کچھ اور بھی تھا تلخ بیانی کے علاوہ
تم اور ہی کچھ سمجھے معانی کے علاوہ
کچھ بھی تو نہ تھا چرب زبانی کے علاوہ
کچھ اور ہی سمجھی میں کہانی کے علاوہ
تم دُکھ ہی سمجھنے سے ہو قاصر تو کہوں کیا
آنکھوں میں مرے کچھ نہیں پانی کے علاوہ
یاد آتا ہے ره رہ کے تیرے عشق کا وعدہ
اب کچھ بھی نہیں یاد دہانی کے علاوہ
تم سے ہی نہ لگ پائی گرہ مصرع میں ورنہ
ازبر مجھے اُولیٰ بھی ہے ثانی کے علاوہ
اپنے ہیں مرے دوست ہیں یا صرف منافق
جو بھی ہیں وہ ہیں دشمنِ جانی کے علاوہ
اس دور میں ہر سانس کی قیمت ہے چکانی
اخلاق ہی سستا ہے گرانی کے علاوہ
میعاد تکبر کی زیادہ نہیں ہوتی
جینا ہے تجھے اور جوانی کے علاوہ
گھر ہے تو ضرورت کی ہر اک شئے ہو ثمینہ
کچھ چیزیں نئی رکھ لو پرانی کے علاوہ
تبصرہ لکھیے