5 فروری کو پورے ملکمیں یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا. اس کے لیے سرکاری چھٹی بھی کی گئی۔ اس کی وجہ یقینا یہ تھی کہ ہم پوری قوم کو یہ بتا سکیں کہ ہم کشمیر کاز( مقصد کشمیر) پر آج بھی کھڑے ہیں اور ہمیشہ کھڑے رہیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ آدھے سے زیادہ پاکستان سارا دن سویا رہا اور جو آدھے جاگ رہے تھے، وہ بھی کشمیر کی موجودہ صورتحال اور قانونی پوزیشن سے اتنے ہی ناواقف تھے، جتنے حکمران عوامی مسائل سے اور عوام خود اپنے حقیقی حقوق سے ہے۔
ملک میں قومی دن یعنی 14 اگست کو بھی اسکول کالج اور اہم سرکاری اداروں کو صبح کھولا جاتا ہے اور تقریبات منعقد کرکے آزادی کے دن کو منانے کے ساتھ ساتھ عہدو پیمان کو دوہرایا جاتا ہے۔ مگر افسوس کشمیر ڈے پر کسی قسم کی تقریبات منعقد کرکے عوام کو یاد دہانی نہیں کروائی جاتی کہ آخر کیوں ہم کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بات کرتے ہیں۔
ہم آخر کیوں نہیں اپنے لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کشمیر کی آزادی صرف کشمیریوں کے لئے نہیں بلکہ ہم پاکستانیوں کے لئے ضروری ہے۔ ہماری لائف لائن (شہ رگ) کشمیر سے جوڑی ہے۔ ہمارے دریاؤں کے سوتے کشمیر کی پہاڑیوں سے پھوٹتے ہیں۔ کشمیر کی ہوا ہو یا راستہ، ندی ہو یا پانی کا ریلا ، بارش ہو یا خشک ہوا ان سب کا رخ صرف پاکستان کی طرف ہوتا ہے گویا وہ پاکستان کے لئے ہی کشمیر سے چلتی ہیں۔ کشمیر پورا کا پورا پاکستان کی طرف رخ رخسار لیے کھڑا ہے مگر انڈیا کی طرح ہم پاکستانی بھی اپنی سمجھ بوجھ کھو چکے ہیں۔ انڈیا کی تو چلو یہ چالاکی ہے مگر ہم کس چکر میں اپنے قدرتی عطیہ کو لوٹانے میں لگے ہیں۔ غافل اتنے ہیں کہ اپنے بچوں کو دنیا جہاں کی باتیں بتاتے ہیں مگر کبھی کشمیر پے ایک لفظ نہیں کہتے۔
ہم کیوں نہیں بتاتے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت مہاراجہ کے زمانے سے قائم تھی، جس کی رو سے وادی کے باشندوں کی اپنی علیحدہ شناخت تھی، الگ جھنڈا، قومیت اور اپنا آئین تھا۔ غیر کشمیریوں کو وادی میں غیر منقولہ جائیداد خریدنے، آزادانہ سرمایہ کاری کرنے، سرکاری نوکری لینے کا حق نہیں تھا۔
مہاراجہ کے ساتھ خود ساختہ الحاق (جس میں شہریوں کی مرضی شامل نہیں تھی) میں یہ شرائط تسلیم کرنے والے انڈیا نے سالوں بعد اس خصوصی حیثیت کو چھڑا ہے اور ختم کرکے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ تاکہ کشمیریوں کو ان کے وطن میں ہی بے وطن کیا جاسکے۔ ان پر اپنا مطلق قانون نافذ ہوسکے۔ ان کی جائیدادیں خریدی اور آگے فروخت در فروخت کی جا سکیں۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کو کمزور کیا جاسکے۔ ہوا کا رخ موڑا جا سکے، پانی پے بند باندھا جاسکے، کشمیر کے دل سے لفظ پاکستان کاٹا جاسکے۔
انڈیا کی اس جرات(کشمیر کے متعلق انڈین آئین میں قانون سازی) کو کسی بھی عالمی سطح پر چیلنج نہیں کیا گیا۔ حالانکہ کشمیر کے حق خودارادیت کو خود عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ کشمیر ایک مقبوضہ خطہ ہے، اس کے حوالے سے کسی بھی متنازع فیصلے کو عالمی برادری کیسے تسلیم کرسکتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو آخر کب ان سوال و جواب کے لئے تیار کریں گے، آخر ہم لفظ کشمیر بولتے کیوں نہیں۔
تبصرہ لکھیے