آپ نے سنا ہوگا کہ ’’نیم ملا‘‘ ایمان کے لیے خطرہ ہوتے ہیں، فیس بک پر اس طرح کے ’’نیم ملا‘‘ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ خود پسندی کے مرض میں مبتلا یہ حضرات ایمان کے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں، ان سے بچ کر رہنا چاہیے۔ زیادہ لائکس، کمنٹس اور بظاہر دلکش باتوں اور پوسٹس پر نہ جائیے کہ ان کے نزدیک یہی سب کچھ ہے. آئے روز دین اور اہل دین کے خلاف توپوں کا رخ کرکے سیکولرز اور اسلام دشمن لوگوں کی ’’واہ واہ‘‘ وصول کرکے خوش ہوتے ہیں۔ انھیں شاید یاد نہیں کہ روز محشر یہ لائکس اور واہ واہ کے کمنٹس کچھ کام نہیں آئیں گے۔ وہاں اعمال پیش ہوں گے اور انھی کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا. پروفائل تصویر سے ملا لگنے والوں سے اگر سوال کیا جائے کہ فیس بک سے ہٹ کر عملی زندگی میں آپ کی اسلام کے لیے کیا اور کون سی خدمات ہیں؟ تو شاید ندامت کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہ ہو۔
’’نیم ملا‘‘ حضرات اپنے ٹھرکیانہ مزاج کی وجہ سےخواتین کی آئی ڈیز پر جا کر انباکس میں انھیں ’’قابو‘‘ کرنے جبکہ عمر رسیدہ خواتین کو آنٹی اور امی کہہ کر دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں. (ایک محترمہ نے مجھے کچھ کے سکرین شارٹس بھیجے) خاتون سے بات کرتے وقت یہ پردہ اور نامحرم سے بلاضرورت بات کی ممانعت والے احکامات بھول جاتے ہیں۔خود پسند اتنے کہ اپنے ہر عمل کی تصویر بنا کر خود نمائی کرنے کے لیے ’’تصویر حرام‘‘ والے احکامات بھول جاتے ہیں۔ پریسما کو دجال سے تشبیح دے کر حرام قرار دے رہے ہیں جبکہ خود سیلفیاں سجانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے. خود کو کسی بڑے عالم اور بڑے مدرسے سے جوڑنےکی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ عالم ان سے کوئی تعلق رکھتا ہے نہ ان کے قول و فعل سے باخبر ہوتا ہے۔ دانشور بننے کے شوق میں ہر دینی مسئلے اور نازک ایشو پر لکھتے ہیں اور ظاہر ایسے کرتے ہیں جیسے دنیا کا ہر علم ان کی جیب میں ہے. صورت حال اگرچہ اس کے برعکس ہوتی ہے. ساری دانشوری اور دولت موبائل، انٹرنیٹ پیکج اور وکی پیڈیا تک محدود ہوتی ہے۔ اگر موبائل لے لیا جائے ساری ہوا نکل جائے. خود پسند کے مرض میں مبتلا خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس اندھیرے میں دھکیلتے ہیں. ضروری ہے کہ ’’نیم ملائوں‘‘ سے اپنے آپ کو بچا کر رکھا جائے.
تبصرہ لکھیے