السلام علیکم امی !
امی آپ ٹھیک ہیں؟؟ خوش باش ہیں؟ مجھے تو لگتا ہے آپ اس وقت پرسکوں ،خاموش اور وسیع وعریض سبزہ زاروں میں بیٹھی اپنی سب اولادوں کو مطمئن دیکھ کر مسکرا رہی ہیں، آپ کے ہاتھ میں ایک خوبصورت تسبیح ہے جسے مکمل کرتے کرتے دنیا میں آپ کو کتنا وقت لگتا تھا، لیکن وہ تسبیح آپ کے ہاتھ سے جدا نہیں تھی نا۔ ہے نا بے بے ؟؟ گیارہ بچوں کو پالتے ہوئے آپ کو تسبیح پھرولنے کا وقت بھی نکالنا آتا تھا۔ آپ کمال تھیں امی ۔
آپ کے سپارہ پڑھانے والے معمول کا کیا بنا بے بے؟ آپ تو آخری دن بھی فجر اور عصر دونوں نمازوں کے بعد آنے والے بچے پڑھا کر گئی تھیں ۔ اب وہاں آپ ان اوقات میں کیا کرتی ہوں گی؟؟
امی ! آپ کتنا کم سوئی ہیں نا پوری زندگی؟ باجی بتاتی ہے کہ آپ پوری رات سویٹر بنتی رہتی تھیں ، یا کتابیں پڑھتی تھیں، اور ہم۔میں سے کسی نے بھی آپ کو دن کو بھی سوتے ہوئے نہیں دیکھا، پھر آپ کیسے چاق چوبند رہتی تھیں،؟ اللہ تعالیٰ آپ پر مزید مہربانی فرمائے۔ آپ کو جنت الفردوس کے باغات میں ہنستا مسکراتا رکھے ۔
آپ سو برس کے بھی ہو جائیں، ماں کے جانے کا دکھ پرانا نہیں ہوتا ، اس دکھ پر کھرونڈ نہیں آتا ، یہ ہر اس موقع پر رسنا شروع ہو جاتا ہے جب آپ کبھی خوش ہوں، رنجیدہ ہوں، اداس ہوں، اور اس کی وجہ کسی سے شیئر کرنا چاہتے ہوں، یا پھر اپنی کامیابی پر خوش ہوں، ماں آپ کو یاد آتی ہے. کسی دن موسم بہت اچھا ہو، شام کی چائے پر آپ کا سب خاندان اکٹھا ہو، اچانک ہی دل کے کسی کونے سے آوازآئے گی امی بھی ہوتیں تو کتنا مزہ آتا . ابھی کل کی ہی بات ہے صبح ناشتے کی میز پر ملازم نے چائے رکھی، چائے شدید گرم تھی، کپ میں سے بھاپ نکل رہی تھی، لیکن ہ چونکہ آفس کے لیے دیر ہو رہی تھی، اس لیے جلدی میں وہی بھاپ اڑاتا کپ منہ سے لگایا ، ہونٹ جلنے پر امی کی یاد آئی، پانچ منٹ پہلے اٹھ جایا کرو تو پھر منہ نہیں جلے گا، اور آنکھوں سے بہتے اشکوں کو ٹشو سے پونچھ کر آفس کے لیے نکل آئی ۔
امی،اب آپ سوچ رہی ہوں گی کہ یہ ابھی بھی ویسی ہی ہے، بات شروع کر کے کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ جی جی مجھے پتہ ہے امی اب آپ کو سب سننا ہے مجھ سے ، ہے نا؟
سب بتاتی ہوں ایک ایک کر کے ، اب بھی ہم سارے باہر سے آتے وقت اونچی آواز میں امی السلام علیکم بولتے ہیں، جاتے ہوئے بآواز بلند امی اللہ حافظ کہنا بھی جیسے ہم سب کی گھٹی میں پڑا ہے، ساتھ والے گھر کی آنٹی کہتی ہے کتنے برس گزر گئے تم لوگوں کی ماں کو گئے ہوئے، ابھی بھی اس کو سلام کرنا نہیں بھولتے ،اب بس کر جاؤ، پر پتہ نہیں بےبے ، یہ عادت چھوٹتی ہی نہیں، ہم سارے بہن بھائی شکر اللہ سوہنے کا بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں، آپ کی دعاؤں کی بدولت سب کے روزی رزق کاروبار میں اضافہ ہوا ہے، ہر جمعرات کو ہم آپ کے نام کی فاتحہ دلاتے ہیں ۔ امی آپ کو ہمارا پڑھا ہوا قرآن ملتا ہے نا؟ ہم سب روز کا ایک سپارہ پڑھتے ہیں جب سے آپ گئی ہیں۔
