ہوم << تین یمنی بھائی (2)- ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

تین یمنی بھائی (2)- ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

مکہ اُن دنوں عرب کا ہی نہیں دنیا بھر کے لوگوں کا روحانی اور تجارتی مرکز تھا ۔حج کے چار مہینوں میں مختلف قوموں،نسلوں،مذہبوں ، معاشرتوں سے تعلق رکھنے اور طرح طرح کی بولیاں بولنے والے ،بے شمار قافلے یہاں پہنچتے ، اپنے اپنے علاقائی تجارتی سامان کے ساتھ۔

یہ چار مہینے صدیوں کی روایات کے مطابق امن و حُرمت کے مہینے تھے۔اس دوران نہ تو یہاں دنگا فساد ہوتا،نہ تلوار نیام سے باہر آتی،نہ خون بہتا،نہ دشمنی نبھائی جاتی، کوئی قافلہ لٹتا،نہ کسی کی عزت و حرمت تاراج ہوتی۔یہ لوگ اپنے اپنے تصور عبادت و مظاہر عقیدت کے مطابق کعبہ کا طواف کرتے،تالیاں پیٹتے،سیٹیاں بجاتے،اس کی دیواروں پر جانوروں کے خون لتھیڑتے،اس کے اندر رکھے تین سو ساٹھ بتوں پر نذرانے چڑھاتے اور چڑھاوے پیش کرتے،بے جان اور بے اختیار،بے حس و حرکت اور بے قدرت ،بے شکل و صورت، خود ساختہ بد نما اور بے حیثیت مورتیوں سے، جو خود اپنی حفاظت پر بھی قادر نہ تھے،مدد،نصرت،برکت اور خیر و فلاح طلب کرکے خود فریبی کا شکار ہوکر مطمئن و مسرور ہوجاتے۔

اہل عرب وعجم جو سردیوں ،گرمیوں سے بے نیاز سواریوں پر یا پیدل روئے زمین کے ہر کونے سے مکہ کی جانب سفر کرتے ،انہیں حکم تھا کہ" فلیَعبُدُوا ربّ ھذا البَیت۔۔۔.اس گھر کے کونوں کھدروں میں رکھے گئے بتوں کی نہیں،اس گھر کے مالک ،کائنات کے مقتدر اور انسانوں کی سانسوں،زندگیوں،قسمتوں اور خیر و شر کے ہر پہلو پر مقتدر رب کی ہی عبادت کریں۔

ہاں۔ یہ وہی ان دیکھا ،مگر غالب و حاوی اور جلی و خفی رب ہے،جس نے ابراہیم و اسماعیل کو اس وادیٔ غیر ذی ذرع میں پہنچ کر اس گھر کی تعمیر کا حکم دیا، ہاں ۔وہی رب جس نے ابرھہ کے مضبوط و قوی لشکر کو ابابیلوں سے یوں لقمۂ اجل اور نشان عبرت بنوا دیا کہ وہ کھائے ہوئے بُھوسے کی صورت ہوگئے۔۔فجَعَلھم۔کَعَصفِِ مَأکُول۔۔ ہاں ۔وہی رب جس کے حوالے کرکے ابرھہ کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس گھر کے نسلی خاندانی متولّی عبد المطلب اپنی بھیڑوں کو بچالےگئے۔

ہاں ۔وہی رب۔۔جو اپنی تلوار اور قوت بازو پر فخر کرنے اور خاندانی غیرت و حمیت پر قربان ہوجانے والے نخوت و تکبر اور نسلی تفاخر کے دعوے دار عربوں کو بھوک ،فقر اور ننگ سے نجات دیتا اور بے شمار خوفوں سے بچاتا تھا۔۔الذی اَطعَمَھُم من جُوعِِ و آمَنَھم مِن خَوف۔ مگر۔۔۔وہ تو شرک و جہل کی ظلمت کی آخری سیڑھی پر کھڑے تھے اور زبان حال سے ابراہیم ع کی دعا کی قبولیت کی گھڑی اور روشنی کے تارے کے چمکنے اور ظلمت چَھٹنے کے منتظر تھے۔

تقدس و حرمت کے ان چار مہینوں کے باقی دن واردانِ مکہ اس کے گرد و پیش سجے اور لگے بازاروں، منڈیوں عکاظ اور ذوالمجنہ وغیرہ میں تجارت کرتے،اپنا سامان فروخت کرتے،دوسروں کا سامان خریدتے ۔جب یہ خرید و فروخت مکمل ہوجاتی،تو اپنی دوکان بڑھا لیتے۔اور مال و اسباب کی حقیقی گٹھڑیاں اور روحانیت کی فرضی پوٹلیاں لیئے اپنے اپنے علاقوں کو روانہ ہوجاتے۔

