ہوم << دلہن کورس؛ ایک خواب، ایک حقیقت! نیر تاباں

دلہن کورس؛ ایک خواب، ایک حقیقت! نیر تاباں

میرے خواب رنگ برنگ پتنگوں کی طرح نیلے آسمان میں اڑتے پھرتے تھے۔ انھی میں سے ایک پتنگ سے ڈور باندھ کر فرح نے ایک دن میرے ہاتھ میں تھمانا چاہا تھا۔
“لڑکی بالیوں کے لئے کوئی کورس ہونا چاہیے۔ شادی سے وابستہ ساری الجھنیں جس میں سلجھانے کے طریقے ہوں۔ آپ کیجیے نیر۔”
پتنگ بہت پیاری سہی، لیکن ہاتھ کٹ نہ جائے کہیں۔۔
مجھ سے ڈور تھامی نہ گئی تھی۔
نظر بھر کر اس خوش رنگ پتنگ کو میں نے کئی بار دیکھا، سراہا۔ پھر ایک دن جھجکتے ہوئے وہ ڈور ہاتھ میں تھامی۔ پتنگ کی اڑان کیسی خوبصورت تھی اس روز۔
بس وہی ابتدا تھی!
اب جو ڈور تھام ہی لی تو پھر پتنگ کی اڑان کا لطف بھی آنے لگا۔

دلہن کورس کا چوتھا بیچ تھا۔
میں سال ڈیڑھ سال بعد ایک بار کروایا کرتی ہوں۔تعداد وہی اسی پچاسی۔
شادیوں کے مہینے شروع ہوئے تو کئی لوگوں نے کورس کی بابت پوچھا۔ ہم نے پچھلی ریکارڈنگ حوالے کر دی۔ پھر فرح سے ان کی کسی سہیلی نے پوچھا۔ فرح کا پیغام مجھ تک، اور لمحوں میں کورس کروانے کا فیصلہ۔ فل ٹائم جاب کے ساتھ مشکل تھا، لیکن اللہ نے کروا دیا۔ کچھ بہت خاص احباب بطور مہمانان گرامی بھی آئے اور زندگی کے اہم اسباق ہمارے حوالے کیے۔
کورس شروع کرتے وقت وہی اسی پچاسی کی تعداد کا خیال تھا۔ میری مطلوبہ تعداد مکمل ہو چکی تھی، فیس بک سے تمام پوسٹس ہٹا دیں، لیکن کہیں نہ کہیں سے فیس آ جاتی۔ میری انگزائٹی بڑھ رہی تھی کہ انرولمنٹ کا سلسلہ کیسے روکوں۔ بالآخر گہری سانس لے کر زووم کا تین سو شرکا والا ورژن لے لیا اور فیس سے اپنا محور ہٹا دیا۔ کہا کہ اب جسے آنا ہے، آ جائے۔ کتنی فیس، کچھ کم؟ کتنی کم؟ کیا اقساط؟ کیا وہ بھی نہیں؟
بہت لوگوں سے بہت بات ہوئی۔
نو گھنٹے لگاتار فون پر یہ سوال جواب کرتے گزر گئے۔
اور پھر ایک ایک کر کے لڑکیاں آتی چلی گئیں، رنگ بھرتے چلے گئے۔ بھاگ لگ گئے جب نیت ری-سینٹر کی۔

اتنی ڈھیر لڑکیاں جب انرول ہوئیں تو اپنی ہی فیس بک فرینڈز کو وہاں پہلے سے دیکھ کر ان کی دبی دبی مسکراہٹ کی باچھیں کھل گئیں۔ وہیں یہ بھی ہوا کہ نئے انجان لوگ سمٹ گئے کہ ہم ان سہیلیوں میں کیسے اپنی جگہ بنائیں۔ میرے لئے بھی یوں تھا کہ ان میں سے اکثر مجھے جانتے تھے، لیکن میں انہیں نہیں جانتی تھیں۔
یہاں سے سلسلسہ شروع ہوا ایک بڑے گروپ کو کئی چھوٹے گروپس میں بانٹنے کا۔ انہی میں سے لڑکیاں اپنے لئے ٹیم لیڈر چنتی گئیں۔ خدیجہ محسن کی بہت مدد لگاتار رہی۔ پندرہ بیس کا گروپ بنا کر میرے ساتھ ون آن ون میٹنگز ہوئیں۔ ڈھیروں گھنٹے ان ملاقاتوں کی نذر ہوئے لیکن آج جب ہم کورس کا اختتام کر رہے ہیں، میرے ذہن میں کتنے ہی روشن چہرے اپنی کہانی سمیت نقش ہیں۔ وہ یک طرفہ محبت اب دو طرفہ تعلق ہے، جس پر مجھے بہت مان ہے۔
میں نے کبھی اتنی بڑی تعداد کو ایک وقت میں نہیں پڑھایا۔ بہت نروس تھی۔ اور پھر امی کے حوالے دعا کا ڈیپارٹمنٹ رہا۔ خود بھرپور کوشش۔ فرح کے ساتھ کتنے کتنے لمبے وائس نوٹس ہوئے۔
“فرح، اب کی بار یہ والا ٹاپک ہے۔”
اس کے بعد بیک اینڈ فورتھ میسجز۔ میں سلائڈز بناتے وقت ہماری چیٹ کھول رکھتی کہ کچھ نکات وہیں محفوظ تھے۔

اس بار میری کئی حالیہ ٹریننگز کا نچوڑ بھی کورس میں شامل تھا۔ پچھلے سال کی سلائڈز نکالتی تو کتنی ساری کاٹ چھانٹ کرنی پڑتی۔ وہ جو اس وقت بہترین سمجھ کر کروایا تھا، اب اس میں کمی بیشی محسوس ہوتی تھی۔ یہی گروتھ ہے! ابھی بھی لگتا ہے اچھا کام کر لیا لیکن اب سے کچھ برس بعد اس میں کمی محسوس ہو گی، تبھی نکھار لا پائیں گے ان شا اللہ۔ اس وقت میں فقط اتنا جانتی ہوں کہ
I gave my best!
میں یہ امید نہیں رکھتی کہ ایک کثیر تعداد سو فیصد یہاں سے مطمئن ہو اور کسی قسم کی کوئی کمی نہ پائے، لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ زیادہ تر لڑکیوں کے دل کا زیادہ تر حصہ مطمئن ہے۔
خواب کی خوش رنگ پتنگ آسمان پر لہراتی پھرتی ہے۔ یہی دلہن کورس کی کامیابی ہے۔
الحمد للہ کثیرا ❤️

Comments

نیر تاباں

نیر تاباں کینیڈا میں مقیم ہیں۔ شعبہ تعلیم سے تعلق ہے۔ کہانی کار اور صداکار ہیں۔ منفرد طرز تحریر ان کی پہچان ہے۔ بچوں کی متعدد کتابوں کا انگریزی ترجمہ کرچکی ہیں۔ ننھے بچوں سے لے کر خواتین تک کی تربیت سے متعلق بھی کوشاں رہتی ہیں۔ ورکشاپس اور کورسز ڈیزائن کیے ہیں، سبھی کے لیے الگ کلاسز ہوتی ہیں۔ ماحول دوست ہیں اور اس حوالے سے آگاہی پھیلاتی ہیں۔

Click here to post a comment