تن من نیل ونیل ایک لائٹ سا ڈرامہ تھا مگر اس کا اینڈ بے حد منفرد اور غیر متوقع تھا۔ہمارے ہاں جس طرح سے مذہب کے نام پر جوڑ توڑ کی جاتی ہے استحصال ہوتا ہے آخری قسط میں بس ایک سین میں بہت ہی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔اور جن لوگوں کو اس ڈرامے کے ذریعے خراج تحسین پیش کیا گیا وہ واقعی اس کے مستحق تھے ۔
پاکستانی قوم نہ صرف دنیاوی لحاظ سے جاہل ہے بلکہ مذہب کے معاملے میں بھی چٹی ان پڑھ ہے۔اس کا ثبوت سوشل میڈیا پر خدیجہ، عائشہ رضی اللہ عنہما کی سلائی مشینوں، نبیﷺکے تین گز لمبے 4 انچ موٹے بالوں کی لٹ، ان سے منسوب کیے گئے کپڑوں، جوتوں، ضعیف احادیث پر سبحان اللہ ماشاء اللہ کی کثیر تعداد ہے۔آئے دن کسی غیر مسلم یا مسلمان کا توہین مذہب کے نام پر قتل ہے۔ہم تو اس قدر کم عقل ہیں کہ خود خواہ مذہب پر عمل اتنا بھی نہ ہو کہ پانچ وقت کی نماز بھی نہ پڑھتے ہوں لیکن کوئی عربی حروف تہجی والے کپڑے پہن لے تو اسے گستاخ مذہب کہہ کر قتل کرنے پر تل جاتے ہیں۔کسی سے جھگڑا ہو جائے تواس پر یہ الزام دھر کر اسے سربازار اس بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں کہ چنگیز خان اور ہٹلر کی روح بھی کانپ اٹھے۔
کاش کوئی میرے ہم وطنوں کواتنا دنیاوی و دینی علم و شعور ہی دے دے کہ بھیڑ بکریوں کی طرح اندھا دھند تقلید کی بجائے ذرا سا دماغ استعمال کر کے صبر و تحمل سے کام لے کے تحقیق کے بعد کوئی قدم اٹھائیں۔
اوراگر یہ سب نہیں کر سکتے تو کم از کم قتل جیسا قبیح فعل کر کے اپنی آخرت تو خراب نہ کریں۔دین کے نام پر جھوٹا الزام لگا کر بلاتحقیق قتل کرنا عوام کا کام نہیں نہ ہی یہ کسی کے سچے اور باعمل مسلمان ہونے کا ثبوت پے۔یہ سراسر کبیرہ گناہ ہے۔اس لیے اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو اس بارے میں قرآن حدیث، پاکستان کے پینل کوڈ کے قوانین سے آگاہ کیا جائے۔مگر افسوس ہمارے ہاں جن موضوعات پر لکھنا چاہیے انہیں ٹیبو قرار دے کر ان پر بین لگا دیا جاتا ہے۔اور جن پر بین لگنا چاہیے انہیں رائج کیا جاتا ہے۔اللہ تعالٰی سب کو شعور عطا فرمائے اور جانوروں کی طرح آنکھ، کان، دماغ استعمال کیے بغیر زندگی گزارنے سے بچائے۔
تبصرہ لکھیے