کراچی میں پچھلے دنوں ایک 23 سالہ نوجوان کے اغوا اور قتل کا واقعہ ہوا ہے جس سے پولیس اور عدلیہ کی کاردگی کی وجہ سے عوام میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے
ہوا یہ ہے کہ ایک نوجوان مصطفےا جس کا گھر ڈفینس میں ہے وہ شام کے وقت کار میں اپنے دوست سے ملنے اُس کے گھر چلا جاتا ہے، اُس کے بعد اُس کا کوئی اتاپتا نہیں ملتا، نوجوان کوئی فون نہیں رکھتا تھا کیونکہ کچھ عرصہ پہلے مُصطفےا کو ANF نے منشیات رکھنے کے کیس میں بند کیا تھا، کچھ دنوں کے بعد اُس کی ضمانت ہو گئی، مصطفےا نے ضمانت پر آنے کے بعد GSM فون رکھنا چھوڑ دیا اور وہ صرف امریکا کا واٹس آپ نمبر استعمال کرنے لگا، جب مصطفےا گم ہوگیا تو ڈیفینس پولیس نے یہ سمجھا کہ نوجوان کو ANF لے گئی ہے اور مصطفےا کے والدہ کے مدعیت میں دوسرے دن 7th جنوری کو ایف آئی آر درج کردی گئی -
والدہ والدہ ہوتی ہے !جب سے مُصطفےا نے موبائل فون رکھنا چھوڑ دیا تھا تو مُصطفےا کی والدہ نے مُصطفےا سے چُھپا کر ایک موبائل فون کار میں لگوا دیا تھا تاکہ وقت پڑنے پر کار کا اور مُصطفےا کا پتہ لگایا جاسکے
پولیس کیس میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی مُصطفےا کی والدہ نے ANF حکام اور دیگر ایجنسیز سے مُصطفےا کے مُتعلق رابطہ کیا، ANF کے حکام نے اُن کو واضع طور پر بتا دیا کہ ہم ایسا کوئی غیرقانونی حراست والا کام نہیں کرتے مُصطفےا ہمارے پاس نہیں آپ اُس کو کہیں اور تلاش کریں اسی طرح باقی ایجنسیز نے بھی مُصطفےا کی والدہ کو مطمئن کردیا کہ مُصطفےا ہمارے پاس نہیں ہے حالانکہ یہ کام پولیس کا تھا !!!
مُصطفےا کی گمشُدگی کے بیس دن بعد امریکا کے واٹس آپ نمبر سے مُصطفےا کی والدہ کو فون آتا ہے آپ تاوان کی رقم ادا کرکے لڑکا لے جائیں، مُصطفےا کی والدہ نے یہ اطلاع ساوتھ تفتیش کو دی اور کیس Avcc منتقل ہوگیا
مُصطفےا کی والدہ نے Avcc کی ایس ایس پی اور CPLC سے رابطہ کیا اور CPLC کی طرف سے مسٹر شبر کے ذمے یہ کیس لگا دیا گیا- شبر صاحب کے ساتھ میں کام کُرچکا ہوں، آگر شبر صاحب جیسے افراد پولیس میں ہوتے تو عوام کو کوئی پریشانی نہ ہوتی
اغوا برائے تاوان کے سیل میں وہی ایس ایس پی کامیاب ہوسکتا ہے جس کے پاس اپنی ٹیم ہو، Avcc کو میں نے، فاروق اعوان صاحب اور ناصر آفتاب صاحب نے اسلیئے کامیابی سے چلایا کہ ہماری پاس اپنی ٹیم تھی جو ہم ہر پوسٹنگ پر اپنے ساتھ رکھتے تھے، کراچی کی پولیسنگ کا اہم گُر یہ ہے کہ Avcc, SIU, CTD میں وہی ایس ایس پی کامیابی سے کام کرسکتا ہے جس کے پاس اپنی ٹیم ہو، باقی” یونٹس” میں جو عملہ بیٹھا ہوتا وہ برائے راست اس یونٹ کے جرائم میں ملوث ہوتا ہے،
یونٹس میں Avlc بھی شامل ہے، Avlc میں تو بینالاقوامی چور بیٹھے ہیں، Avlc میں پوسٹنگ کے دوران مجھے اُس وقت شرمندگی کا سامنہ کرنا پڑا جب مجھے پتہ چلا کہ ایک صحافی جو ڈان اخبار میں کام کرتا تھا اُس کی چوری کی کار میرا سب انسپیکٹر کسی گروھ کو فروخت کررہا تھا میں نے اُسی وقت اُسی دن دو کام کیئے ایک تو فورن اُس سب انسپیکٹر سے چوری کی کار برآمد کرواکر اُس کو کیس میں بند کیا اور دوسرا کام یہ کیا کہ دفتر سے نکلنے سے پہلے میں نے اُس وقت کے آئی جی جناب اظھر علی فاروقی صاحب کو فون کیا آپریٹر نے کہا آئی جی صاحب کانفرنس روم میں میٹنگ میں ہیں جیسے ہی فارغ ہوکر آتے ہیں میں آپ کی بات کرواتا ہوں -
میں نے اپنا ذاتی سامان دفتر سے اپنی جیپ میں رکھوایا اور Aclc کے دفتری اسٹاف کو خدا حافظ کہا، دفتری اسٹاف پریشان ہورہا تھا کہ صاحب کا تبادلہ تو نہیں پھر کیوں سب کو خدا حافظ بول رہے ہیں!!!! میں نے دل میں یہ ارادہ کرلیا تھا کہ اب Aclc میں نہیں رہنا !
مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں گھر جانے کیلئے میریٹ ہوٹل کے پاس سے گذر رہا تھا تو میرے موبائل پر آئی جی کے آپریٹر کا فون آیا، آئی جی جناب اظھر فاروقی صاحب نے لائین پر آتے ہی پوچھا کہ نیاز خیریت سے آپ نے فون کیا ہے، میں نے آئی جی صاحب کو صحافی کی کار چوری/ سب انسپیکٹر کی طرف سے کار کو کسی گروھ فروخت کا معاملہ اور سب انسپیکٹر کو کیس میں بند کرنے کی کہانی سُناکر میں نے آئی جی صاحب کو کہا سر Aclc کا سارا اسٹاف کار چوری میں ملوث ہے اور کار چوروں سے ملا ہوا ہے جو میری برداشت سے باہر ہے اور کہا کہ سر میرا یہاں سے تبادلہ کردیں !!! آئی جی صاحب نے کہا آپ کہاں جانا چاہتے ہیں ؟؟؟؟ میں نے جواب دیا کہ سر کسی بھی خالی پوسٹ پر مجھے رکھ دیں- ائی جی صاحب نے کہا کہ نوابشاہ خالی پڑا ہے آپ وہاں جاؤ گے ؟؟؟؟ میں نے کہا کہ سر : میرے بچے کراچی میں اسکول جاتے ہیں کراچی میں ہی کہیں یا CPO میں Awaiting for posting ہی رکھ دیں آئی جی صاحب نے مجھے کہا کہ پھر مجھے Reshuffling کرنی پڑے گی اور مجھے کہا نیاز آپ تسلی رکھیں میں کچھ کرتا ہوں !
پھر اُسی شام میری پوسٹگ ایس ایس پی ساوتھ انویسٹگیشن ہوگئی اُس وقت میرے پاس 36 تھانے تھے آجکل ساوتھ انویٹگیشن میں تین ایس ایس پی ہیں
اسی طرح Avcc میں ہم نے اور CPLC نے ملکر ایک اغوا برائے تاوان کا ایک ملزم پکڑا ہوا تھا، مجھے ایک خفیہ ایجنسی کے طرف سے فون آیا کہ آپ کے ڈی ایس پی ( جو کراچی میں اب ایس پی ہے ) نے اپنے فون سے زیرحراست ملزم کی اُس کے ساتھی سے تاوان کے متعلق بات کروائی ہے، ڈی ایس پی کو تو میں نے ایڈیشنل آئی جی صاحب سے بات کرکے اُسی وقت تبادلہ کروادیا اور بعد میں آئی جی صاحب سے اُس کو معطل بھی کروادیا -
یہ ایک حقیقت ہے کہ ان Units میں سالہاسال سے بیٹھے ہوئے افسران جرائم پیشہ عناصر کی پشت پنہائی اور سہولت کاری کا کام کررہے ہیں، یہ بات تو میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ آگر آج Avlc کو بند کردیا جائے کراچی سے کار اور موٹر سائیکل چوری کی شرع کم ہو جائے گی
اب آتے ہیں مُصطفےاکے اغوا اور قتل کی طرف ::: کیس Avcc میں آنے کے بعد Cplc فعال ہوگئی مُصطفےا کی والدہ اور Cplc کے مسٹر شبر کی باہم کوششوں اور Technical شواہد سے یہ معلوم ہوگیا کہ مُصطفےا آخری بار ملزم ارمغان کے پاس دیکھا گیا تھا، پولیس اور CPLC نے ڈفینس میں ریڈ کا پلان کیا جہاں ارمغان نے چار گھنٹے تک چھت پر چڑھ کے فائرنگ کرکے ڈی ایس پی اور ایک کانسٹیبل کو زخمی کردیا، بلآخر ملزم ارمغان کی والدہ کے آنے کے بعد مزاکرات کے بعد ملزم ارمغان نے ہتھیار ڈالے اور اپنی گرفتاری دے دی-
