکھ سے زائد کتب فروخت ہوئیں۔
• طلبہ، اساتذہ اور اہلِ علم کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
• شائقینِ کتب کے لیے مختلف کھانوں کے اسٹالز بھی لگائے گئے۔

سوال یہ ہے کہ ایسی مثبت سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کیوں؟ اور اس پر اعتراض کیوں؟
کیا اقتدار کے نشے میں چور حکمرانوں کو اندازہ ہے کہ وہ نئی نسل کو کس سمت دھکیل رہے ہیں؟
کیا انہیں تعلیمی اداروں کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا ادراک بھی ہے؟

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے، جس نے نوجوان نسل کے تعلیمی مستقبل اور اخلاقی حیثیت کو نہ صرف داؤ پر لگا دیا ہے بلکہ معاشرے اور ملک و قوم کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے۔ یہ مسئلہ معاشرتی، نفسیاتی اور سماجی سطح پر ایک بہت بڑی تباہی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

منشیات اور ہراسگی: تعلیمی اداروں کی بگڑتی صورتحال
پاکستان میں تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال ایک تشویشناک مسئلہ ہے۔ مختلف رپورٹس میں اس حوالے سے مختلف اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔
• مثال کے طور پر، ضیاء الدین یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ ایک ڈائیلاگ میں طبی ماہرین نے ورلڈ بینک کی 2019ء کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں 43 فیصد نوجوان الکوحل اور دیگر نشہ آور اشیاء استعمال کر رہے ہیں۔
• ایک اور سروے کے مطابق، پاکستان میں ہر 10 میں سے ایک یونیورسٹی کا طالب علم منشیات کا عادی ہے۔

اسی طرح، ایک اور تشویشناک صورتحال تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں۔ بدقسمتی سے، اب یہ مسئلہ صرف طلبہ تک محدود نہیں بلکہ انتظامیہ کے اہلکاروں اور یہاں تک کہ بعض اساتذہ کے خلاف بھی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اباحیت پسندی، غیر اخلاقی تعلقات اور ایک باقاعدہ کاروبار کی صورت میں اس مکروہ فعل کا فروغ ایک افسوسناک حقیقت بنتی جا رہی ہے، جو والدین کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔

کتب بینی کا زوال: ایک فکری بحران
کتب بینی میں مسلسل کمی بھی ایک سنگین فکری اور سماجی مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل مواد کی آسان دستیابی اور بدلتے ہوئے طرزِ زندگی نے مطالعے کی عادت کو شدید متاثر کیا ہے۔
• ڈیجیٹل مواد کی بھرمار، لائبریریوں کی زبوں حالی، مصروف طرزِ زندگی اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے مطالعے کا رجحان مسلسل کم ہو رہا ہے، اور نسلِ نو کتاب سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
• تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی دقیق مطالعے کے بجائے سطحی معلومات پر اکتفا کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں تنقیدی سوچ، تحقیق اور تجزیے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔

حکومت اور ریاست کی ذمہ داری
یہ ریاست اور حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے، خاص طور پر نوجوان نسل میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے لیے فکر مند رہیں اور اسکولوں، یونیورسٹیوں اور سماجی سطح پر مطالعے کو فروغ دینے کے لیے مؤثر مہمات چلائیں۔ لیکن افسوس کہ ریاست اور حکومتیں اس بنیادی فریضے کی انجام دہی میں ناکام نظر آتی ہیں۔ اخلاقی بے راہ روی، منشیات کے استعمال اور ہراسگی کے واقعات میں اضافے کے باعث طلبہ میں مایوسی، نفسیاتی عوارض اور خودکشی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کا حل تعلیمی اداروں میں میوزک کنسرٹس، کیٹ واکس، مخلوط تقریبات اور ثقافتی شوز کے نام پر اباحیت کو فروغ دینا نہیں، بلکہ علمی، تعلیمی، روحانی اور مثبت سرگرمیوں کا فروغ ہے۔ ان سرگرمیوں کو نہ صرف منظم کیا جائے بلکہ ایک باقاعدہ کلچر کے طور پر اپنایا جائے تاکہ نسلِ نو کو ایک صحت مند اور مثبت ماحول فراہم کیا جا سکے۔

اسلامی جمعیت طلبہ پر تشدد: ایک آمرانہ ذہنیت
اسلامی جمعیت طلبہ یونیورسٹی کیمپس پشاور کے نہتے کارکنان پر پولیس کا وحشیانہ تشدد تحریک انصاف حکومت کی آمرانہ ذہنیت کا عکاس ہے۔ گنڈا پور حکومت کو علمی سرگرمیوں، جیسے کہ کتاب میلے کے انعقاد پر فسطائیت اختیار کرنے کے بجائے، تعلیمی اداروں کی بہتری پر توجہ دینی چاہیے. گنڈا پور حکومت کی یہ آمرانہ روش قابلِ مذمت ہے.

اسلامی جمعیت طلبہ کا کردار اور مستقبل
اسلامی جمعیت طلبہ کو اپنی علمی اور مثبت سرگرمیوں کو پوری جرات، استقامت، حکمت اور وقار کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے اور معاشرے کے سنجیدہ حلقوں اور اساتذہ کرام کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں کو علم و عمل کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے اور معاشرے کو روشن اور خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔ اس باب میں اسلامی جمعیت طلبہ کی کاوشیں قابلِ قدر اور قابلِ تقلید ہیں۔

Comments

ارشد زمان

ارشد زمان سیاست و سماج پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھی موضوعات پر مطالعہ اور تجزیہ ان کا شوق ہے۔ اقامتِ دین کے لیے برپا تحریک اسلامی کا حصہ ہیں اور عملی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ حقیقی تبدیلی کے لیے عملی کاوشیں ان کے مشن کا حصہ ہیں۔

Click here to post a comment