قلم کی عظمت کا کون نہیں قائل. انسان کی تاریخ سے پرانی قلم کی تاریخ ہے۔ قلم کو وجود کا پیکر اس وقت ملا جب انسان ابھی عدم ہی میں تھا۔ قلم کو وجود ملا، رب کائنات نے اسے حکم دیا، وہ حرکت میں آیا، اس کا نقش اول ہے تقدیر۔ ساری کائنات کے ذرے ذرے کے خلق وتدبیر، رزق وعمل، بقا وفنا کا فیصلہ۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کو روز ازل ہی میں وہ عظمت دی کہ اس کی پہلی تحریر از اول تا آخر ساری کائنات کی تحریروں کی اصل بن گئی۔ تخلیق آدم سے انتہائے بنی آدم تک ساری تحریریں اسی کی نقل ہیں۔ کائنات بشری سے ماوراء خلق نوری کی ساری تحریریں جو انسان کے اعمال ناموں کی شکل میں ہیں یا دوسری شکلوں میں، کل کو لکھنے کا شرف رب کریم نے قلم ہی کو عطا کیا ہے۔ قلم کو تقدس اور ذمہ داری ملی جب رب کریم نے یہ فرمایا:
[pullquote][اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ *الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ]
[/pullquote]
اورقلم کے نصیب کو ابدی جِلا مل گئی جب اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کھائی:
[pullquote] (نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ)
[/pullquote]
اللہ کی مادی مخلوق میں یہ عظمت وشرف قلم کو ملا۔ یہ عظمت مادی مخلوق کی ساری عظمتوں کا محور ہے۔ مادی تخلیق کو عظمت کا محور بننا مشکل نہیں، اگر رب کائنات کی عنایت ہو۔ دنیا میں بشری و مادی عظمتوں کے مراحل قلم کے سہارے ہی تو طے ہوتے ہیں۔ قلم کی شان دیکھیے احساسات، جذبات، مسرت و مودت، غم و شادمانی، فکر و خیال، دین و تہدیب، تاریخ و افسانے، سائنس و فکشن سب کو خارج میں عیاں و نمایاں ہونے کے لیے یہی مادی پیکر قلم کام آتا ہے۔
ہرمیدان حیات میں قلم کی فرماں روائی ہے۔ حکومتیں اس کے بغیر نہیں چلتیں۔ وزارتیں اس کے نام سے منسوب ہیں۔ قلم کی حکمرانی اچھے برے، امیر غریب، عالم جاہل سب پر قائم ہے۔ قلم انسان کی سب سے بڑی طاقت اور سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ قلم کے ذریعے ہی توعلم و سائنس اور ٹیکنالوجی کی فتوحات حاصل ہوئیں۔ زر و مال کے حصول کی راہیں کھلیں۔ قلم نے سمندر کے اندر اتر کر انسان کے لیے راز ہائے پنہاں کو ہویدا کیا، قلم نے فضاؤں میں اڑنے کے لیے انسان کو طاقت پرواز دی۔ قلم نے انسان کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں اور عالمی تہذیبی رویوں کے لیے ترقی اورپیش رفت کے لیے امکانات کی نئی دنیا دریافت کی۔ ساری دنیا کو عالمی گاؤں بنا دیا۔ انٹرنیٹ کی دریافت نے گھرگھر، فرد فرد کوباہم جوڑ دیا۔ نقل وحمل کے وسائل کی اس نے دریافت کی اور ملکوں کے درمیان قائم سرحدوں کو آسانی سے پار کر دیا۔
قلم نے جابروں کے خلاف فیصلے سنائے، مظلوموں کی آنکھوں سے آنسو پونچھے، بھٹکے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کی، بگڑے ہوؤں کی اصلاح کی، ٹوٹے ہوؤں کو جوڑا، بکھراؤ کو سمیٹا، حق وانصاف کی راہ دکھلائی، جب بھی قلوب و اذہان زہر آلود ہوئے، قلم نے انھیں تریاق دیا۔ بگڑے سماج، بگڑے انسانوں، بگڑی سیاست، بگڑی معیشت، بگڑی سوچ کا علاج قلم کے پاس ہے۔
