ماں… دعاؤں کا سائبان، باپ… رہنمائی کا چراغ۔ یہ دو عظیم ہستیاں وہ مضبوط ستون ہیں جن پر اولاد کی دنیا قائم ہوتی ہے۔ ماں کی بے لوث محبت اور دعا زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے، جبکہ باپ کی رہنمائی، قربانی اور تربیت وہ روشنی ہے جو زندگی کے سفر میں ہمیں بھٹکنے نہیں دیتی۔
میری ماں، میری دعاؤں کا سائبان، میرا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ ان کی محبت، خلوص اور دعاؤں کی تاثیر میری کامیابیوں کی بنیاد ہے۔ جب زندگی کے راستے دشوار ہوتے ہیں اور مشکلات آتی ہیں، تو ان کی دعا ہر رکاوٹ کو مٹا دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ صحت و تندرستی عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ آمین!
لیکن زندگی کا یہ سفر ایک ایسی کمی کے ساتھ جاری ہے جو کبھی پوری نہیں ہو سکتی—میرے والد محترم مفتی نذیر احمد مرحوم۔ انہیں ہم سے بچھڑے تین سال ہو چکے ہیں، مگر وہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں، ہماری پہچان ہیں، ہماری رہنمائی کا چراغ ہیں۔ وہ صرف ہمارے خاندان کے سربراہ نہیں تھے بلکہ ایک نظریہ، ایک مشن اور ایک جدوجہد کی علامت تھے۔
مفتی نذیر احمد مرحوم—اقامتِ دین کے ایک مجاہد
میرے والد محترم، مفتی نذیر احمد مرحوم، نے اپنی پوری زندگی حق کی سربلندی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ وہ 14 سال تک جماعت اسلامی ضلع ساہیوال کے امیر رہے اور جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی شوریٰ کے رکن کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات سرانجام دیں۔ اقامتِ دین کی جدوجہد ان کی زندگی کا محور تھی، اور آخری وقت تک وہ اسی مشن کے لیے سرگرم رہے۔ حتیٰ کہ بسترِ مرگ پر بھی وہ ہمیں نصیحتیں کرتے، اقامتِ دین کی اہمیت سمجھاتے اور جماعت اسلامی کو امت کا سرمایہ قرار دیتے رہے۔
ان کی روحانیت اور دین سے وابستگی بے مثال تھی۔ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی ادائیگی ان کے معمولات کا لازمی حصہ تھی، اور اللہ نے انہیں حج کی سعادت سے بھی نوازا۔ قرآن سے ان کی محبت بے پناہ تھی، اور وہ ہر گھریلو نشست میں ہمیں قرآن کی تعلیمات سے روشناس کراتے۔ ان کا درسِ قرآن، نمازوں کی تلقین، اور اسلامی لٹریچر کے مطالعے کی ترغیب ہمارے لیے ایک قیمتی ورثہ ہے۔
کتابوں سے ان کا تعلق غیرمعمولی تھا، خاص طور پر جماعت اسلامی کے لٹریچر سے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابیں ان کے لیے مشعلِ راہ تھیں، اور وہ انہیں اس دور کا مجدد، مفسر اور اسلامی فکر کا احیا کرنے والا سمجھتے تھے۔ والد صاحب نے سید مودودی کی کتب کو اس قدر گہرائی سے پڑھا تھا کہ ان کا ہر لفظ ان کے دل و دماغ میں رچ بس چکا تھا۔ وہ ہمیشہ ہمیں بھی تحریکی لٹریچر پڑھنے کی تلقین کرتے اور زندگی کے ہر پہلو کو دین کی روشنی میں دیکھنے کی نصیحت کرتے۔
ایک روشن مثال، جو ہمیشہ زندہ رہے گی
میرے والد صاحب کی زندگی صرف ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک روشن مثال تھی۔ وہ ہمیں ایک مشن دے گئے، ایک راستہ دکھا گئے۔ ان کی دعائیں، ان کی باتیں، ان کی تربیت اور ان کے خواب آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔
ماں کی دعائیں اور باپ کی تربیت… یہی وہ دو خزانے ہیں جو کسی بھی زندگی کو بامقصد اور بابرکت بنا دیتے ہیں۔ اللہ ہمیں ان نعمتوں کی قدر کرنے، والدین کی عزت و خدمت کرنے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ میرے والد کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین!
تبصرہ لکھیے