میرے عزیز!
کبھی تم نے سوچا ہے کہ وہ لمحہ کیسا ہوگا جب غالب کا کوئی مصرع کسی مشین کی پیشین گوئی کے مطابق تشکیل دیا جائے گا؟ جب میر کی سادگی، اقبال کی بلندی، فیض کی بغاوت اور ن م راشد کا تجریدی طرزِ اظہار کسی الگورتھم کے ذریعے پیدا کیے جائیں گے؟ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ہم ایک ایسے عہد کی دہلیز پر کھڑے ہیں جہاں قلم انسانی انگلیوں سے نکل کر کسی بے روح اور جذبات سے عاری مشین کے سپرد ہونے والا ہے- نہ جانے کیوں میں آج اس قلم کے بارے میں غم زدہ ہوں جو کبھی رات کی تنہائی میں چراغ کی لو کے ساتھ لرز لرز کر حال دل لکھا کرتا تھا- وہی قلم جسے کبھی کسی شاعر کے ٹوٹے ہوئے دل کی دھڑکنیں تھام کر چلتی تھیں- مگر آج یہ سب ڈیٹا سیٹس، مشین لرننگ اور الگورتھمز کے تابع ہونے جا رہا ہے-
مجھے وہ شام یاد ہے جب میں نے پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت سے ایک کہانی لکھوانے کا تجربہ کیا۔ چند لمحوں میں ایک مکمل داستان میرے سامنے تھی- کردار متحرک تھے، مکالمے ترتیب یافتہ، اور کہانی کا بہاؤ منطقی۔ بظاہر یہ ایک بہترین تحریر دکھائی دے رہی تھی- لیکن کچھ لمحے غور کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ اس میں کچھ کمی تھی، اک بے نام سی خلا یا پھر کسی روح کے بغیر کوئی کھوکھلا وجود- سب کچھ درست تو تھا، مگر کہانی میں وہ اضطراب نہیں تھا جو کسی جیتے جاگتے ذہن کا تخیل ہوتی ہے- میں تمہیں بتاؤں، اس کہانی کو میں نے کئی مرتبہ پڑھا لیکن یہ الفاظ کسی سامری کے کھوکھلے بچھڑے کی مانند شور تو کرتے رہے مگر ان میں زندگی کی رمق محسوس نہ ہو پائی- کون بتا سکتا ہے کہ یہ کیسا تخیل تھا، کس کی آواز تھی اور کیسے جذبات تھے کہ جو ذہن و دل کے دریچوں میں بسیرا ہی نہ کر سکے-
عزیزم یہ سوال شاید ہمارے عہد کا سب سے بڑا فکری سوال ہے کہ "ادب کا جوہر کیا ہے؟" کیا وہ صرف الفاظ کی ترتیب کا نام ہے؟ کیا وہ محض بیان کی چابک دستی، موضوع کی نزاکت، یا صنف کی حدود میں مقید ہے؟ یا پھر وہ کسی گہرے تجربے، کسی اندرونی کشمکش، کسی نارسائی کے دکھ، اور کسی ان کہی حسرت کی زبان ہے؟ اگر ہم ادب کو محض ایک "پروڈکٹ" سمجھیں، تو مصنوعی ذہانت یقیناً اردو ادب کی خدمت کر رہی ہے۔ یہ بے شمار الفاظ کو مجتمع کرتی ہے، پرانی کتابوں سے سیکھتی ہے، اور حیرت انگیز طور پر ایک نیا اسلوب پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ لکھنے والوں کے کمزور متن کو سہارا دیتی ہے، ان کی خامیوں کو دور کرتی ہے، اور انہیں ایک "مشینی مہارت" عطا کرتی ہے- تو کیا ہم اسے ادب کہہ سکتے ہیں؟
غالب نے کہا تھا، "آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں"- میں سوچ رہا ہوں کہ جب مضامین غیب سے نہیں، بلکہ محض "ڈیٹا پروسیسنگ" کے ذریعے آئیں گے، تو کیا وہ اسی تاثیر کے حامل ہوں گے جو کلام غالب سے کشید ہوتی ہے- کیا ادب کی تخلیق وہی رہے گی جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے، یا پھر ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہو چکے ہیں جہاں تخلیق کار کا کام صرف ہدایات دینا اور نتیجہ قبول کرنا رہ گیا ہے؟
