ابن خلدون پچھلے ایک ہزار سال سے فلسفہ تاریخ اور سماجیات کے بانی اور امام تصور کیے جاتے ہیں۔انہوں نے اپنی مشہور تصنیف مقدمہ میں تاریخ، سیاست، معیشت اور تہذیبوں کے عروج و زوال پر گہرے نظریات پیش کیے اور یہ نظریات آج بھی مشرق و مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھے پڑھائے جاتے ہیں۔ انہوں نے تاریخ کو محض واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک سائنسی اور تجزیاتی علم کے طور پر پیش کیا۔ ابن خلدون کے نزدیک طاقتور قومیںجدوجہد، نظریات اور اصولوں کو اپناتی ہیں جبکہ زوال پذیر قومیں عیش و عشرت، موسیقی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میںپناہ ڈھونڈتی ہے۔مسلمان قوم نے اندلس میں 800 سال تک شاندار تہذیب قائم کی تھی جوپورے یورپ میں علم، فن ،روشنی اور ترقی کا مرکزسمجھی جاتی تھی مگر جب اندلس کے مسلم حکمران موسیقی، رقص اور عیش و عشرت کے رسیا ہوئے تو وہ اپنی فوجی اور سیاسی طاقت کھو بیٹھے۔ قرطبہ اور غرناطہ کے درباروں میں گانے بجانے اور رنگ رلیوں کو اعلیٰ ثقافت سمجھا جانے لگاتھا اور اہل علم و فن کی جگہ گویّوں اور رقاصاؤں کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی تھی۔بدقسمتی سے پاکستان میں بھی زوال پذیر قوموں کے کلچراور طرز زندگی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اوراس کی پوری ایک تاریخ ہے ۔ قیامِ پاکستان کے بعدپاکستان کی ثقافت مذہبی اور مشرقی اقدار پر مبنی تھی حتیٰ کہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں فلم، ڈرامے اور موسیقی کا ایک مخصوص دائرہ تھا جو مشرقی روایات اور اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے پروان چڑھ رہا تھا۔ لیکن 1990 اور 2000 کی دہائی میں نجی ٹی وی چینلز اور گلوبلائزیشن کے باعث مغربی ثقافت کو غیرمعمولی فروغ ملا اور کئی نئے رجحانات نے جنم لیا۔ہمارے کلچر میں مغنیوں اور روپ بدل کر اداکاری کرنے والوں کو ناپسندکیا جاتا اور کمتر سمجھا جاتا تھا۔ انہیں محفلوں میں محض تفریح کا ذریعہ گردانا جاتا تھااور اس پیشے کو معزز پیشوںمیں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن آج وہی گانے والے اور گانے والیاں سلیبریٹی کہلاتے ہیں۔ ان کے چاہنے والے لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہیں۔ سوشل میڈیا نے ان کے اثر و رسوخ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ وہ نوجوان جو کبھی استاد، ڈاکٹر،فلسفی، رائٹر یا شاعربننے کے خواب دیکھتے تھے اب میوزک انڈسٹری میں جگہ بنانے کے خواہشمند ہیں۔
اسی طرح ایک وقت تھا جب روپ بدل کراداکاری کرنے کو کمتر ، حقیر اور عزت نفس کے خلاف پیشہ تصور کیا جاتا تھا، علامہ اقبال نے اس پر لمبی چوڑی تنقید کی تھی ۔ تھیٹر اور فلموں میں کام کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ انہیں وہ عزت حاصل نہیں تھی جو کسی استاد، ڈاکٹر ، جج، فلسفی ،عالم، سیاستدان یا سرکاری افسر کو دی جاتی تھی۔ لیکن آج صورتحال مختلف ہے، اداکاروں کو نہ صرف سلیبرٹی سمجھا جاتا ہے بلکہ انہیں قوم کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لوگ ان کی زندگیوں کو آئیڈیلائز کرتے ہیں، ان کی طرح لباس پہننے، ان جیسے بال بنانے اور ان کی چال ڈھال کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے اس رحجان کو مزید ہوا دی ہے۔ کسی زمانے میں والدین اپنے بچوں کو اداکاری جیسے پیشے سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے مگر آج وہی والدین اپنے بچوں کو اس میدان میں کامیاب ہوتا دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔یہی معاملہ جسم کی نمائش کے ساتھ پیش آیا ہے۔ چند دہائیاں قبل خواتین اور مردوں کا لباس ایک خاص معیار پر پورا اترتا تھا جس میں حیا اور روایات کو مقدم رکھا جاتا تھا۔ جسم کی نمائش کو ناپسندیدہ سمجھا جاتاتھا اور معاشرہ اس پر تنقید کرتاتھا۔ لیکن آج فیشن کی دنیا نے اس سوچ کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ لباس کی وہ تمام شکلیں جو پہلے معیوب سمجھی جاتی تھیں اب فیشن کے طور پر اپنائی جاتی ہیں۔ جسم کی نمائش اب معاشرتی مقام اور جدیدیت کی علامت سمجھ لی گئی ہے۔ میڈیا، فلم، ڈرامے اور سوشل میڈیا نے اس تبدیلی کو مزید ہوا دی ہے۔ مشرقی روایات جن پر کبھی فخر کیا جاتا تھا وہ اب دقیانوسی قرار دی جا رہی ہیں۔پاکستان میں 2000 سے 2023 تک فیشن انڈسٹری میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔
ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے نسل نو کے ہیروز بدل دیے ہیں۔ آپ کسی نوجوان سے پوچھیں اسے قومی ہیروز کے بارے میں علم نہیں ہوگا لیکن وہ کسی معروف یوٹیوبر، ٹک ٹاکر یا انفلوئنسر کو ضرور جانتا ہوگا۔ رہی سہی کسر ہمارے تعلیمی اداروں نے پوری کر دی ہے۔ یونیورسٹیز اور کالجز میں آزادانہ ماحول اور اختلاط نے سنجیدگی، گہرائی اور فکری وسعت کو ختم کر دیا ہے۔ طلبہ محنت اور علم کے بوجھ کو اٹھانے کے بجائے شارٹ کٹ راستے سے مشہور ہونا چاہتے اور اسی کو کامیابی تصور کرتے ہیں۔اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ پیسے کو کامیابی کا واحد معیار سمجھ لیا گیا ہے ۔ سوشل میڈیا سے کمائی کا جنون اس قدر بڑھ گیا ہے کہ لوگ حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ وائرل ہونے کے لیے غیر اخلاقی حرکات ، جھوٹا مواد پھیلانے اور سنسنی خیز ویڈیوز بناکر پیسا کمانے کو کامیابی سمجھ لیا گیا ہے۔ وائرل ہونے کے شوق اور شہرت کے لیے عزت، اقدار حتیٰ کہ دین کو بھی قربان کیا جا رہا ہے۔آج ہر نوجوان کی زبان پر یہ الفاظ ہیں کہ فلاں ٹک ٹاکر لاکھوں کما رہا ہے، فلاں یوٹیوبر کی اتنی آمدنی ہے اور فلاں انسٹاگرامر اتنی دولت کما رہا ہے۔ شہرت اور پیسے کی اس دوڑ میں علم، شعور اور تہذیب پس منظر میں جا چکے ہیں۔ہماری حکومتیں بھی اس غلط ٹرینڈ کو پروموٹ کر رہی ہیںاور جو سالانہ ایوارڈ دیے جاتے ہیں اس میں مغنی، اداکار، ٹک ٹاکر، یوٹیوبر اور کھلاڑی تو شامل ہوتے ہیں لیکن ان میں کوئی نوجوان فلسفی، نوجوان رائٹر، نوجوان شاعر اورکوئی نوجوان عالم شامل نہیں ہوتا۔ ایک دور تھا جب ’’عزت‘‘ کا مطلب اخلاقی پاکیزگی اور نیک نامی تھا مگر آج معاشرے میں عزت کا مطلب شہرت اور دولت سے وابستہ ہو چکا ہے۔ ’’کامیابی‘‘ محنت، ایمانداری اور حصولِ علم سے جڑی ہوتی تھی مگر اب یہ صرف زیادہ پیسہ کمانے تک محدود ہو چکی ہے۔
سوشل میڈیا کے اثر و رسوخ نے ہماری لغت اور اقدار کو بدل کر رکھ دیا ہے۔لازم ہے کہ ہم اپنی روایات، اخلاقی اصولوں اور اقدار کا تحفظ کریں۔اپنے اصل ہیروز کو پہچانیں،اسلام میں معیوب سمجھنے جانے والے پیشوں کی شناعت کو واضح کریں اور نسل نو کو غلط پیشے اختیار کرنے سے بچائیں ۔ نژاد نو کی انسپائریشن کے مراکز کو بدلیں اور فحاشی و عریانی کو گلیمرائز کرنے کے بجائے حیا و پاکدامنی کے تصور کو فروغ دیں ۔ اگر ہم یہ نہیں کریں گے توقوموں کے عروج و زوال کے جو اصول اندلس اور دنیا کے دیگر خطوں اور قوموں پر اپلائی ہوئے ہیں ہم بھی ان کی زد میں آئیں گی اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ذلت و زوال سے نہیں بچا سکے گی ۔
تبصرہ لکھیے