شام میں قابض بشاری فوج اور اس کےحواری معصوم شہریوں پر بمباری جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب نیپام بموں اور کیمیائی ہتھیاروں کا کھلا استعمال کیاجا رہا ہے۔ ہزاروں بموں نے زندگی ختم کر دی ہے۔ ہجرت اور شہادتوں کاسلسلہ جاری ہے۔ اور مزاحمت بھی زور پکڑ رہی ہے۔
مزاحمت کے باب میں ایک نیا اضافہ شامی بچے ہیں۔ یہ بچے شہروں سے ٹائر جمع کر کے انھیں جلاتے ہیں، ان کاخیال ہے کہ اس طرح وہ اپنےگھروں کو دشمن کی بمباری کی زد میں آنے سے بچا رہے ہیں۔ وہ کیسے؟ یہ ایک دل چسپ بات ہے۔ بچوں کا دعوی ہے کہ ٹائر جلنے سے فضا میں اٹھنے والے دھویں کی وجہ سے دھویں کی ایک چادر سی تن جاتی ہے جو بمباری کرنے والے جہازوں اور ہدف کے درمیان حائل ہو جاتی ہے، یوں بمباری کرنے والے جہاز ’’گمراہ‘‘ ہو جاتے ہیں۔ بچوں کا یہ نظریہ درست ہے یا نہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہاں ٹائر ہوں گے کتنے؟ اور جب یہ ٹائر ختم ہوں گے تب بچے کیا کریں گے؟
بظاہر تو اس سوال کا سادہ اور سیدھا جواب ہے کہ یہ بات سوچنا اور اس سوال کا جواب ڈھونڈنا مزاحمت کرنے والے تلاش کریں یا ٹائر جلانے والے بچے. یہی ناں! جی ہاں! یہی جواب ہے مگر اس جواب اور اس سوچ نے دنیا کو تباہی کے دھانے تک پہنچا دیا ہے. ہم سوال کے ایک رخ اور معاملے کی ایک سمت کو ہی دیکھتے ہیں مگر کیا اس سوال کا ایک جواب یہ نہیں کہ جب ٹائرختم ہوں گے اور بچے بچ جائیں گے تو بچنے والے بچے کسی داعش جیسےگروہ کے ہتھے چڑھ جائیں گے، اور اگلا حملہ ٹائر سے نہیں، اپنی ننھی منی سی جان کے ذریعے کر رہے ہوں گے، خودکش بمبار بن کر۔ اور ایسے بچے جن سےگھر بار اور ماں باپ سمیت سب کچھ چھن گیا ہو، اس کے پاس یہ سوچنے کے لیے وقت کہاں سے آئے گا کہ اُسے کہاں اور کیوں جا کر پھٹنے کا حکم ملا ہے؟ اور اس کا ہدف کون ہے؟
جان لیجیے کہ جب تک دنیا صرف خودکش حملوں کی مذمت ہی پر زور دیتی رہی اور ٹائرانہ مزاحمت کو اہمیت دے کر ان بچوں کو بچانے کےلیے کچھ نہیں کیا تو ٹائروں سے کھیلنے والے کو بارودی لباس پہننے سے مذمتی بیان نہیں روک سکیں گے.
تبصرہ لکھیے