ہوم << ویلنٹائن ڈے"کیا حرج ہے "کہہ کر نہیں منایا جا سکتا. انعم زیدی

ویلنٹائن ڈے"کیا حرج ہے "کہہ کر نہیں منایا جا سکتا. انعم زیدی

ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مصدقہ اور غیر مصدقہ مختلف واقعات مشہور ہیں جن سے تقریبا سبھی باشعور لوگ واقف ہیں ،دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔البتہ پاکستان میں 14 فروری غیر شادی شدہ افراد نے منانا شروع کیا تھا جسے اب شادی شدہ جوڑے بھی منانے لگے ہیں ، بلکہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے ذریعے یہ اتنا عام ہوچکا ہے کہ عید کی طرح باقاعدہ ایک تہوار کی صورت اختیار کرگیا ہے ، جس سے ہر طبقہ متاثر ہے حتی کہ دین دار گھرانے بھی ۔
وجوہات وہی کہ محبت منانا ناجائز کیسے ہوگیا ؟
ہم صرف پھول ہی تو پیش کرتے ہیں ۔
اگر میاں بیوی منا رہے ہیں تو حرج ہی کیا ہے وغیرہ ۔

سچ تو یہی ہے کہ اسلام محبت منانے سے منع نہیں کرتا بلکہ یہ تو وہ دین ہے جو سراپا محبت ہے ۔ پورا سال دن ہو یا رات اپنے محرم رشتوں سے محبت کرنے، تحفے تحائف دینے ، محبتیں بانٹنے سے اسلام نہیں روکتا ۔دن رات بیگمات اور شوہر ایک دوسرے کو پھول پیش کریں ، چاکلیٹس دیں ، خواتین سرخ لباس پہنیں ، رہے غیر شادی شدہ جوڑے تو وہ نکاح کے ذریعے اپنی محبتوں کو فروغ دیں اسلام نے کب منع کیا ہے ؟

جہاں اسلام قدغن لگاتا ہے تو اس کے پیچھے بھی وجہ محبت ہے کہ کہیں اس کے ماننے والے پاک پاز لوگ غلاظت کے ڈھیر کا حصہ نہ بن جائیں ، انجانے میں غلاظت کے ہمرکاب نہ ہو جائیں ۔ وہ اپنے ماننے والوں کا اتنا قدر دان ہے کہ انہیں ہر طرح کی غلاظت بلکہ اس کی چھینٹ تک سے بچانا چاہتا ہے ۔14 فروری سے جڑے اکثر قصے کہانیوں کو تقریبا سب جانتے ہیں کہ وہ کس قدر غلیظ اور بدبودار ہیں ، کوئی بھی سمجھدار معاشرہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ، چاہے مسلم ہو ، مسیحی یا ہندو ۔

جس طرح ہم کسی بدنام اور ہلکے کردار والے شخص سے تعلقات بنا کر نہیں رکھتے نہ رکھنا چاہتے کہ ہم عزت دار لوگوں کی عزت پر بٹہ نہ لگے ، کوئی ہماری شرافت پر انگلی نہ اٹھائے ، ہمارے کردار پر بات نہ آئے کبھی سوچیےکہ کس جگرے سے ایسے غلیظ تہوار کی نسبت اپنی طرف برداشت کرلیتے ہیں ؟ نہ صرف برداشت کرتے ہیں بلکہ اسے خوش دلی سے باقاعدہ تہوار کے طور پر مناتے بھی ہیں اور تہوار بھی کوئی خوبصورت نہیں بلکہ صورتحال اتنی گھمبیر ہوتی ہے کہ شریف شخص گھر سے باہر نکلنے کو مؤخر کرنا بہتر سمجھتا ہے۔

ہم گندگی سے بھری جگہ سے کھانا نہیں کھا سکتے وہاں بیٹھ نہیں سکتے تو اپنی نسبت ایسے لوگوں کی طرف کیسے برداشت کر لیتے ہیں جو سوائے گند کے کچھ نہیں ؟

ذرا سوچیے!
ایک جم غفیر ہو جہاں لوگوں کی گروہ بندی کی جارہی ہو اور ہم اس گروہ میں شامل کردیے جائیں جو بدنام زمانہ ہو تو کیسا محسوس ہوگا ؟ جیسے ہم دنیا میں اعلی اور ارفع شخصیات کے ساتھ نسبت میں فخر محسوس کرتے ہیں تو کیا آخرت میں اس فخر کی ضرورت نہ ہوگی کہ نبی رحمت علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا تھا جو جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ ہوگا ۔ پھر اپنی انفرادی سطح سے ہٹ کر بچوں کے بارے میں سوچیے چاہے آپ والدین ہیں یا مستقبل میں بنیں گے کہ جس طرح ہم جنس پرست جوش و خروش سے یہ تہوار مناتے ہیں ، خدانخواستہ آئندہ آنے والی نسلیں ہمارے اس تہوار منانے کو ہلکا پھلکا سمجھ کر ہم جنس پرستی کے پلڑے میں اگر بیٹھ گئیں تو ؟

