یہ رشتۂ خلوص ہے ٹوٹے گا کس طرح
روحوں کو چھو سکی ہے بھلا کسی کے ہاتھ
استاذ شاگرد کا تعلق ایک روحانی تعلق ہے جو درحقیقت نہ ٹوٹنے والا رشتہ اور ہر رشتہ سے قوی تر رشتہ ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اس دور میں استاذ و شاگرد کا یہ رشتہ درجہ بدرجہ گرتا چلا جا رہا ہے۔ دینی و دنیوی تعلیمی درسگاہوں میں یہ انحطاط مرحلہ وار جاری ہے اور یہ صورتحال تباہ کن ہے۔ ادب کا معاملہ مختلف شعبوں میں مختلف افراد کے ساتھ ہوتا ہے لیکن استاذ اور شاگرد کے ادب و تعلق کا جو رشتہ ہے یہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے کیونکہ اسی سے شاگرد کا مستقبل وابستہ رہتا ہے۔ جس شاگرد نے اپنے استاذ کا احترام کیا اس نے استاذ کا کمال پا لیا اور جس شاگرد نے اپنے استاذ کی گستاخی کی اور نافرمانی کی وہ استاذ کی امانت حاصل کرنے سے محروم رہا۔ یہ ضابطہ دینی مدارس کے اساتذہ اور طلباء کے درمیان بھی ہے اور دنیاوی شعبوں کے اساتذہ اور شاگردوں کے درمیان بھی کیونکہ اپنے محسن اور استاذ کی بےادبی جہاں کہیں بھی ہو اس کا برا اثر ضرور پڑتا ہے۔
افسوس اور شرمندگی سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اس دور میں استاذ اور شاگرد کا یہ رشتہ درجہ بدرجہ گرتا چلا جا رہا ہے ، پہلے زمانے میں سکول و کالج کے طلباء اپنے اساتذہ کا غائبانہ طور پر ادب کا خیال رکھتے تھے، پھر کالجز یونیورسٹیز کے طلباء نے غائبانہ طور پر اپنے اساتذہ کی گستاخی شروع کی لیکن پھر بھی اساتذہ کے سامنے ادب کا خیال رکھتے تھے۔ دینی و دنیوی تعلیمی درسگاہوں میں یہ انحطاط درجہ بدرجہ جاری ہے اور یہ صورتحال تباہ کن ہے۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ ہمارے آج کے دور میں بہت کمزور ہو چکا ہے۔ اسلاف کے واقعات پر افسانوں کا گمان ہوتا ہے لیکن اسلامی تاریخ کا یہ تابناک باب افسانہ نہیں، ایک روشن اور ناقابل انکار حقیقت ہے۔
آج دنیا ہمارے اداروں پر الزام لگاتی اور طعنے کستی ہے کہ یہ ادارے ایک بھی کام کا آدمی پیدا نہیں کر پاتے. خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے لڑکے مامون کو علم و ادب کی تعلیم کے لیے امام اصمعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سپرد کردیا تھا۔ ایک دن اتفاقاً ہارون الرشید وہاں جا پہنچے، دیکھا کہ اصمعی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اور شہزادہ پانی ڈال رہا ہے۔ ہارون الرشید نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تو اس کو آپ کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ آپ اسے ادب سکھائیں گے ۔ آپ نے شہزادے کو یہ حکم کیوں نہ دیا کہ وہ ایک ہاتھ سے پانی گرائےاور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوئے۔ سکندر سے کسی نے پوچھا کہ آپ استاد کو باپ پر کیوں ترجیح دیتے ہیں۔؟ جواب دیا " اس لیے کہ باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لایااور میرا استاد ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ باپ سبب حیات فانی اور استاد سبب حیات جاودانی ہے۔ باپ نے میرے جسم کی پرورش کی ہےاور استاد نے میری جان و روح کی۔"
حقیقت یہی ہے کہ اساتذہ کے ادب و احترام اور عزت و خدمت کے بغیر نور علم اور فیض علم نصیب سے روٹھ جاتا ہے۔ مشہور مثالیں ہیں ۔
با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب
با ادب با مراد، بے ادب بے مراد
اساتذہ اور طلبہ کے رشتے سے متعلق کئی روایات موجود ہیں لیکن آج کے دور میں یہ روایتیں افسانہ ہی کیوں نہ معلوم ہوں لیکن تاریخ کے جھروکوں سے جنہوں نے استاذ اور شاگرد کے درمیان شفقت و عقیدت کے پرانے منظر جھانک کر دیکھے ہیں وہ ان واقعات کو تو واقعات ہی کا درجہ دیں گے اور یہ معاملات تو ایسے حالات میں پیش آئے کہ عقیدت کے دامن پر تلخی و بدمزگی کی کوئی پرچھائیں پڑنے نہ پائی تھیں۔
اساتذہ کا ادب و احترام جتنا کہ دینی مدارس کے طلبہ پر فرض ہے اتنی ہی یہ ذمہ داری دنیاوی علوم کے شاگردوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ دنیاوی علوم میں بھی جو لوگ طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ کی مار کھاتے ہیں وہ کافی ترقیاں حاصل کرتے ہیں، اونچے اونچے مقام حاصل کرتے ہیں جس غرض سے علم حاصل کیا تھا وہ نفع پورے طور پر حاصل ہوتا ہے اور جو اس زمانے میں اساتذہ کے ساتھ نحوست وتکبر کے ساتھ رہتے ہیں وہ بعد میں اپنی ڈگریاں لیے ہوئے سفارشیں ہی کراتے رہتے ہیں۔ کہیں اگر ملازمت مل بھی جائے تو آئے روز اس پر آفات ہی رہتی ہیں بہرحال جو علم بھی ہو اس کا کمال اس وقت تک ہوتا ہی نہیں اور اس کا نفع حاصل ہی نہیں ہوتاجب تک اس فن کے اساتذہ کا ادب نہ کرے۔
آج کل کے دور میں جب میں اساتذہ کے ساتھ ہونے والا سلوک دیکھتا ہوں تو ذہن میں ایک ہی خیال آتا ہے کہ۔۔۔
چلی باد خزاں گلشن پہ ڈھایا ہے ستم ایسا
چمن والوں کو اپنی زندگی سے موت پیاری ہے
حقیقت کھولی جائے گی بوقت امتحان تیری
کہ سستی یا کہ محنت میں گزاری زندگی تو نے
تبصرہ لکھیے