ہوم << معافی ’’عام‘‘ لیکن صرف برائے ’’خواص‘‘ - سید اسرار علی

معافی ’’عام‘‘ لیکن صرف برائے ’’خواص‘‘ - سید اسرار علی

اسرار علی ’ناکام بغاوت‘ اور ’کامیاب انقلاب‘ کے بعد جب بھی جمہوری دور شروع ہوتا ہے تو کچھ دانشور یہ نصیحتیں کرتے تھکتے نہیں کہ گرفتاریاں نہیں ہونی چاہیں۔ عوام اور باغیوں (فوجی آمروں) میں محبت کی فضا قائم رکھنی چاہیے۔ اداروں میں ٹکراؤ کو روکنا چاہیے۔ معاف کردینا بہترین بدلہ اور جمہوریت بہترین انتقام قرار پاتے ہیں۔ ان سب لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر کچھ سوالات کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔
ہر بغاوت کے بعد ’’عام معافی‘‘ کا اعلان ، عام لوگوں کے لیے بھی ہوناچاہیے۔ مگر یہ مطالبہ صرف خواص کے لیے کیوں ہوتا ہے؟ یہ مطالبہ ہمیشہ آرمی، عدلیہ اور سیاستدانوں کے لیے ہی کیوں ہوتا ہے؟ ایسا مطالبہ عام افراد کے لیے کیوں نہیں ہوتا؟ ہر بغاوت میں لوگ مرتے ہیں اور ہر تحریک میں انسانوں کا خون بہتا ہے، پھر معافی کا اعلان صرف ان لوگوں کے لیے کیوں جو ’’خواص‘‘ ہوتے ہیں۔
کیا ہم مطالبہ کر سکتے ہیں کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں ہتھیار اٹھانے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جائے اور جو واپس آئے اسے کچھ نہ کہا جائے۔ اس کے ساتھ حسن سلوک کا ثبوت دیا جائے۔ لیکن اس معاملے میں آپ یہی کہیں گے کہ نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ انہیں کسی صورت بھی معاف نہیں کیا جائےگا کیونکہ انہوں نے بےگناہوں کا خون بہایا ہے۔ آپ کی بات بالکل ٹھیک اور مبنی برحقیقت ہوگی لیکن پھر آپ ان لوگوں کے غم میں ہلکان کیوں ہو رہے ہیں جنہوں نے سینکڑوں لوگوں کا خون بہایا؟ جنہوں نے منتخب حکومت کو گرانا اور ملکی سالمیت اور استحکام کو داؤ پر لگانا چاہا؟ منتخب اور مقبول عام صدر کو مارنا چاہا، پارلیمنٹ پر چڑھائی کی، اور آئین کو پامال کرنا چاہا۔ ملک کو تشدد، افراتفری اور عناد کی طرف دھکیلنا چاہا۔
عدل اور عقل، دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ یا تو دونوں صورتوں میں عام معافی کا اعلان کر دیں ورنہ دونوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا مطالبہ کریں۔ فوجی کو وردی، جج کو گاؤن اور سیاستدان کو شیروانی کی وجہ سے یہ خصوصی رعایت نہیں دینی چاہیے کہ وہ جو چاہے کریں۔ اگر کامیاب ہوجائے تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں جبکہ ناکامی کی صورت میں ’’عام معافی اور حسن سلوک‘‘۔
حضور! انصاف کیجیے۔ اگر ہم سب بحیثیت انسان برابر ہیں تو ہمارے گناہوں کی سزا بھی برابر ہونی چاہیے۔ بغاوت میں ناکامی کی صورت میں جو ’’حسن سلوک‘‘ آپ اپنے لیے پسند کر رہے ہیں۔ وہ رعایت دوسروں کو بھی دیجیے۔

Comments

Click here to post a comment