دراصل قلم کی عظمت اور حرمت ہے اور اس کی عظمت اور حرمت طبعاً برقرار رہنی چاہیے۔ یہی اس کی فطرت ہے، جس طرح انسان کی عظمت اور عزت ہے اور اس کی شرافت و کرامت اس کی فطری پہچان ہے۔ فطرت کے خلاف انسان جاتا ہے توارذل ترین مخلوق بن جاتا ہے۔ فطری طور پر قلم کی عظمت یہی ہے کہ وہ حق کا پاسبان، حق کا طرف دار اور حق پرستوں کا ساتھی ہے۔ جب حق کے خلاف اسے استعمال کیا جاتا ہے تواس کی توہین ہوتی ہے، اس کی عظمت کی پامالی ہوتی ہے۔
قلم محض ایک مادی پیکر کا نام نہیں ہے۔ قلم کے ساتھ عظمت وابستہ ہے، قلم کو تقدس سے نسبت ہے، قلم حق کا نگہبان ہے، قلم مسؤلیت ہے، ابلاغ حق ہے، قلم کی آبرو ہے، قلم عظیم انسانوں کی پہچان ہے۔ قلم سے انسان قلم کار بن جاتاہے۔ اچھے اور سچے انسانوں کے ساتھ قلم کی دوستی ہوتی ہے. سچا اور اچھا انسان، بابصیرت اور اصلی انسان قلم سے رفاقت قائم کرتا ہے اور تادم واپسیں اس کی رفاقت پر ناز کرتا ہے۔
قلم کی دوستی صرف اچھے اور سچے انسانوں سے ہو سکتی ہے۔ بقیہ دوسروں سے اس کا تعلق فرض منصبی نبھانے کی بات ہوتی ہے یا غایت اور وسیلہ کا رشتہ نبھانے کی رسمی بات ہوتی ہے۔ قلم جب کسی اچھے انسان کی انگلیوں کے درمیان آتا ہے تو اس کے دل کی دھڑکن، اس کے احساسات کا ترجمان، اس کے افکار کا امین اور اس کے غم وشادمانی کا ساتھی اور زندگی کا ہمسفر بن جاتا ہے۔ قلم صاف دل، صاف ذہن انسان کا پکا ساتھی بن جاتا ہے اور دونوں کے درمیان والہانہ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ قلم کے اندر ایسے انسان کی حرارت، دانشمندی ،سچائی، غیرت اور احساسات اتر آتے ہیں۔ قلم ایسے انسان کے وجود میں خوشبو بن کر آباد ہو جاتا ہے۔ قلم کی روانی اس کے لیے دریا کی روانی، ہوا کا جھونکا بن جاتا ہے۔ صریرخامہ اس کے لیے خریرآب بن جاتا ہے۔ قلم سے نکلے الفاظ و حروف اورعبارتیں اس کی کشت حیات اور سمن زار زندگی بن جاتی ہیں۔ اس سے نکلا ایک ایک حرف ایک ایک فکر اسے محبوب ہوتی ہے۔ سچے قلم اور سچے قلم کار کے تعلقات اسی طرح کے ہوتے ہیں۔
سچے قلمکار کا ضمیر زندہ ہوتا ہے اور یہی زندگی اس کے قلم کے اندر آجاتی ہے ۔سچا قلمکار قوموں کی امانت، عباد و بلاد کا سرمایہ، حق کا پاسبان اور سچائی کا رکھوالا ہوتا ہے اور اس کا قلم بھی اس کا ہم نوا ہوتا ہے، قلم ایک مادی پیکر ہی نہیں ہے، سچے قلمکار کا قلم اس کا اسلوب، اس کی علمی کیفیت، اس کی سیرت وکردار اور اس کی فکر و خیال اور اس کی شناخت بن جاتا ہے۔ وہ اپنی نواسنجیوں، حق آگاہیوں، شعور وادراک اور احساسات سے اسے ایک زندہ وجود بخشتا ہے۔ اس لیے جب حساس قلمکار درد محسوس کرتا ہے تو قلم سے آنسو ٹپکنے لگتا ہے اور جب اس کے احساس زخمی ہوتے ہیں، ان کو ٹھیس لگتی ہے تواس سے خون ابلنے لگتا ہے اور جب سچائی کے لیے اس کے دل میں انگڑائی پیدا ہوتی ہے تو قلم کے اندر احتراز و حرکت آجاتی ہے۔ جب وہ آوازحق بلند کرتا ہے تو قلم کے اندر بھی سطوت و جلال آجاتا ہے۔ جب غلط کاروں، ٹھگوں، عیاروں، چاپلوسوں، منافقوں اور کذابوں کی ظلمتوں کا پردہ چاک کرتا ہے تو قلم سے نور ابلنے اور اجالا پھیلنے لگتا ہے۔ جب ان کا احتساب ہوتا ہے تو قلم ان کے چہروں کے نقاب کو نوچ ڈالتا ہے۔ سچے قلمکار کا قلم بہت توانا، بڑا آبرومند اور خوددار ہوتا ہے۔ اس کی نوک زبان سے امن کا امرت دھارا بہتا ہے، اس کی سچائی سے بیماروں کا علاج ہوتا ہے، فرد و سماج کےلیے ناسور بنے پھوڑوں کے لیے سچا قلم نشتر بن جاتا ہے، منافقوں کے لیے اَنی اور ظالموں کے لیے تلوار، مفاد پرستوں کے لیے کلوخ اور اجڑے بگڑے قابل ترس انسانوں کے لیے مکمل سکوت، بونوں اور چھوٹ بھیوں کے لیے روش اعراض۔ آبرومند قلم کو اپنی راہ منزل کا پتہ ہوتا ہے اور مقصد و مراحل سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ زندہ قلم رہنما بھی ہوتا ہے اور رہبر بھی، اجالا بھی ہوتا ہے اور روشنی بھی، محتسب بھی ہوتا ہے اور ناقد بھی، جج بھی ہوتا ہے اور پولیس بھی، خادم بھی ہوتا ہے اور مخدوم بھی، زندہ قلم کادل بھی دھڑکتا ہے اور دماغ بھی، وہ وار بھی کرتا ہے اور وار سہتا بھی ہے۔ فی الواقع قلم نہ بہرا ہوتا ہے نہ گونگا، نہ پٹھو ہوتا ہے نہ نکھٹو۔ قلم ایک سچائی اور حقیقت کا نام ہے۔ زندگی اور توانائی کا نام ہے، امانت اور دیانت کا نام ہے۔ قلم جب سچے قلمکار کے ہاتھ میں آتا ہے تواس کی باریک آنکھیں دین، ادب، تاریخ، رجال، سماج، ملک اور معیشت کی سچائیوں اور حقیقتوں کو دیکھ لیتی ہیں اور اپنے سچے شعور و ادراک کے کیمرے میں ان کو بند کر لیتی ہیں، پھر حق اور سچائی کا اجالا پھیلتا ہے۔ سچا قلم اور سچا قلمکار دولت دنیا و دین ہیں۔ روشنی کا مینار ہیں۔ سچا قلم اور سچا قلم کار نہ بھیڑچال سے گھبراتے ہیں نہ عنوان وٹائٹل سے دھونس کھاتے ہیں، نہ جبر و طاغوت سے ڈرتے ہیں، نہ ڈگریوں سے دبتے ہیں، نہ حوالجات کے حوالات میں پڑے ناسمجھ اور بےبصیرت لفظ پرستوں اور معانی سے محروموں کی نقل کرتے ہیں۔ قلم کو قلمکار سے محبت ہوتی ہے اور قلمکار کو قلم سے۔ دونوں کا یہ مضبوط رشتہ ان کی بقا و فلاح کی اساس ہے۔ اس فطری محبت کے درمیان نفاق، چاپلوسی، دوہرے پن، بکنے اور خریدنے کا گزر نہیں ہوتا ہے۔ قلم اور قلمکار کے درمیان محبت، شیفتگی اور گل عذاری ہی توحاصل حیات، روح زندگی، لمحہ فکر، تابش نظر، بہارانجمن، نورشبستاں، نازگلستاں اور فخرکائنات ہے۔
ایک بکاؤ، چاپلوس، جھوٹا انسان جب قلم پکڑتا ہے تو قلم اپنی بدنصیبی پر کانپ جاتا ہے۔ جب ایسا انسان اپنی آلودہ فکر، آلودہ کردار اور آلودہ سوچ سے اس کے وجود پر ستم ڈھاتا ہے تووہ گریہ کناں ہوتا ہے، ماتم کرتا ہے ایسے لوگوں پر جن کا وجود اس کے لیے ننگ بن جاتا ہے۔ اس وقت اس کی عزت پامال ہوجاتی ہے، اس کی عظمت کھوجاتی ہے، اسے اپنے وجودسے شرمساری ہونے لگتی ہے۔ قلم اس وقت اپنی بے آبروئی پر روتا ہے جب اسے الھڑ اور مصلحت پسند استعمال کرتے ہیں۔ قلم ایسے لوگوں پر نفریں کرتا ہے جو اسے اپنے شکم کی آگ بجھانے، اپنی ہوس کو پورا کرنے، اپنی جہالت کو چھپانے اور اپنےعلم کی نمائش کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
جس دورمیں خیانت عام ہو، پستیاں لوگوں کی پناہ گاہ بن جائیں، چند سکوں کی خاطر لوگ دین و ایمان بیچنے لگیں، میڈکیاں بھی نعل ٹھکوانے کا شوق پال لیں، وفاداریاں ایسے بدلیں جیسے بے ایمان بنیے کے ترازو کی ڈنڈی، ادب و تہذیب معصیت بن جائیں، ٹھگی اور عیاری وجہ کمال بن جائیں، رذائل فخر و مباہات کا باعث بن جائیں، گھاگ پن اور احمقانہ تہور قابلیت میں شمار ہوں۔ اس وقت سچا قلم اور سچے قلمکار بلندی سے انھیں ایسے دیکھتے ہیں جیسے درندے آپس میں ایک دوسرے کو کاٹ کھانے میں لگے ہیں اور اس کے لیے پورا زور باندھتے ہیں جیسے کیڑے مکوڑے اور موذی جانور بلوں سے نکل آتے ہیں اور ایک دوسرے سے بری طرح الجھے ہوتے ہیں۔ سچے قلم اور سچے قلمکارکے لیے اس وقت فرد اور سماج کا حال بس اس قسم کا ہوتا ہے۔
