گزشتہ ماہ ناکام بغاوت کے بعد ترک اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین اور وہاں کے دانشوروں کے تجزیوں اور خیالات پر اگر کوئی نظر ڈالے تو محسوس ہوگا کہ ترک صدر کے اقدامات کے صد فی صد درست یا غلط ہونے کے بارے میں تو آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا مگر فی الوقت ان پر دو آرا ضرور پائی جاتی ہیں۔ خلافت عثمانیہ کی تحلیل کے بعد سے اب تک ترک قوم کئی تجربات سے گزر چکی ہے اور ایک بات طے ہے کہ اب ترک عوام جمہوریت کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور اپنے منتخب نمائندوں اور لیڈرشپ کی پامالی، بے حرمتی اور تذلیل بلکل برداشت نہیں کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ناکام بغاوت کے بعد نہ صرف زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ تمام کی تمام اپوزیشن بھی، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر، غیر مشروط طور پر اردگان کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے ارکان نے ایک دوسرے کی ریلیوں میں شرکت کی، ایک ایسی فضا میں جہاں صرف ترک پرچم تھے اور کوئی پارٹی اپنا جھنڈا نہیں لائی تھی۔
ان تمام تر خوش کن خبروں کے باوجود کچھ باتیں ایسی ضرور ہیں جن پر نہ صرف اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈرز کو تحفظات ہیں بلکہ وہاں کا دانشور طبقہ بھی متفکر دکھائی دیتا ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ نے کھل کر اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اگر گولن نیٹ ورک اتنے وسیع پیمانہ پر بغاوت کی تیاری کر رہا تھا تو حکومت نے کیوں اس سے صرف نظر کیے رکھا اور کیوں نہ بروقت کارروائی کی؟ اپنی اس کوتاہی کو صدر طیب اردگان نے تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ واقعی اس ضمن میں ان سے بڑی بھول ہوچکی۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی باتوں پر وہاں کی اپوزیشن اور میڈیا میں بحث جاری ہے۔
ذیل میں ان پانچ باتوں پر مختصراََ گفتگو کی جاتی ہے جن پر وہاں کے اپوزیشن ارکان اور کالم نگار وں کو تحفظات ہیں:
1۔ جب صدر طیب اردگان نے اپوزیشن لیڈروں سے ملاقاتیں کیں تو کردوں کی نمائندہ جماعت کردش ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کو مدعو نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کی لیڈرشپ سے ملاقات کی گئی، جس پر انہوں نے شدید احتجاج بھی کیا۔ جب اس سلسلہ میں وزیراعظم بن علی یلدرم سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’جب تک ایچ ڈی پی، کرد انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی نمائندہ تنظیم ’کردش ورکرز پارٹی‘ (PKK) کے اقدامات کی غیر مشروط طور مذمت نہیں کرتی، ان سے ہاتھ ملانا ممکن نہیں ہے‘‘۔ حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر، قوم کے ہر طبقہ کو اپنے ساتھ ملا کر قدم بہ قدم آگے بڑھا جاتا۔
2۔ صدر طیب اردگان پر یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ وہ اس ناکام بغاوت کے بعد میسر آنے والی عوامی حمایت کی فضا اور فوج کی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ معترضین
