ہوم << بچپن میں اٹکی زندگی - طیبہ افضل بٹ

بچپن میں اٹکی زندگی - طیبہ افضل بٹ

آج کل زندگی بچپن میں اٹکی ہے۔ اورصرف وہ حصہ جہاں چھت ( تور کوٹھے) پر دادی مرحومہ ( آپا جی ) نے نالے بننے کا ایک لمبا اڈا کھڑا کیا ہوا تھا ، جس پر وہ ایک کے بعد ایک رنگ برنگے ریشمی نالے بن رہی ہوتی تھیں۔ خوبصورت، ملائم، دلپذیر ہلکے و شوخ رنگ ریشم پر طرح طرح کے ڈیزائن، جنہیں ہاتھوں سے کھولو تو ڈئزاین نظر آئے، ورنہ وہ ایک ریشمی رسی۔ جو لمبا سا بنا ہوا اختتمایہ تھا ، جانے اسے کیا کہتے ہیں وہ بھی انتہائی خوبصورت ہوتا تھا۔ ریشم کے ڈیزائن کو ہاتھ سے کھول کھول کر دیکھنا ایک مزیدار مشغلہ تھا۔ تب یہ معلوم نہیں تھاکہ یہ نالے ( آزار بند ) ہمارے جہیز کے لیے بن رہے ہیں۔ 😔 ہر لڑکی کے لئے ایک درجن یا پھر دو درجن۔

شادی کی عمر آ ئی تو زمانہ بدل چکا تھا اور ہم جیسے ماڈرن ہکس اور زپس پر تھے، مگر امی نے وہ آزاربند سنبھال کر رکھے تھے۔ ہمارے جہیز کی بے شمار اور چیزوں کے ساتھ وہ بھی گئے۔ قسمت میں جہیز کی کوئی بھی چیز نہیں تھی، تو جس کسی کے پاس تھے یا ہوں، وہ انھیں لٹکنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے کہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مضبوط بھی تھے۔ ( ویسے یہ میری خوبصورت یادوں میں ذہن کی غیر ضروری دخل اندازی تھی ، دفع کرو )

دھوبی، درزی، بازار سے سودا سلف لانے والے و دیگر کاموں کے لیے ان کے پاس شوہر، بیٹے اور بہت سے پوتوں کے علاوہ ملازم آگے پیچھے موجود تھے، لیکن اچھی ، سگھڑ خواتین اپنا گھر شوق سے خود بناتی تھیں۔

میری زندگی آج کل جیسے اس نالے کے ایک ایک بل اور گرہ میں قید ہو گئی لگتی ہے۔ اڈا جیسے نظروں کے سامنے ہے لیکن دادی ( آپا جی ) کبھی اس کے سامنے بیٹھی دکھتی ہیں، کبھی نہیں۔ کبھی ان کی چکی ، کبھی ساگ کاٹنے والی درانتی ، کبھی ان کی سلائی مشین، تو کبھی ان کا بلایا ہوا پینجہ دھلی ہوئی روئی کو اسی تور چھت پر ممٹی کے نیچے روئی دھنتے ہوئے اڑا رہا ہے۔ نظارے ہی نظارے ہیں. آپا جی کبھی چلتی،کبھی بیٹھی کچھ کرتی دکھتی ہیں۔ کاش میں ان نالوں کو پھر چھو سکتی۔ کاش میں وہ چکی پھر چلا سکتی۔

اس تصویر میں ایک ہی بزرگ ہیں جو ہماری آپا جی ہیں۔ سارا کمال یہ بھی ہے کہ ایک پوتی انھیں آج بھی محبت سے یاد کرتی ہے، ورنہ آج کل کئی پوتے پوتیاں ہیں جنھیں دادی کہاں بستی ہے ، معلوم بھی نہیں۔ ہماری امی ہمیں دادی کے پاس چھوڑ کر خود اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہ پائیں، جبکہ اب کی مائیں بچوں کو اکیلا چھوڑ دیتی ہیں، مگر دادی کے پاس تو کبھی نہ چھوڑیں۔ پوتے پوتیاں دادی سے اپنی زندگی کے اہم باتیں چھپائیں، دادیوں کو پھر بھی پیار آئے تو اچھی بات ہے۔