انسان اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہے کہ یہ اس کا بلٹ ان پروگرام ہے، جس سے کسی صورت پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے والا چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم، افسوس اور رحم کے جذبات ہر کسی کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ مجبور اور بے بس چاہے اپنا ہو یا غیر، مدد کرنے کی امنگ ہر انسان کے دل میں اُٹھتی ہے۔گرتے ہوؤں کو تھام لینا بھی اسی فطرت کا اظہار ہے۔ اور پھر اگر معاملہ بچوں کا ہو تو ان ننھے فرشتوں کے لیے تو ہر کسی کا دل پسیج جاتا ہے۔ ان پھولوں کے لیے ہر شخص اپنے اندر رحم اور شفقت کے جذبات محسوس کرتا ہے۔
مگر یاد رہے کہ فطرت کے اس اظہار کے ساتھ ساتھ اسےمسخ کرنے والے عوامل بھی ہمارے اندرونی اور بیرونی ماحول ہی میں موجود ہوتے ہیں۔ جو انسانی فطرت پر غالب آ کر اسے بےحس، لاتعلق اور خود غرض بنادیتے ہیں۔ ان عوامل میں کچھ تو وہ تعصبات ہیں جو میڈیا، ماحول اور تعلیم کے ذریعے ہماری رگوں میں اُنڈیلے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ عصری واقعات کے تسلسل سے بھی جنم لیتے ہیں۔
اگرچہ میرا بچپن لاہور میں گزرا ہے لیکن انٹرمیڈیٹ کا زمانہ کراچی کی ہواؤں میں اُڑتے ہوئے گزرا۔ وہاں عائشہ بھوانی کالج میں پڑھا کرتا تھا۔ کالج جانے کے لیے جس بس سٹاپ سے بیٹھتا تھا، وہاں ایک اخبار فروش نے مختلف اخبار سٹینڈ پر لگا رکھے ہوتے تھے۔ بچپن کی عادت کے ہاتھوں مجبور تھا، اس لیے کھڑے کھڑے اخباروں کی سرخیاں ضرور پڑھا کرتا تھا۔ ایک دن ایک اخبار کی شہ سرخی تھی: ’’شہر میں گیارہ لوگ مارے گئے‘‘۔ میرے ساتھ کھڑے ہوئے صاحب نے پان چباتے ہوئے، بڑے مطمئن لہجے میں فرمایا: ’’ارے بھائی ! آج تو شہر میں بڑا امن رہا۔‘‘ بلاشبہ کسی سیاق و سباق کے بغیر یہ جملہ شقاوت قلبی کا اظہار ہی معلوم ہوگا۔ لیکن پس منظر بتانے سے پہلے ضروری ہے کہ بچپن کی ایک اور انمٹ یاد کا تذکرہ بھی کردیا جائے کہ جو ہمیشہ دل و دماغ کے ساتھ جڑی رہتی ہے اور اس کا آج کے موضوع سے بھی گہرا تعلق ہے۔
یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ شام کے وقت ہم ٹیوشن پڑھنے کے لیے دو گلیاں چھوڑ کر باجی کےگھر جایا کرتے تھے۔ان کےگھر پڑھنے کے لیے نرسری جماعت سے جارہا تھا یعنی تب سے جب سےمیں نے چلنا سیکھا تھا۔ ہمیں آس پاس کی گلیوں اور کھیل کے میدانوں میں آنے جانے کے لیے کچھ خاص خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔ بچے سارا دن گلی محلوں میں بھی کھیلتے رہتے تھے۔ اگرچہ جرائم ضرور تھے لیکن ان کی شدت اتنی لرزہ انگیز نہیں تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قتل ایک ایسا جرم تھا کہ جس کے بارے میں ہم نے بہت کم سنا تھا یا جس کی ہولناکی کا ہمیں اندازہ نہیں تھا۔
پھرایک ایسا واقعہ ہوا جس نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ ٹیوشن سینٹر کے قریب ایک دکان والے نے ایک بچی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا۔ ہم سب بیک وقت خوف زدہ بھی تھے اور اس بچی کے لیے افسردہ بھی۔ مجھے آج بھی وہ منظر اچھی طرح یاد ہے کہ گلی کے نوجوانوں نے اس دکاندار کو پکڑا ہوا تھا اور اسے بری طرح مار رہے تھے۔ پھر سہ پہر کو بچی کا جنازہ تھا، ہر آنکھ اشک بار تھی۔ جنازے میں لوگ ہی لوگ تھے۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے لوگ شرکت کرنے کے لیےآئے تھے۔ ہم بچوں کے لیے یہ سب کچھ نیا تھا، قتل، مارپیٹ، جنازہ اور ہر شخص کا غم زدہ ہونا، ایسا منظر ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے ہر بچے کا ذہن اس نئے واقعے کے اثرات قبول کر رہا تھا۔
