مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ نواز کی حکومت کو جو بڑے چیلنجز درپیش تھے، ان میں گلیوں اور بازاروں میں پھیلی دہشت گردی کے علاوہ تیزی سے روبہ زوال معیشت قابل ذکر ہیں۔ مسلم لیگ نواز الیکشن جیتی، وفاقی کابینہ کی تشکیل عمل میں آئی اور خزانے کی وزارت جناب اسحق ڈار کے حصے میں آئی (مخالفین جنہیں اسحق ڈالر کہہ کر یاد کرتے ہیں)۔ اس وقت ڈالر 110 روپے سے کچھ اوپر تھا اور ٹی وی ٹاک شوز کی ڈارلنگ جناب شیخ رشید صاحب المعروف پیشن گوئیوں والی سرکار نے کئی ٹاک شوز میں بیٹھ کر یہ دعوی کیا تھا کہ اگر یہ ڈالر سو روپے سے نیچے آجائے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ کچھ لوگوں کا تبصرہ یہ بھی تھا کہ کمان سے نکلا ہوا تیر، زبان سے نکلی ہوئی بات اور سو سے اوپر ہوجانے والا ڈالر نیچے نہیں آتا۔ اب چونکہ میاں صاحب کے اعلی و ارفع سیاسی مقاصد میں سے ایک مقصد تو یقیناً یہ داغ دھونا تھا کہ میاں نواز شریف اپنی ٹرم پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم مقصد شیخ رشید کے دعوے کو جھوٹ ثابت کرنا تھا اس لیے اسحق ڈار صاحب کو حکم دیا گیا کہ ڈار صاحب، ڈالر صاحب کو سو سے نیچے لے کر آنا آپ کی زندگی کا مقصدِ اولین ہونا چاہیے۔ اس نیک کام میں مملکت خداداد کی نصرت کے لیے فرشتوں کا کردار ادا کیا ہماری سیاسی، عسکری، مذہبی اور ہر طرح کی قیادت کے پیارے خادم الحرمین الشریفین نے اور سال 2014ء کے شروع میں طائر لاہوتی کے کشکول میں ڈالے تقریباً ڈیڑھ ہزار بلین پاکستانی روپے جس سے پاکستانی روپے کو استحکام ملا اور ڈالر کی قیمت سو روپے سے نیچے آ گئی۔ اس طرح طائرِ لاہوتی نے اپنے 50 فیصد سیاسی مقاصد کی تکمیل کی اور کم و بیش ایک مہینہ دانیال عزیز، طلال چوہدری، پرویز رشید اور ہم نوا ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی گفتگو کا آغاز و اختتام یہاں سے کرتے رہے کہ ڈالر سو روپے سے نیچے آ گیا ہے، اب شیخ رشید سیاست کیوں نہیں چھوڑتا۔
الیکشن 2013ء کی کمپین کے دوران میاں شہباز شریف کی طرف سے کیے جانے والے دعووں میں سے بیشتر کو بڑے میاں صاحب نے جوشِ خطابت قرار دیا، اس لیے چھ مہینے میں بجلی پوری کرنے والی شہبازی (لفظ بونگی غیر پارلیمانی ہونے کی وجہ سے ایڈیٹر نے حذف کر دیا) پہ بات کرنا وقت کا ضیاع ہے لیکن کیا کیجیے کہ چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں، بڑے میاں نے بھی دعوے کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور قوم کو یہ یقین دلایا کہ اگر مسلم لیگ نواز حکومت میں آگئی تو ہم کشکول توڑ دیں گے۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ پچھلے ایک ہفتے سے میرے مسلم لیگ نواز کے دوست لہک لہک کر یہ بتا رہے ہیں کہ
میرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو کشکول رکھتے تھے ہاتھ میں، وہ بھانڈا ہم نے تُڑا دیا!
اور اس لہکنے کی وجہ وہ خبر ہے جس میں بڑے میاں صاحب نے آئی ایم ایف کو خداحافظ کہنے کا عندیہ دیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ دبئی میں منعقد ہونے والے ایک حالیہ اجلاس میں آئی ایم ایف نے پاکستان کی موجودہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور 2013ء میں طے ہونے والے ساڑھے چھ ہزار بلین روپے کے قرض کی آخری قسط ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہاں اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ 6.7 بلین ڈالر کا یہ قرض اسی حکومت کے کسی طائرِ لاہوتی نے منظور کرایا تھا اور آئی ایم ایف نے یہ قرض تین قسطوں میں ادا کیا۔ دوسری اور تیسری قسط کی ادائیگی سے پہلے پچھلے قرض کا استعمال جائزہ طے شدہ طریقِ کار کا حصہ تھا۔ اس حوالے سے اگر کوئی بھولا بھالا مسلم لیگ نواز کا دوست (لفظ پٹواری بھی غیرپارلیمانی ہونے کی وجہ سے حذف ہو گیا) اگر یہ سمجھتا ہے کہ یہ آئی ایم ایف سے لیا جانے والا آخری قرض تھا تو اس سے کسی قسم کی بحث کرنا کم از کم میرے لیے ممکن نہیں، میں تو بس اُس کی سادگی پہ قربان ہونا چاہتا ہوں۔
کشکول توٹنے کی اطلاع پہ خوشیاں منانے والے بھائیوں کی اطلاع کے لیے صرف دو چیزیں عرض ہیں:
اول، رواں سال کے تیسرے مہینے میں پاکستان نے سعودی عرب سے 122 ملین ڈالر کی امداد حاصل کی ہے جو کہ پچھلے پانچ سال میں سعودیہ کی جانب سے دی جانے والی سب سے بڑی امداد ہے اور اس پیکج کے پہلے 67 ملین ڈالر کا اعلان اتفاق سے اُس دن ہوا جس دن امیرالمئومنین میاں نواز شریف اور اسلامی لشکر کے سپہ سالارِ اعلی و مثلِ خالد بن ولید جنابِ راحیل شریف سعودیہ میں ہونے والی فوجی مشقوں کی اختتامی تقریب میں شرکت کر رہے تھے۔
دوم، آپ کو گمان بھی کیسے ہوا کہ ہم غیر ملکی امداد کے بغیر ایک دن چل سکتے ہیں؟ پچھلے تین سالوں میں نواز لیگ نے ایسا کون سا صنعتی، سماجی یا سیاسی انقلاب برپا کر دیا ہے کہ اب ہمیں غیرملکی امداد کی ضرورت نہیں رہی؟ ایویں رنگ بازی چل رہی ہے، چار دن انجوائے کر لیں.
پھر یہی مسلم لیگ نواز، یہی نواز شریف، یہی اسحق ڈار اور یہی آئی ایم ایف اور یہی ٹوٹا ہوا کشکول!
تبصرہ لکھیے