اس سارے پہڈے میں ایس ایس پی Avcc کا رول نظر ہیں آیا::: Cplc اس بات کی گھواہ ہے کہ کراچی تو کیا بلوچستان اور گھوٹکی تک ریڈز میں میں خود جاتا تھا مگر یہ شھزادے ڈفینس تک جانے کو تیار نہیں ڈی ایس پی اور ایس ایس پی کی کمانڈ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے کیونکہ پولیس میں سزا اور جزا کا پورا نظام ایس ایس پی سے شروع ہوکر آئی جی پر ختم ہوتا ہے
ارمغان کی گرفتاری کے بعد اُس کے ملازمین نے اعتراف کیا کہ مُصطفےا کو پہلے ہی دن ملزم ارمغان نے قتل کردیا تھا اور ارمغان نے ملازمین ہی سے مُصطفےا کا خون صاف کروایا اور بعد میں ارمغان مُصطفےا کی لاش کو ٹھکانے لگانے کیلئے گاڑی میں نکل گیا اور دوسرے دن شام کو واپس ڈفینس بنگلے پر آیا-
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس کو بنگلے سے مُصطفےا کی کار میں مُصطفےا کی والدہ نے جو موبائل فون خفیہ طور پر لگوایا تھا وہ ملزم ارمغان کے کمرے سے برآمد ہوا ہے، اُس کا مطلب ہے کہ ملزم ارمغان نے مُصطفےا کی سیاہ رنگ کی مارک ایکس کار کو ٹھکانے لگانے سے پہلے کار کی اچھی طرح تلاشی کروائی ہے، کار میں ٹریکر تو تھا ہی نہیں کار میں مُصطفےا کی والدہ کی طرف سے صرف موبائل فون لگوایا گیا تھا جس کے متعلق مُصطفےا کو بھی معلوم نہیں تھا -
ملزم ارمغان سنیچر شام سے لیکر پیر صبح تک Avcc کی تحویل میں تھا !!!!! میں نے Avcc اور Cplc کے ذرائع سے خود بات کی ہے سنیچر شام سے لیکر پیر صبح تک ملزم ارمغان کو Avcc میں ایک Vip مھمان کی طرح رکھا گیا، یہ ایک عجیب سانحہ ہے کہ Avcc کے ڈی ایس پی کو دو گولیاں لگی ہیں اور ایک جوان بھی ارمغان کی فائرنگ سے زخمی ہوا ہے یہ دونوں بیچارے گولیوں سے شہید بھی ہوسکتے تھے مگر افسوسناک حد تک ملزم ارمغان کو Avcc کے ایس ایس پی نے ایک معزز مھمان کی طرح رکھا ہوا تھا !!!!؟؟؟؟ کہا جارہا ہے کہ Avcc نے ان خدمات کیلئے اچھی خاصی رقم وصول کی ہے :
جج صاحب نے ملزم کا رمانڈ نہیں دیا: Avcc پولیس کاُکہنا ہے کہ جب ہم رمانڈ کیلئے گئے تو مبینہ طور پر ملزم کا والد جج صاحب کے چیمبر میں دو گھنٹے تک بیٹھا رہا اور جب ملزم کو رمانڈ کیلئے پیش کیا گیا تو جج صاحب نے مبینہ طور تفتیشی افسر کو نہیں سُنا اور ملزم کا میڈیکل چیک کرواکر باعزت طور پر جیل کسٹڈی کردیا جج صاحب کو جرم کی سنگینی کو مدنظر رکھنا چاہیئے تھا!!! کراچی کچہ کا علائقہ نہیں ہے کہ ملزم نے اتنی دیدہ دلیری کی ہے کہ اپنے گھر سے فائرنگ کرکے ایک ڈی ایس پی اور ایک جوان کو زخمی کیا ہے، ملزم پر مُصطفےا کو قتل کرنے کے متعلق اُس کے ملازمین گھواہ ہیں،