سیدنا نوح علیہ السلام کی قوم میں شرک یکدم تو نہیں آیا تھا ۔ایک پیڑھی نے یاد گار بنائی ، دوسری نے تعظیم کی ، تیسری نے عبادت شروع کردی ، روک ٹوک نہیں تھی نا ، اصلاح کرنے والا کوئی نہ تھا تو غرور و تکبر اتنا بڑھا کہ "ہم ہی ٹھیک ہیں" کا نشہ طاری ہوا نتیجتا پوری قوم غرق ہوگئی ۔اپنی نسلوں کا تحفظ عزیز ہے تو اپنے دین ، روایات اور اقدار پر کار بند رہیے ، اس غلیظ نسبت سے کراہت محسوس کیجیے اور اپنے آپ کو روک لیجیے قبل اس کے کہ ہماری نسلیں اسے جنس مخالف کی محبت کی بجائے ہم جنس پرستی تک لے جائیں ۔ تفریح اسلام کے دیے گئے تہواروں پر کیجیے نا۔کیا اتنا اہتمام ہماری عیدوں پر ہوتا ہے جتنا اہتمام اس دن کیا جاتا ہے ؟ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی مناسبت سے غبارے ، چاکلیٹس ، پرفیوم ، مخصوص تحائف کس کس نے اس طرح دیکھے ہیں جیسے اس دن نظر آتے ہیں ۔

کیا اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ اسے عام کرنے والوں کی ترجیحات ، وسائل اور منصوبہ بندی کس قدر مضبوط ہے ۔ اور یہاں فرض ہے ان کا بھی جنہوں نے اسلام کی خوبصورتی بتانی ہے کہ وہ اپنی ترجیحات میں تبدیلی کریں ، ضروری ہے کہ منبر و محراب محرم رشتوں خصوصا میاں بیوی کے تعلقات میں محبت پیدا کرنے اور اسے منانے کے اسلامی طریقے بتائیں ۔ مرد و خواتین دونوں کو کورسز اور ورکشاپس کے ذریعے آگاہ کریں کہ اسلام ایک خوبصورت دین ہے جہاں محبت کی بہت اہمیت ہے ، تاکہ وہ اسے اسلامی طریقوں سے مناسکیں۔گھر اور گھریلو مسائل سے پریشان حال جوڑے اس ایک دن کو غنیمت جان کر منا لیتے ہیں لیکن اگر یہی محبت کے مواقع انہیں سال بھر منانے کو ملیں تو یقین کیجیے اس ایک دن کی اہمیت ختم ہو جائے گی ۔

جنس مخالف کی طرف کشش اور محبت فطری جذبہ ہے اسے دبانے کی بجائے فطری طریقے کی آگہی دیں۔ جب تریاق دے دیا جائے تو زہر خودبخود ختم ہونے لگتا ہے ۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم تریاق بھی ایسے لٹھ مار انداز میں دیتے ہیں کہ وہ بجائے تریاق کے خود ناسور بن جاتا ہے ۔ اس دن کو مناتے لوگوں پر دستی حملے ، مڈبھیڑ کرنے اور فتوی لگانے سے انہیں اسلام سمجھ نہیں آئے گا ، اس کی بجائے انہیں نرمی سے اسلام کی خوبصورت محبت سے آگاہ کریں ، جب تک دوا نہیں دیں گے مرض کیونکر سدھرے گا ؟

آخر میں ان سب لوگوں سے ادبا سوال ہے جو اس دن کو "کیا حرج ہے "کہہ کر مناتے ہیں ، اپنے آپ سے کبھی پوچھیے گا ، تحقیق کیجیے گا کہ بطور مسلمان محبت کے اظہار کے لیے اس دن کو منانے کی اسلام مجھے اجازت دیتا ہے ؟ رب تعالیٰ نے کل پوچھ لیا تو ؟ "ہم فلاں فلاں گناہ بھی تو کرتے ہیں ایک یہ بھی سہی "کرکے گزرتے جائیں گے تو ممکن ہے پہاڑ اتنا بڑا ہو جائے کہ کل عبور کرتے کرتے تھکن ہونے لگے ۔

Comments

Click here to post a comment