ایسا ہی ایک میلہ یہیں کہیں کسی کُھلے میدان میں لگتا اور سجتا،یہاں ایک سرخ چمڑے کا بڑا وسیع و عریض خیمہ نصب کیا جاتا،اس میں فرش پر اونٹ کے چمڑے اور بالوں سے بنا ہوا قالین بچھتا،اور ایک اسٹیج لگتا۔یہاں ترجیحاّ سارے عرب کے نامی گرامی اور بڑے بڑے شعراء ،ان کے راوی اور حامی اور شعر و سخن کے دلدادہ جمع ہوتے۔ یہاں نہ عبادت ہوتی،نہ بیوپار،نہ مذہبی رسومات ادا ہوتیں،نہ معاشرتی رواج و رسم نبھائے جاتے۔ یہاں سالانہ مقابلۂ شعر و سخن برپا ہوتا۔عرب کے ہر قبیلے کا ہر چھوٹا بڑا شاعر یہاں موجود ہوتا،پورے سال بھر میں نظم،نقد،جرح اور تغیّر و تبدّل کی فنّی چھلنیوں سے گزر کر وجود میں آنے والا قصیدہ پیش کرتا،داد وصول کرتا یا فنّی معایب سے آگاہ ہوتا۔

سیکڑوں قصائد میں سے سب سے بہترین قصیدہ اس سال کا" مُعَلّقہ" قرار پاتا اور روایت و دستور کے مطابق سِتار الکعبہ۔۔یعنی کعبۃ اللہ کی دیوار پر اگلے سال تک کے لیئے مسلسل لٹکا دیا جاتا۔ ایسے سات انتہائی معتبر بلند پایہ قصائد۔۔المُعَلّقاتُ السَبع۔۔کے نام سے عربی ادب کے سب سے بلند پایہ قصائد شمار کیئے جاتے ہیں۔ اِن دنوں مکہ۔۔"بَکّہ "کہلاتا تھا۔آج جیسی رونق،شان و شوکت،انواع واقسام کی نعمت،دنیا کی ہر سہولت ،دولت کی ریل پیل اور رزق کی فراوانی اور نظم و نسق کی بے مثل تشکیل و ترتیب تو نہ تھی،البتہ اپنے سیاہ اور چٹیل پہاڑوں کے باوجود یہ شہر دنیا کا مرکز اور برکت ویُمن کا عجیب مسحورکن محور و مرکز اور ھدایت و راہنمائی کا منبع ضرور تھا۔

مُبارَکاً و ھُدیً لِلعَالَمِین ۔

اس لیئے کہ یہاں خدائے بزرگ و برتر کی بے شمار نشانیاں تھیں اہل نظر کے لیئے۔۔فیہ آیاتُُ بَیّناتُُ۔ یہاں ۔انسانیت کے روحانی جدّ امجد اور پیشوا جناب ابراہیم علیہ السلام کے مبارک قدموں کے نشان تھے۔۔مَقامُ ابراہیم۔۔

یہاں۔ ممتا کی محبت اور قربانی کے نشان صفا و مروہ تھے۔
یہاں۔ اللہ کی رحمت اور تاابد معجزہ ۔۔زمزم ۔۔تھا۔
یہاں۔ ذبیح اللہ اسماعیل ع کی قربان گاہ کا نشان تھا۔
یہیں۔ حرا۔ تھا، جہاں سے آخری اور دائمی نُور پُھوٹنا تھا۔
یہیں ۔مِنیٰ۔۔ تھا،جسے حشر نشر کا میدان بننا تھا۔
یہی۔۔مکہ تھا ۔۔جسے قیامت تک ابراہیم ع کی دعاؤں کی قبولیت کا نشان بننا تھا۔۔رب اجعل ھذا البلدَ آمِناً،وارزق أھلہُہ من الثمرات۔اور یہی ۔۔مکہ۔۔ تا ابد ھدایت و سلامتی اور خیر و صلاح و فلاح کا مرکز قرار پانا تھا۔

یمن سے نکلے،دَر دَر کی خاک چھانتے ،سفر کی صعوبتیں سہتے اور بھائی کی تلاش میں ناکامی کے صدمے سے نڈھال یہ تینوں مسافر بھائی ایک کُھلے میدان میں موجود کعبۃ اللہ کے روکھے پھیکے،سنگلاخ آنگن میں آبیٹھے۔دُور قریب کہیں اپنے جانور باندھے اور بھوک،افلاس،اور تھکاوٹ و اضمحلال کے ساتھ انجان اور ناواقفیت کے ماحول میں کعبۃ اللہ کے دامن کی ریت اور سنگریزوں پر ایک جانب دُبک کر بیٹھ گئے۔