جنازے کے بعد ہم سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے لیکن شام ہوتے ہوتے موسم نے بھی تیور بدلنے شروع کر دیے۔ آسمان کا رنگ بالکل لال ہوچکا تھا۔ بڑوں سے سنا تھا کہ جب کوئی قتل ہوجائے تو سرخ آندھی آتی ہے اور یہ سب ہوتا ہوا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ایک معصوم جان کے قتل اور پھر اس کے بعد سرخ آندھی کی آمد نے ہمیں سخت خوفزدہ کردیا تھا۔ ہمیں یقین ہورہا تھا کہ قتل ضرور ایک گھناؤنی شے ہے کہ جس پر قدرت بھی غضنباک ہوتی ہے۔ ہم سب کو زبردستی گھر کے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ جہاں چھوٹی خالہ ہمارے ساتھ تھیں اور ہمیں مسلسل حوصلہ دینے کی کوشش کر رہی تھیں۔ لیکن باہر آندھی کا زور اور چنگھاڑ ایسی تھی کہ جیسے لاکھوں بدروحیں بیک وقت بین ڈال رہی ہوں۔ ہم سب سخت خوفزدہ تھے۔ لیکن ایک دوسرے کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچنے کے لیے، بہادر بنے، خالہ کے کہنے پر جلدی جلدی کلمہ پڑھنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔
بلاشبہ بچپن کی اس یاد نے ایک انمٹ قسم کا نقش سا دماغ میں بٹھا دیا تھا۔ اسی لیے بہت عرصے تک یہ عادت رہی کہ کسی بھی قتل کی خبر کے بعد سرخ آندھی یا سرخ آندھی کے بعد کسی قتل کی خبر کا منتظر رہا اور یہ سلسلہ ءِقلبی میٹرک تک یونہی چلتا رہا۔ لیکن پھر کچھ یوں ہوا کہ والد صاحب ہمیں بسلسلہ روزگار کراچی لے آئے۔ یوں ہم سب گھر والے لاہور ی سے کراچوی بن گئے۔ اور جہاں بچپن کے اس نقش کو پھیکا پڑنے میں صرف تین یا چار سال لگے۔ کراچی ایک ایسا شہر تھا جہاں قتل و غارت خبر بن چکی تھی۔ آئے روز پچاس ساٹھ لوگوں کا مرنا معمولی سی بات تھی اور ہم سرخ آندھیوں کو بھول چکے تھے۔ شاید وہاں اتنے تواتر سے انسانی خون بہتا تھا کہ زمین مسلسل سرخ رہتی تھی، لہذا آسمان اس ذمہ داری سے سبکدوش رہتا تھا۔ بہرحال کراچی میں زندگی کی بےوقعتی اور اس قتل و غارت نے دل و دماغ سے انسانی جان کی وہ قدر و قیمت ختم کردی جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ کراچی کے سول ہسپتال کے واش روم میں پڑی ہوئی آٹھ نو لاشیں دیکھ کر بھی دل پر کوئی خاص رقت طاری نہیں ہوئی تھی، صرف یہ افسوس ضرور ہوا تھا کہ بے چاروں کو مرنے کے بعد کہاں جگہ ملی ہے۔
رہی سہی کسر امریکی وار آن ٹیرر نے نکال دی۔ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے جب کولن پاؤل کی ایک فون کال پر سرنڈر کیا تو کسی کو آنے والی مصیبت کا اندازہ نہیں تھا۔ اس جنگ کا حصہ بننے، پھر خصوصا لال مسجد واقعے اور باجوڑ میں ہونے والے امریکی حملے کے بعد اس ملک میں قتل و غارت کی ایسی آگ لگی کہ جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔ بازار، عبادت گاہیں، سکول ، شاہراہیں ہر جگہ غیر محفوظ ہوگئی۔ انسانی جان اتنی بےوقعت ہوگئی کہ اخبار میں سو لوگوں کے مارے جانے کی خبر کے باوجود ہم اسی شام کسی کنسرٹ میں موجود ہوتے تھے۔ ادھر سے خبر آتی تھی کہ بم دھماکے میں دو سو لوگ مارے گئے اور ادھر ہم کرکٹ میچ کی فتح کا جشن مناتے تھے۔ قتل قتل نہ رہا بلکہ خبر بن گیا۔ پھر سولہ دسمبر کا سیاہ دن آن پہنچا جب آرمی پبلک سکول کے بچوں کے شہادت کی خبر آئی تو ہر طرف سانپ سونگھ گیا۔ میں نے بڑے عرصے بعد لوگوں کو دل گرفتہ دیکھا تھا ورنہ یہ جذبہ بھی ناپید ہوچکا تھا۔
لیکن آج کل جس تواتر سے بچوں کے اغوا اور قتل کی وارداتیں سننے کو آرہی ہیں یا ہم فلسطین، شام، افغانستان اور عراق میں جس پیمانے پر بچوں کا قتل عام دیکھ رہے ہیں اور ان واقعات کے رد عمل میں بےحسی کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ بہت جلد وہ رحم، شفقت کا جذبہ اور وہ احساس جو چھوٹے بچوں کے حوالے سے ہمارے دلوں میں کہیں نہ کہیں موجود رہتا ہے، ناپید ہوجائے گا۔ اللہ نہ کرے کہ ہم ایسا زمانہ دیکھیں کہ بچوں کا مرنا بھی ہمارے لیے روزمرہ کی خبر بن جائے۔ سوچتا ہوں کہ اس دور کے بچے جو یہ سب کچھ ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، بڑے ہوکر، لفظ ’’سرخ آندھی‘‘ کو کیا معنی دیں گے؟ شاید ! ماضی کے وہم! یا کچھ اور۔
اگر ایسا ہوا تو بلاشبہ یہ انسانیت کے خاتمے کا اعلان ہوگا۔ اور اس اعلان کے بعد زندگی محض ربورٹ بن کر رہ جائے گی۔ اس لیے پاکستانی ریاست اور حکمرانوں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا کہ بصورت دیگر مرجھائے ہوئے پھولوں سےگلشن کی سجاوٹ کی توقع عبث ہوگی۔
تبصرہ لکھیے