سہیلی کی حویلی سے ایک میٹھی خبر نکلی تھی۔
صرف ایک خبر سے یکبارگی ناریل کی میٹھی خوشبو اٹھی اور چہار سو پھیل گئی۔
"یہ خبرمیرے لیے نہیں ہے ۔بےپروا نے بے رخی سے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔" یہ مشکبار عندیہ کسی اور کے نام ہے۔
"فروری کی دس کو جھیل کے پانیوں کو ملنے جانا ہے."
"کنول نے منگلا جھیل کا پلان کیا ہے."
فاطمہ نے کہا، تم تو نہیں جا پاؤ گی۔
ہاں نہیں ۔
اس روز تو تمہارا پیپر ہے
جی پیپر ہے۔
پانچویں سمسٹر کا فائنل
ایکسپیریمینٹل سایکالوجی کا پرچہ ہے۔
بےوقت کی راگنی
خود ہی طنز فرمایا
نہ جانے کا مکمل جواز موجود ہے ۔ دل مطمئن تھا۔
پھر خبر ملی کارکنانِ و ساکنانِ قضا و قدر نے پلان التوا میں ڈال دیا۔۔۔
چپکے چپکے من مندر میں خیال نے دھونی رمائی یہ التوا
کہیں میری وجہ سے تو نہیں
نہیں نہیں۔۔۔
گھر میں مہمان کی آمد آمد ہے سو ابھی کچھ ایسا ممکن نہیں۔
داسی حاضر ہے۔۔ جو حکم
اندر دھونی رما دی جوگی نے
آگ بڑ بڑ جلنے لگی۔ اگر،عود ،عنبر، لوبان ۔۔۔۔ تیز مہک دور تک پھیلتی گئی۔۔
"تم نے جانا ہے؟"
"نہیں"
"آ جاؤ"
"مشکل ہے یار"
"تمہیں چپکے چپکے ڈسکاونٹ دوں گی..." یہاں وسعتِ قلب جاگی تو وہاں شرارت اتری.
"نہیں بالکل فری میں"
آنکھوں میں ستارے ٹمٹمائے.
لاڈ تب ہی ممکن ہے جب کوئی اٹھانے والا ہو۔۔ دعا کے لاڈ اٹھانے والی نے کہا سو بار صدقے۔۔۔ دعا کے بجھتے چراغ جلنے لگے۔ آس کے دئیے میں مراد کی لو بھڑکنے لگی۔۔ تیل ڈالتے رہنا چاہیے مسیت میں۔۔۔
"ایک سے پوچھا"
جاؤں؟
"نہیں !کیا کرنا ہے جاکے."
ہر وقت تفریح ۔۔
اہلِ مہربان سے پوچھا
فرمایا
تمہاری مرضی۔۔۔ سارے جہان سے پوچھا کہ پوچھنے کی عادت ہے۔۔
پھر من مندر کے بھگوان سے پوچھا۔۔
"ایک تو یہ ہے کہ بات مانتی نہیں ہو"
"اچھا نہیں جاتی"
ہاں ماں ہوں قربانی تو فرض ہے ۔ جنت کمانی آسان تو نہیں۔ ذات کا بلیدان۔۔
اندر کوئی بڑبڑایا تو کیا اپنے لیے ایک اور زندگی ملے گی؟
سہیلی نے حویلی سے ایک وڈیو بھیج دی
ہائے پانیوں کا شور
پانی نیلم جہلم کا ٹھاٹھیں مارتا شفاف سبزی مائل پانی نیلا گھاٹ
پنگھٹ
جھیلیں۔۔۔ آبی پرندے
لہریں
چھلیں
خواجہ خضر
جوگی کہتا ہے
جاؤ
بلاوا ہے
ہونہہ بلاوا؟
باتیں گھڑی ہیں ساری
انسانوں نے دل کو بہلانے کے لیے
لب ہلے
کیا بلاوا ہوتا ہے؟
حکمت نے آنکھیں میچ کے پورے وثوق سےکہا
"ہاں"
دعا باغی ہے دونوں اینگل سے دیکھتی ہے
سب ایکٹیو پیسیو ہے
سب لاشعور میں ہے
یہ بلاوا
یہ طلب ،یہ غرض، یہ سب من کے اپنے اندر ہے اور پوری کائنات بھی تو من کے اندر ہے.
جھیلیں دریا پانی پاکی ناپاکی سب کچھ
چھوڑ فلسفہ گرییں نہ کھول نہ باندھو
"زندگی میں انمول لمحات بار بار نصیب نہیں ہوتے"
جوگی نے نعرہ لگایا
جا۔۔۔
لمحہ لمحہ یٗگ جینے کے گر کس نے سکھائے۔
ایک دانا نے
یہ وہ پھل ہیں جنہیں توڑنے کے لیے جی جان لگانی پڑتی ہے خوشی آپ کی پالتو نہیں ہے جو بستر پہ لیٹے لیٹے آپ کے پاؤں کے تلوے چاٹنے کے لیے بےتاب ہو جائے۔۔ قویٰ ہلانے پڑتے ہیں۔۔۔
دو ہی باتیں ہیں
من مرضی
چاہ
"واماندگئی شوق کا لمحہ لے کر"
کپڑے پہن لیے تو میسج کیا
مشکل ہے
چلو جیسے تمہاری مرضی جوگی جیت گیا
قافلہ چلا۔۔۔
سکھی سرگروہ بن جاتی ہے
آنکھیں دکھاتی ہے
لہجے میں رعب ہے۔
دراصل فکر کرتی ہے
سر پہ ذمہ داری کا ٹوکرا ہے ادھر پنگھٹ پہ جانے والیوں کے سروں پہ خوابوں کی سنہری گاگریں۔۔
اڑن کھٹولے میں گانے بجتے ہیں
تالی بجتی ہے
انرجی کو ہلانے جلانے کے لیے ہی تالیاں بجائی جاتی ہیں۔
مثبت انرجی چہار سو لیونڈر کی کاسنی ردا اوڑھے پھیل جاتی ہے۔۔۔
سرگوشیاں۔۔۔
مسکراہٹیں۔۔۔
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک ۔۔خواہش زندگی کی بانہوں میں رقص کناں۔۔۔
سامنے لکھا آتا ہے
منگلا واٹر ریزارٹ
اتنی جلدی
ادھر آنکھ میٹی ادھر جی ٹی روڈ پہ جہلم
جہلم بک کارنر کی یادیں
دینہ
گلزار کا شہر
اس سے پہلے کھاریاں۔۔۔
اور۔۔۔گزرگاہیں پیڑوں کے تنوں پہ محبت کا نام لکھنے والی ہوا رس گھولتی ہے ۔ زندگی کے ساز پر دھڑکنوں کی گونج ہے۔۔
سفر میں پہلی بار کھڑکی کے پار دیکھنے والی وہ نہیں کوئی اور ہے اور ہر منظر اس کی اوٹ سے اور بھی دلنشیں لگ رہا ہے۔
سرگروہ محبت کی دہلیز پر فرائضِ کی چق تانے کن اکھیوں سے جھانکتی ہے۔۔ آنکھیں میچ لیتی ہے۔ سب کچھ من میں سمو کے خالصتاً ماں کا روپ بھر لیتی ہے۔
آزاد کشمیر کی زمستانی ہوانے ہاتھ بڑھا کے گلے لگا لیا۔
پنجاب کے اتنے پاس ہے ہاں میر پور اتنے ہی پاس ہے
ہاتھ بڑھاؤ اور گلے لگا لو۔
اور ساتھ بیٹھی کھڑکی سے پار دیکھنے والی دونوں جانب دیکھتی ہے۔
خالی صراحی کے نتھرے پانی میں صندل گھولے جا تی ہے۔۔ رتی گلی والی پاس بیٹھی ہے.
تیرے قرب کی خوشبو ابھی پڑھی نہیں ارادہ ہے کہ نیلم جہلم اپنی پوری آن بان اور شان سے اپنے درشن کھول دیتی ہے۔۔۔ نیلی ردا اوڑھے حسن کی پرت در پرت میں لپٹی شفاف پانیوں کی کہانی لکھتی لہر لہر دل کے دامن میں بھرتی سب سکھیاں پریاں بن کے نیلے نیلے امبر پہ پیرا گلائڈنگ کے مزے لیتی ہیں۔۔۔ پانیوں کی پجارن محبت کے بھنور میں گھوم کر سب کچھ بھول چکی ہے۔۔ پوری کائنات پسِ منظر میں ہے.
ایک تاحد نظر پھیلا ہوا شانتی بھرا نیلاہٹ کے پیرہن میں اترا ٹھنڈا ٹھار منظر روح میں گھل گیا۔۔ پانی اور آسمان کے کنارے ایک ہو گئے۔۔۔ سطح آب پر غسل کرتے سفید پرندے
کالے پرندوں کے غول اور لکھاریوں کی روحیں بےتابانہ مل رہی ہیں ۔۔۔ کوہ قاف سے اوپر۔۔۔ اوپر ۔۔۔ اوپر۔۔۔۔۔ کنول کی پانچوں مقدس پتیاں اور بھی کھل اٹھیں۔۔۔
تبصرہ لکھیے