افغانستان سے جاتے ہوئے امریکہ وہاں جو اسلحہ چھوڑ گیا اس کی وجہ کیا تھی؟ یہ غلطی تھی یا کوئی اہتمام تھا؟ غلطی تھی تو یہ کیسے ہو گئی؟ اہتمام تھا تو یہ کس کے خلاف تھا؟ کیا پاکستان کے خلاف تھا؟
یہ کوئی معمولی واردات نہیں ہے۔ امریکہ جاتے جاتے افغانستان میں جو اسلحہ ا ور فوجی سازو سامان چھوڑ گیا ، اس کی مالیت 7 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔یاد رہے کہ پاکستان کا کُل دفاعی بجٹ 6 ارب ڈالر ہے۔ یعنی پاکستان کے کل دفاعی بجٹ سے زیادہ مالیت کا اسلحہ اور فوجی سازو سامان امریکہ افغانستان میں چھوڑ گیا ۔ تھوڑا بہت اسلحہ ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ جاتے جاتے چھوڑ دیا۔ لیکن جب اس اسلحے اور فوجی سازوسامان کی مالیت 7 ارب ڈالر ہو تو پھر معاملہ اتنا سادہ نہیں رہتا۔ سوال وہی ہے: امریکہ اتنا زیادہ اسلحہ افغانستان میں کیوں چھوڑ گیا؟ اس کی وجہ؟ اس کی حکمت؟ یہ معاملہ کیا ہے اور یہ کھیل کیا ہے؟
پینٹاگون کی جانب سے امریکی کانگریس کو جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق امریکہ افغانستان میں 7 اعشاریہ 2 ارب ڈالر مالیت کا فوجی سازو سامان چھوڑ کر گیا ہے جس میںجہاز ، ہیلی کاپٹر ، گولہ بارود ، نائٹ ویژن چشمے ، اور بائیومیٹرک ڈیوائسز شامل ہیں۔امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ کے مطابق امریکہ افغانستان میں 78 ہیلی کاپٹرا ور جنگی جہاز چھوڑ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کیا یہ اڑان بھر کر واپس نہیں جا سکتے تھے؟ ان کو چھوڑ جانے میں کیا حکمت تھی؟
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان کو افغانستان میں 61 ہزار امریکی فوجی گاڑیاں ، 3 لاکھ لائٹ ویپن ( چھوٹی مشین گنیں اور رائفلیں وغیرہ) اور 26ہزار ہیوی ویپن ملے ہیں۔ تعداد پر غور فرمائیے او امریکہ کے لائٹ اور ہیوی ویپن کی تفصیل دیکھ لیجیے ۔ یہ اتنا بھاری اسلحہ ہے جو دنیا کے بہت سارے ممالک کی افواج کے پاس نہ ہو۔ یہ اسلحہ کیا کوئی اپنے دشمن کے پاس غلطی سے چھوڑ کر جاتا ہے؟
یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں کہ امریکہ جیسی قوت افغانستان سے نکلے اور اپنا بھاری اسلحہ وہیں چھوڑ جائے۔ ہالی وڈ کی فلموں میں بھی یہ اہتمام موجود ہوتا ہے کہ کہیں سے امریکہ کو اچانک بھاگنا پڑے تو اس کے فوجی اسلحہ ساتھ لے جاتے ہیں یا اسے ضائع کر دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کیا امریکہ کی فوجی قیادت ہالی وڈ کے پروڈیوسروں سے بھی فارغ العقل تھی کہ وہ جاتے ہوئے اپنا بھاری اسلحہ وہیں چھوڑ کر چلی گئی۔ نہ ساتھ لے جا سکی نہ ہی اسے تباہ کر سکی؟ ظاہر ہے یہ غلطی نہیں ہے۔ یہ اہتمام ہے اور بادی النظر میں ا س اہتمام کا نشانہ پاکستان ہے۔
امریکہ افغانستان سے ایک معاہدہ کر کے نکلا۔ ایسا نہیں کہ رات کو اس کے فوجی سورہے ہوں اور انہیں اچانک بھاگنا پڑا ہو۔ جب آپ معاہدہ کر کے نکلتے ہیں تو آپ اپنا سازو سامان ساتھ لے جانے کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ امریکہ نے یہ انتظام کیوں نہیں کیا؟ ڈھنگ کا انتظام نہیں کر سکا تو جو اسلحہ وہ چھوڑ کر جا رہا تھا اسے تباہ کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ چند منٹ؟ وہ یہ کام بھی نہ کر سکا۔