پتہ ہے امی آپ کے جانے کے بعد سے آپ کی لگائی ہوئی انگور کی بیل پر پھل نہیں اترا، آپ کا امرود کا پودا بھی سر نیہوڑا ے کھڑا ہےبس ، بڑھتا چلا جا رہا ہے، بڑھتا چلا رہا ہے لیکن امرود نہیں لگتے، ایسے جیسے احتجاجاً لمبے سے لمبا تر ہوتا جارہا ہو۔ موتیے کے پھول اب بھی ساتھ والی خالہ کے گھر لگتے ہیں لیکن اب میں ان کو اپنے گھر نہیں لاتی، ان کی خوشبو سے آپ کی یاد پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے. امی ! وہ جو گلی کے نکڑ پہ بیٹھنے والی اماں تھی نا؟ اس کو ہم نے آپ کے سارے کپڑے دے دیے تھے، اس کے بعد وہ نظر نہیں آتی ، اللہ جانے اس علاقے سے چلی گئی ہے۔ وہ سبزی کی ریڑھی لگانے والا لڑکا اب ہماری گلی سے نہیں گزرتا، کہتا ہے خالہ یاد آجاتی ہے،
۔
امی ایک بات کی مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی ، آپ تو کہیں بھی نہیں آتی جاتی تھیں، بس گھر گھرداری، بچے اور سپارہ پڑھانے کا معمول ، بس یہی آپ کے روزمرہ کے معمولات تھے نا، لیکن آپ کے جنازے پہ اس قدر خلقت تھی بے بے جی، عورتیں ہی عورتیں بے شمار عورتیں، بے تحاشا رش، مجھے آپ کی چارپائی کے پاس کھڑے کھڑے آپ کی بات یاد آئی تھی، '' تو رہنے دے میری بچی، مجھے عقل مت نہ دے کہ میں کہیں آتی جاتی کیوں نہیں، تو نہ ڈر کہ تیرے گھر بھی کوئی نہیں آئے گا، تو بس بندوبست پورا رکھ، تو دیکھے گی تل دھرنے کو جگہ نہیں ملے گی۔ ۔''
امی!! میں نا اب مزید کچھ لکھ نہیں سکتی کیونکہ کاغذ گیلا ہوتا جا رہا ہے، سیاہی پھیلنے لگی ہے، مجھے اپنا لکھا ہوا بھی سمجھ نہیں آرہا ،بس پانی ہے میرے گالوں پہ، میرے چہرے پہ،میرے ہاتھ پسیج رہے ہیں.
امی!بابا کا ذکر میں نے حذف کر دیا، ہے،اتنا جگرا ہی نہیں کہ ایک ساتھ آپ دونوں کو یاد کروں. بابا بھی آپ کے ساتھ شاداں و فرحاں ہوں گے. اس کا ثبوت تو اس بات سے ہی مل گیا تھا کہ آپ کی قبر کے ساتھ ہی ایک بہت بڑا درخت آندھی طوفان کی زد میں آ کر گر گیا تھا، نہ اس کو کمیٹی والوں نے ہٹوایا، نہ اس پر کسی اور کی نظر پڑی، ورنہ آپ کو تو معلوم ہی ہے شہر کے قبرستانوں میں جگہ کہاں رہتی ہے؟ تو وہ درخت پورے تین سال اسی جگہ پڑا رہا، اس کے تنے نے جیسے بابا کی قبر کی جگہ مختص کر دی تھی، اور تین سال بعد بابا بھی آپ کے پہلو میں آ بسے۔ اللہ تعالیٰ آپ دونوں پہ اپنی بے بہا رحمتیں نازل فرمائے ، آپ دونوں نے والدین ہونے کا حق ادا کر دیا ۔
اللہ حافظ امی ۔
آپ کی بیٹی
عاصمہ نورین
(ماؤں کی قدر کریں، جب تک یہ آپ کے ساتھ ہیں، آپ کے سر پر چھاؤں ہیں، یہ دعاؤں کا منبع جب سر سے ہٹ جائے تو خدا بھی موسیٰ کو سنبھل جانے کی تلقین کرنے لگتا ہے؛ پہاڑ بھی ہلنے لگتا ہے. تمام مائیں سلامت رہیں، ہر پڑھنے والے کی آنکھ شاد رہے، ہر دل مسکرائے۔)
تبصرہ لکھیے