یہاں کا معمول تھا کہ مسافر و غریب الدیار زبان قال سے نہ کچھ کہتے،نہ دست سوال دراز کرتے،نہ مسافرت کی داستان سناتے،نہ کسی سے کچھ طلب کرتے۔ البتہ مکہ کے ،فیاض اور مہمان نواز،خدا ترس اور زائرینِ کعبہ کی خدمت کو اپنا فرض اور باعثِ فخر و عظمت سمجھنے والوں میں سے کوئی سردار ادھر آنکلتا تو زبان حال پڑھ لیتا اور اِن پردیسیوں کا ہاتھ تھامتا،ان کے کھانے اور رہنے کا انتظام کرتا اور جانوروں کی دیکھ بھال اپنے غلاموں کے ذمے لگاتا۔

ان تینوں بھائیوں کے نصیب اچھے تھے کہ مکہ کے ایک انتہائی معزز،مہربان و ہمدرد اور متحمل مزاج شخص،قبیلہ بنو مخزوم کے بزرگ سردار ابو حُذیفہ مخزومی کی نظر ان پر پڑگئی۔وہ ان کی حالت زار سے سب کچھ سمجھ گئے اور ان بے آسروں کو اپنا سہارا اور سایۂ عاطفت پیش کردیا۔مسافر اسی کے منتظر تھے۔ طویل مشقتِ سفر کے بعد محبت و سکون کا یہ پہلا جھونکا تھا،جو ابو حذیفہ کی صورت انہیں مکہ کی پُرامن سرزمین پر میسر آیا تھا۔۔

ابو حذیفہ انہیں اپنے گھر لے گئے اور مہمانوں کو وہ سب کچھ فراہم کیا،جس کی انہیں ضرورت تھی اور جو میزبان کی عالی ظرفی اور خاندانی شرافت و نجابت کا تقاضا اور عالی نسب سرداروں کے شایان شان تھا۔مہمان خانے میں بہترین نرم و گرم بستر،عمدہ اور پرتکلف کھانا،طویل تھکاوٹ دور کرنے کے ممکنہ اسباب،بے تکلف اور ھمدرد ماحول ،سب کچھ میسر تھا۔ ابو حذیفہ خود وقتاً فوقتاً مہمانوں کے پاس آ بیٹھتے، ان کے دکھ درد بانٹتے، ان سے سفر کی روداد سنتے،بھائی کی گمشدگی کے غم کو ہلکا کرتے ،ماں باپ کی جدائی کے دکھ کو سمیٹتے۔۔۔اور تہامۂ یمن کے قصے،واقعات،حالات،رسوم و رواج جانتے کہ علم و آگہی کا یہی ذریعہ مروج تھا ۔اور مہمانوں کی دلداری کا یہی راستہ۔

پردیسیوں کے پھٹے دلوں کو مرہم ملا،تو راحت جسم و جاں کا بہت ساماں ہوا۔زخم مندمل ہونے لگے،امید کی شمع روشن اور زندگی کی مسکراہٹیں محسوس ہونے لگیں۔ابوحذیفہ کی مہمان نوازی نے بھی کام دکھایا اور اس غریب الدیار سیاہ فام لونڈی کی ہمہ وقت اور بے لوث خدمت گزاری نے بھی اپنا جادو چلایا ،جسے جناب ابو حذیفہ نے ان کی خدمت کے لیئے مقرر کر دیا تھا۔

یہ نوجوان لونڈی نجانے کیسے اپنے پیاروں سے بچھڑی،اپنے گھر سے بے گھر ہوئی،کسی جنگ کا لقمہ بنی یا کسی غارتگر حملے میں قیدی،غلام بنی اور بازار غلاماں میں بکی،اور ابوحذیفہ کی ملکیت و غلامی میں آئی۔کسی کو نہیں خبر ۔یہ کیا ایسے بے شمار غلام تھے مکہ ہی میں نہیں ،سارے عرب میں ۔ غلام کی بھی کیا زندگی تھی۔ جاہلیت کے اس عہد میں۔۔۔!

( نابینا مصری ادیب،دانشور،نقاد اور ناول نگار اور دوہری پی ایچ ڈی کے حامل بیسیوں متنوع کتب کے مصنف ڈاکٹر طٰٰہ حسین کے عربی ناول "الوعد الحق" سے مأخوذ)
(جاری ہے)

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment