ہوم << عورت مارچ کی تازہ تکلیف -سلمان علی

عورت مارچ کی تازہ تکلیف -سلمان علی

لاہور میں 11فروری کو جعلی عورت مارچ ہو گیا۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ اس مرتبہ کسی نے توجہ نہیں دی ، تو زیادہ شور بھی نہیں ہوا۔ توجہ اسی لیے نہیں دی گئی کہ اب سب کو معلوم ہوگیا ہے کہ یہ سب پیسوں کے بھوکے ، عالمی فنڈنگ پر چلنے والے ہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اب چونکہ یو ایس ایڈ بند ۔ این جی اوز فنڈ بند تو یہ عورت مارچ والا ڈرامہ اختتام کی طرف جائے گا ۔ٹرمپ نے ٹرانس پر پابندی جو لگا دی ہے۔ ویسے لاہور میں بھی ہر سال یہ خوب تیاری سے ہوتا تھا ۔ بھرپور میڈیا کمپین چلتی ۔ کئی کئی دن تیاریاں ہوتیں ۔ نت نئے بینرز اور پوسٹرز بنتے ۔ ٹاک شوز کا ائیر ٹائم خریدا جاتا مگر اب خرچہ پانی بند ہوگیا۔دوسری حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب اسلام دشمن، پاکستان دشمن، اور سب سے زیادہ خود عورتوں کے دشمن ہیں ۔

عورت کی عزت ، عورت کے حقوق کے یہ سب جعلی نعرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اِن کوتوجہ نہیں مل رہی تو یہ پاگل ہو رہے ہیں۔ ہم تو پہلے دن سے اِن کے مستقل تعاقب میں ہیں اس لیے ہم تو بات کریں گے، کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے لا دین، فیمنسٹ نظریات مسلم معاشرت پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

کسی پر تنقید کرنے کے کچھ اُصول ہوتے ہیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا کہ کوئی فیمنسٹ گروہ، وہ بھی عورت مارچ کے برانڈ کے ساتھ کسی ’عورت‘ پر گندی تنقید کرے، استہزا کرے اور پھر عورتوں کے حقوق کا محافظ بھی کہلائے؟ یہ تو خود اُس کے بنیادی مقدمے کے ہی خلاف ہوجائے گا۔وہ کس عورت کے حقوق کی بات کریں گے جب وہ خود ہی ایک عورت کی عزت کا خیال نہ کریں گے۔یہ ہے وہ تضاد، یہ ہے وہ جھوٹ ، یہ ہے وہ ظلم جو عورت مارچ کے نا م پر ، حقوق نسواں، حقوق ٹرانسجینڈر کے نام پر پھیلا رہا ہے۔ اِن کے جعلی نعرے و پوسٹر سوشل میڈیا پر موضوع بنتے رہے ہیں۔ یہ آزادی آزادی کا جعلی ڈرامہ کرتے ہیں۔اصل میں تو یہ خود آزادی کے دشمن ہیں۔ جو لوگوں کو اُن کے دین، مذہب کے مطابق نہیں چلنے دینا چاہتے۔ یہ ہے وہ ذہنیت جس کا فوری علاج ہونا چاہیے۔یہ لوگ آئیڈیا، نظریے پر ، فکر پر بات نہیں کرتے بلکہ ’’Personal Attack‘‘پر اُتر آتے ہیں۔ دلیل کے بجائے کردار کشی اور کردار کشی پر آجاتے ہیں جو اُن کے جھوٹے وجود کو سمجھانے کے لیے کافی شافی ہوتا ہے۔اب کی بار لاہور میں ایسا ہی ہوا۔

اس مرتبہ بھی کچھ عجیب پوسٹر نظرآئے ۔ جسم اور مرضی والا تو مستقل رد عمل آنے کی وجہ سے شاید تصاویر میں نہیں لایا جاتا ۔ بہرحال یہ بھی اہل حق کی ایک کامیابی ہے۔ تاہم ایک واقعہ تو یہ ہوا کہ مارچ میں آنے والی ایک خاتون اینکر وجدان راؤ کے ہاتھ سے پوسٹر لے کر پھاڑ دیے گئے ، جس میں اُس نے خواتین پر تنقید کی تھی۔اس معاملے کو سوشل میڈیا پر اور وہاں موجود میڈیا نے ڈسکس کیا۔

دوسری حیرت یہ ہوئی کہ ایک اور پاکستانی خاتون کی تصویر کو نیتن یاہو کے ساتھ موازنہ کرکے برابر قرار دیا اور matchبھی قرار دیا۔ اِس خاتون کا قصور صرف یہ ہے کہ یہ بھی اِن کے پول کھولتی ہے۔ جیسے ہم اِس گروہ کی جعلی حقیقت کو بیان کرتے ہیں ویسا کام یہ خاتون بھی کرتی ہے ۔ تو اصل نیتن یاہو تو یہ خود ہیں جو یہودیوں کی طرح جعلی حقوق کے نعرے لگا رہے ہیں۔نیتن یاہو بھی تو مقدس زمین پر اپنے جعلی حق کا دعویٰ کرتا ہے ۔

ویسا ہی یہ عورت مارچ والے نامعلوم حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جبکہ وہ خاتون تو اُن کے جعلی حقوق کا پول کھولتی ہے اور دُنیا کو اِس دہشت گرد گرو ہ کی حقیقت بتاتی ہے۔اچھا یہ پہلی خاتون اتفاق سے اُن کے ہی قبیلے سے نکلی ہے۔ یہ خاتون پاکستان کے شوبز شعبے کی ایک معروف اداکارہ کے دائرے میں آتی ہے ۔ اُس خاتون کی آواز کی رسائی براہ راست ’’ایلیٹ‘‘ کے دائرے میں آتی ہے ،جہاں یہ عورت مارچ وا لے اپنا منجن بیچنے آتے ہیں۔

دوسری ایک اور تصویر نظرآئی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ بھی کوئی مذہبی خاتون نہیں ہے کہ آپ اس کو مولوی کہہ دیں ۔ یہ بھی ایک تعلیم یافتہ عقل و شعور رکھنے والی خاتون ہے جو اتفاق سے شو بزنس کے فیشن کے شعبے سے وابستہ بڑا نام بھی ہے۔ بس یہ وہ خاتون ہے جس نے ’’ٹرانس جینڈر‘‘ معاملے میں پہلا بڑا پتھر مارا تھا۔ اِس خاتون کے مسلسل بات کرنے سے ، اس کی آواز سے جس طبقے میں ہلچل مچتی ہے وہ ان کو تکلیف دیتی ہے ۔ اس لیے کہ وہاں سے اُن کی دال روٹی متاثر ہوتی ہے۔ تو عورت مارچ والوں نے اس کو عورت کے دائرے سے نکال کر براہ راست کردار کشی کا نشانہ بنا لیا۔

بس یہی ہے اس عورت مارچ کی حقیقت ، عورت کے نام پر عورتوں کا استحصال، جس پست درجے میں یہ گر رہے ہیں ، عوام دیکھ رہی ہے۔اتفاق دیکھیں کہ یہ تینوں خواتین شوبز کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں ۔اس لیے یہ صرف 3-4پوسٹروں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ خود کو ایکسپوز کرنے کا معاملہ ہے، یہ سب اُن کی مکروہ سوچ کا عکاس ہے،یہ بات ہم بار بار بتا رہےہیں۔خُدارا۔ اپنی اولادوں کو ، اپنی بچیوں کو ، ان دہشت گرد نعروں کا شکار نہ ہونے دیں۔ آپ کے خالق نے حقوق صرف رشتوں کے رکھے ہیں، جنس کے صرف اور صرف احکام ہوتےہیں۔

ان کے نعروں، بیانیوں میں ’’رشتوں‘‘ کی تقدیس، رشتوں کے وجود اور رشتوں سے آزادی کا پورا غلیظ بیانیہ شامل ہوتا ہے۔ یہ خالص مغربی فکر ہے کہ ’’آزادی‘‘ کے نام پر اپنے آپ کو تمام رشتوں باپ، ماں، بھائی، بہن، بیٹی، پوتی، نواسی، بھانجی، خالہ، ماموں، چچا، تایا ، دادا، دادی سمیت سب سے کاٹ کر ایک الگ سے صرف ’’عورت‘‘ سمجھا جائے ۔ ایسی عورت تو صرف ’’جنس‘‘ ہی ہوتی ہے ، اس کا کوئی تاریخی ، واقعاتی وجود نہیں۔ دنیا کا ہر انسان ’’رشتوں‘‘کے درمیان پیدا ہوتا ہے ، وہی نبھانے میں اُس کا امتحان ہے۔ بس یہ مت بھولیے گا۔باقی ماریہ بی ہوں یا مشی خان صاحبہ ،اُن کے خلاف ایسے پرسنل اٹیک اور اس ابلاغی ہیراسمنٹ پر عورت مارچ کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت بھی کارروائی ہونی چاہیے۔