مُصطفےا کی والدہ اتنا تو حق رکھتی ہے کہ کم از کم وہ اپنے بیٹے قبر تو دیکھے اور اپنی بچی ہوئی زندگی اپنے بیٹے کی قبر سے وابسطہ کرلے مگر افسوس ہے کہ ایس ایس پی Avcc کی نااہلی اور رمانڈ نہ دینے والے جج صاحب کے Influence کی حقیقت جاننے کیلئے اُن کے خلاف انکوائری ہونی چاہیئے- آگر جج صاحب نے دو گھنٹے تک ملزم کے والد سے چیمبر میں ملاقات کی ہے تو وہ عدالت میں لگیCCTV سے ثابت ہوجائے گا اور CCTV میں آگر الزام ثابت ہوجائے تو پھر جج صاحب پر Misconduct بنتا ہے اور پھر وہ “ Influence “ ہوگئے ہیں
یہ سُن کر عوام حیرت ہوگی عدلیہ میں ججز کو Contract پر رکھا جاتا میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ کوئی Contractor عدلیہ میں سائلین کو ایک Contractor کی طرح ہی ڈیل کرے گا- نوکری پیشہ افسر کو ایک خوف ہوتا ہے کہ نوکری نہ چلی جائے / پروموشن نہ رُک جائے / سالانہ رپورٹ نہ خراب مل جائے / مگر ایک Contractor کو Contract کس طرح ملتا ہے اور Contractor کس طرح بے رحمی سے چیزوں تھس نھس کرتے ہیں عدلیہ میں سائلین کو Contractors کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیئے
ملزم کے گھر سے بھاری مقدار میں جو اسلحہ اور بارود برآمد ہوا اور 66 کے قریب لیپ ٹاپ اور غیر قانونی کاروبار کے متعلق شواہد ملے ہیں !!! اس کاروبار سے ملزم روزانہ ایک سے دو کروڑ روپیہ آسانی سے کمالیتا ہے آگر کوئی تیس چالیس کروڑ ماہانا کمالیتا ہے تو Avcc کا VIP پروٹوکول دینا، ملزم سے لاش کی برآمدگی کیلئے کوئی Effort نہ کرنا ، ملزم کا رمانڈ نہ ملنا سمجھ میں آتا ہے
ایک ماں سے معذرت ہی کی جاسکتی ہے، آگر ایس ایس پی Avcc اور جج صاحب کی وجہ سے وہ اپنے لخت جگر کی قبر پر پھول ڈالنے سے تاحیات محروم رہتی ہیں تو ہم سب صرف وقتی طور اُس کے دکھ درد میں شریک ہی ہوسکتے ہیں مگر اُس ماں کے مستقل غم کو محسوس نہیں کرسکتے جو اُس کو تاحیات بیچین اور رنجیدہ رکھے گا
اسی نظام میں ہم سب نے اور ہمارے بچوں نے اسی غیر محفوظ طریقے سے رہنا ہے!!! جرائم پیشہ عناصر نے تو اغوا بھی کرنا ہے قتل بھی کرنا ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ جب ادارے پولیس اور عدلیہ ایسے جرائم پیشہ کروڑ پتیوں کے ساتھ مل جائے اور لوگ اپنے پیاروں کی آخری آرام گاہ بھی نہ دیکھ سکیں تو ایسے لوگ قیامت میں اللہ پاک کو کیا جواب دیں گے ؟؟؟؟ جن لوگوں نے صرف اپنے عہدوں کی بنیاد پر لوگوں کیلئے قیامت بر پا کر رکھی ہے !
سُنا ہے کہ Avcc پولیس ملزم کا ہائیکورٹ سے رمانڈ لینی کی کوشش کررہی ہے میری ایڈیشنل آئی جی جناب اوڈھو صاحب اور آئی جی صاحب سے درخواست ہے کہ ملزم کو دوبارہ ایس ایس پی انیل حیدر کے حوالے نہ کیا جائے، جس ایس ایس پی نے دو دنوں اور دو راتوں میں ملزم سے لاش کی برآمدگی کیلئے کچھ نہیں کیا اب ہفتہ یا دس رمانڈ ملنے پر ان لوگوں نے کیا تیر مارلینا ہے ؟؟؟؟؟
تبصرہ لکھیے