میرے دوست، تخلیق وہی معتبر ہے جس کے پس پردہ ایک تجربہ ہو، ایک جیتی جاگتی آگ، ایک اضطراب۔ مشین کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس کے اندر وہ تجربہ نہیں جو ایک شاعر کے دل میں ہوتا ہے، وہ لہو نہیں جو کسی داستان نویس کی تحریر میں ٹپکتا ہے، وہ جذبہ نہیں جو کسی مصور کے ہاتھوں میں لرزتا ہے۔ یہ سوال ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ آیا اردو ادب مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں مسخ ہو جائے گا، یا پھر اس کے امکانات مزید وسعت اختیار کریں گے- کیا یہ ترقی ہے یا زوال؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کی اشاعت کے دروازے کھل چکے ہیں۔ اب وہ لوگ بھی لکھنے کے قابل ہو گئے ہیں جو پہلے محض خیالات کو سوچ کر رہ جاتے تھے- اب تحقیق میں آسانی پیدا ہو چکی ہے، زبان کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے، اور اردو ادب بین الاقوامی سطح پر پھیلنے کے قابل ہو گیا ہے- مگر خطرہ یہ ہے کہ کہیں ہم خود سوچنے سے دستبردار نہ ہو جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم الفاظ کا انتخاب مشین پر چھوڑ دیں، اپنی تخلیقی خود مختاری کو الگورتھم کے تابع کر دیں، اور پھر جو کچھ بھی ہمارے سامنے آئے، اسے ہی "ادب" سمجھ کر تسلیم کر لیں۔
یاد رکھو، زبان صرف ایک ذریعہ نہیں، بلکہ ایک زندہ تجربہ ہے۔ جب ہم اپنے جذبات، اپنے المیے، اپنی امیدوں اور اپنی مایوسیوں کو کسی اور کے ہاتھ میں دیتے ہیں، چاہے وہ کوئی انسان ہو یا کوئی مشین، تو ہم صرف الفاظ نہیں، بلکہ اپنی خودی کو بیچ دیتے ہیں۔ تو پھر تم سوچ رہے ہو گے کہ کیا ہمیں مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ ہونا چاہیے؟ نہیں!بس ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مصنوعی ذہانت ایک مددگار ہو سکتی ہے، مگر یہ تخلیق کا متبادل نہیں بن سکتی۔ یہ ہماری سوچ کو منظم کر سکتی ہے، مگر ہمارے جذبات کو محسوس نہیں کر سکتی۔ یہ ہمارے الفاظ کو سنوار سکتی ہے، مگر ان میں وہ تڑپ نہیں ڈال سکتی جو رات بھر ہجر میں جاگتی آنکھوں سے عیاں ہوتی ہے-
لہذا ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اردو ادب کو مشینوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں، یا پھر خود اس کے معمار رہیں۔ ہمیں ان الفاظ کو محفوظ رکھنا ہوگا جو کسی دل کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں، جو کسی شاعر کی آنکھوں میں چمکتے ہیں، اور جو کسی ادیب کے قلم سے ٹپکتے ہیں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب اردو ادب کے کینوس پر ہماری تحریریں نہیں، بلکہ کسی مشین کی شاعری لکھی ہوگی، اور ہم خاموشی سے اسے پڑھ رہے ہوں گے- یہ سوچے بغیر کہ اس میں ہمارے دل کی دھڑکن کہاں ہے۔
تمہارا اپنا۔۔۔
تبصرہ لکھیے