اب جب ہم دن میں اٹھارہ اٹھارہ فوجیوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا یہ سب ایک غلطی تھی ، اتفاق تھا یا یہ ایک اہتمام تھا کہ اسلحہ چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکے۔
فارن پالیسی میگزین کے مطابق امریکہ کا چھوڑا گیا یہ اسلحہ بلیک مارکیٹ میں بھی دستیاب ہے ۔ سب سے زیادہ مانگ امریکہ کی M-4سالٹ رائفل ہے۔ یہ وہی رائفل ہے جو اس وقت پاکستان کے خلاف بلوچستان میں استعمال ہو رہی ہے۔ معاملہ صرف اس ایک رائفل کا نہیں ہے ، پاکستان کی پریشانی یہ ہے کہ بلوچستان میں جو عناصر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کے پاس اب وہی اسلحہ ہے جو امریکہ افغانستان میں چھوڑ کر گیا۔
پاکستان کے خلاف اس دورانیے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے تو یہ بے سبب نہیں ، اس میں امریکہ کے چھوڑے ہوئے اس اسلحے کا اہم کردار ہے۔ امن عامہ کے چیلنج کے سامنے پہلی دیوار پولیس کی ہوتی ہے اور پولیس کے سامنے جب سپر پاور کے اسلحے سے لیس عناصر ہوں تو پولیس کے لیے اس سے نبٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ٹرمپ نے اس اسلحے کا سوال اٹھایا ہے اور اس نے بائیڈن انتظامیہ پر اس حوالے سے سخت تنقید کی ہے کہ اس نے اتنا بھاری اسلحہ افغانستان میں کیوں چھوڑا۔ ٹرمپ کی یہ تنقید بتاتی ہے کہ معاملہ وہ نہیں جو بائیڈن انتظامیہ بتاتی رہی کہ ہم نے نکلتے ہوئے اسلحہ ضائع کر دیا وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ معاملے کی نوعیت بہت سنگین ہے۔
یہ اتفاق نہیں ہے کہ گذشتہ سال بلوچستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے۔ بلوچستا ن حکومت کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق اس ایک سال میں دہشت گردی کے 555 واقعات میں 300 لوگ جاں بحق ہوئے جن میں عام شہری ،پولیس اہلکار اور فوجی شامل ہیں۔ پاکستان کے لیے اب یہ بہت بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے کہ اس ساری صورت حال سے کیسے نبٹا جا سکے۔پاکستان کے لیے اس پر خاموش رہنا ممکن نہیںرہا۔ ایک ایک دن میں اگر ہمارے 18، 18 نوجوان شہید ہونے لگیں تو اس پر ریاست خاموش رہ بھی کیسے سکتی ہے۔( حیرت کی بات ویسے یہ بھی ہے کہ حقوق انسانی کے نام پر ہر وقت اپنی ہی ریاست کے خلاف فرد جرم عائد کرنے والے خواتین و حضرات ان شہادتوں پر یوں گونگے بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ رویہ بھی غور طلب ہے اور اس پر بھی تفصیلی بات ہونی چاہیے)۔
امریکہ کے اپنے ادارے اب اعتراف کر رہے ہیں کہ اس کا چھوڑا ہوا یہ اسلحہ اس پورے خطے کو کسی الائو میں دھکیل سکتا ہے۔ اسلحے کی نئی بلیک مارکیٹ وجود میں آ جانے کی باتیں بھی پاکستا ن نہیں ، مغربی ممالک اب خود کر رہے ہیں۔ ان ہی ممالک کے غلط فیصے ہوتے ہیں جن کا تاوان ہم جیسے ممالک کو دینا پڑتا ہے۔ امریکہ سے ہر فورم پر یہ سوال ہونا چاہیے کہ7 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا یہ اسلحہ جو تم چھوڑ گئے ، یہ غلطی تھی ، اتفاق تھا یا اس میں کوئی اہتمام تھا؟ غلطی تھی تو اس کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ اہتمام تھا تو کیا اس کا نشانہ پاکستان ہے؟ کیا امریکی فیصلہ ساز اتنے ہی سادہ طبیعت کے ملنگ لوگ تھے کہ جاتے ہوئے 7 ارب ڈالر کا اسلحہ ایسے ہی چھوڑ دیا؟
تبصرہ لکھیے