کے بقول، اردگان جب وزیراعظم بنے تھے تو ان کی کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات ان کے پاس آجائیں، مگر اب جب وہ صدر بنے ہیں تو بجائے پارلیمانی سسٹم کے صدارتی نظام کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں لگ گئے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ تمام کے تمام اختیارات صدر، یعنی ان کی ذات میں مرتکز ہوجائیں۔ یہ چیز جمہوری نظام کے لیے کسی طور صحتمندانہ قرار نہیں دی جاسکتی۔ آج اگر وہ خود صدر ہیں تو کل کوئی اور ہوگا۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ افراد کے بجائے، اداروں کو مستحکم کیا جائے اور ان کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے جائیں۔ (یاد رہے کہ ہمارے یہاں بھی ایک آمر نے یہی کیا تھا کہ ایک ہی وقت میں اپنے سر پر تین ٹوپیاں سجائی تھیں اور ہر ٹوپی اتارنے سے قبل، اس سے منسلک اختیارات پہلے ہی اپنے پاس منتقل کرلیے تھے)۔
3۔ یورپی یونین اور امریکہ کے ساتھ اختیار کیے جانے والے رویے نے بھی بہت سے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے. ناکام بغاوت کے بعد اردگان نے جس لب و لہجے میں مغرب اور امریکہ کو مخاطب کیا ہے، اس میں شاید چند جذباتی انسانوں کے جذبات کی تسکین کا سامان تو ہوگا مگر کسی ملک کے نہایت ذمہ دار فرد کی جانب سے اس رویے کو بردباری اور حکمت کے خلاف ہی تصور کیا جائےگا خاص کر اس وقت جب ملک اندرونی طور پر بھی شکست و ریخت کا شکار ہے اور بہت بڑے چیلنجز کےساتھ لڑ رہا ہے۔ یوں، اندرونی محاذوں کے ساتھ بیرونی محاذ کھول لینے سے مشکلات میں کمی کے بجائے کئی گنا اضافے کے امکانات ہیں۔ ناقدین کے بقول آج کے دوور میں عالمی برادری سے الگ ہو کر تنہا پرواز نہ صرف معاشی لحاظ سے ناممکن ہے بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی غیرحقیقت پسندانہ اور نقصان دہ ہے۔ اس چیز کا اندازہ، ان کے روس کے ساتھ گزشتہ دنوں تعلقات کی بحالی سے لگایا جا سکتا ہے جو ترک فضائیہ کی جانب سے روسی جہاز گرائے جانے کے بعد منقطع ہوگئے تھے۔ مگر جلد ہی سب کو اندازہ ہوگیا کہ تنہا پرواز ممکن نہیں لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ تعلقات بحال کردیے جائیں۔
4۔ ناقدین ایک اعتراض یہ بھی کر رہے ہیں کہ بغاوت کے خلاف اقدامات کی آڑ میں فوج کے اندر جس انداز سے اکھاڑ پچھاڑ کی جا رہی ہے وہ بھی فوج کو کمزور کرنے کے مترادف ہے اور اس چیز کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے جو نہ صرف ملک بلکہ فوج کے ادارے کے لیے بھی نقصان دہ ہوں گے۔ فوج ایک ادارہ ہے اور اس کا اپنا ایک نظام ہے جس کے تحت کسی افسر یا سپاہی کی تقرری، تنزلی، برخواستگی یا جزا و سزا کے امور سرانجام دیے جاتے ہیں۔ مگر ناکام بغاوت کے بعد جس انداز میں فوج کے اندر اکھاڑ پچھاڑ کی جا رہی ہے وہ اس ادارے کو نہایت کمزور یا تباہ کر کے رکھ دے گی۔
5۔ معترضین کو ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ بغاوت کے بعدگولن نیٹ ورک کے خلاف جاری آپریشن کا دائرہ بہت زیادہ پھیلا دیا گیا ہے جو کہ ترک معاشرہ کو دو حصوں میں تقسیم کردے گا۔ اس عمل کا نام انہوں نے (De-Gulenise) رکھا ہے۔ یعنی معاشرے کو گولن کے لوگوں سے پاک کرنا۔ یہ بات عقل کو بھی لگتی ہے کہ اگر پرائیوٹ سیکٹر میں نچلی سطح تک گولنسٹوں کو نوکریوں سے فارغ کردیا جائے تو اس سے نہ صرف معاشرہ میں بےچینی پھیلے گی بلکہ ہزاروں یا لاکھوں لوگ اپنے روزگاروں سے محروم ہوجائیں گے اور ان کے خاندان بھی متاثر ہوں گے۔ یہ چیز بالاخر پھر کسی بھونچال اور عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے صفایا صرف ماسٹرمائنڈز کا کیا جائے اور انہی کے خلاف کارروائی کی جائے، باقی افراد کو، پھر چاہے وہ گولن کے افکار سے متاثر ہی کیوں نہ ہوں، دوبارہ معاشرہ کا جزو بناکر ساتھ لے کر چلا جائے کہ اسی میں ملک و معاشرے کا استحکام اور بہتری پنہاں ہے۔
تبصرہ لکھیے