سچا قلم اور سچے قلمکار نہ اونچی ٹوپیوں کو خاطرمیں لاتے ہیں، نہ منبر و محراب سے اٹھتے ہوئے نان سینس کی پرواہ کرتے ہیں، نہ چندہ خوروں اور چندہ بٹوروں کے مکوک فضائی سے متاثر ہوتے ہیں، نہ خائنوں کے طول و عرض سے سہمتے ہیں، نہ جھوٹی کانفرنسوں اور ان کے بغلولوں سے ان کی بھیڑ اور ویرانی سے تاثر قبول کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ساون کے سانولے بادل ہیں جو بن برسے اڑ جاتے ہیں۔ وہ مانگے کے اجالوں کو معتبر نہیں جانتے ہیں، نہ دریوزہ گروں کے شکم بینک اور دعاوی کے حجم کو، نہ انھیں ان ستمگروں سے کوئی لینا دینا ہوتا ہے۔
دنیا کے سارے پھیلتے بڑھتے عنوانات، نعرے، دعوے، شور، جبر، سچے قلم اور قلمکار کے نزدیک عناوین صفر ہیں۔ انھیں وہ نظر آتا ہے جو غیروں کو کبھی دکھلائی نہیں دیتا ہے۔ قلم اور قلمکاروں کی سچائی ان کے لیے ڈھال ہے جوانھیں جھوٹ اور نفاق سے بچاتی ہے۔ اجالا ہے جو ظلم و جبر، حرص و لالچ اور خیانت کی تاریکی میں حقائق کے روبرو کرتا ہے۔ اس کے برعکس جو اسے مزدوری کا کدال بناتا ہے یا کاسہ لیسی کا آلہ ایسے کو نہ کبھی حقیقت تک رسائی مل سکتی ہے نہ لذت علم و ادب۔
انسان سب کچھ سمجھتا جانتا ہے لیکن جب سچائی اس کے ساتھ نہیں ہوتی ہے تو اس کی بصیرت چھن جاتی ہے۔ مسائل حیات میں اسے وہی نظر آتا ہے جو اس کی ہوس پرستی چاہتی ہے اور ہوس تاریکی کے سوا کیا ہے۔ ہوس ایک اندھا پن ہے اور یہ اندھا پن دین، عبادت، لمبے کرتے، منبر و محراب کسی بھی راہ سے آسکتا ہے، ہوس میں انسان ذات اور یافت کے گردگھومتا ہے اور ذات اور یافت کاانسان کے اوپر اتنا زور ہوتا ہے کہ وہ اپنے علم سے ناآشنا، معرفت سے بےبہرہ، دل سے بےخبر، دماغ سے محروم ہو جاتا ہے، ذات دریافت میں جیب و شکم کی حکمرانی ہوتی ہے، جلوے ہی اسے راس آتے ہیں، شہرت کی اس پر دیوانگی طاری ہوتی ہے، دکھاوے کا ناٹک اس کا فن بن جاتا ہے، ہرگھڑی، ہر لمحہ وہ اس ادھیڑبن میں رہتا ہے کہ کیا چال چلے ، کیا مکر کرے، کس کو فریب دے، کسے بےوقوف بنائے۔ سچا قلم اور قلمکار ان چھوت کی بیماریوں سے دور بہت دور ہوتے ہیں۔ وہ ان جھوٹے رویوں اور شیطانی حرکتوں سے دور کوسوں دور ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کی دھجیاں بکھیرنا وہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
قلم کو سخت صدمہ ہوتا ہے اس سے کہ بھوکے لالچی دین و ملت کو شکم کی آگ بجھانے کے لیے اسے استعمال کریں اور شب و روز ان کا یہی مشغلہ بن جائے اور اپنی ان مذلوجی حرکتوں کو لمبی ٹوپیوں، لمبی داڑھیوں اور لمبے جبہ و دستار سے چھپانے کی کوشش کریں۔ ان کی حرکتیں مرکب جرائم کے درجے میں ہیں۔ چوری اور خیانت اور اوپر سے انھیں معتبر بنانے کی ناکام جدوجہد، اور بگڑے ہوئے مریض سماج و افراد کے درمیان ان کی مقبولیت و پذیرائی اور ان قباحتوں کے عیاں ہونے پر داغداروں کی ڈھٹائی اوراپنے جرائم کو چھپانے کے لیے مزید مذلوجی حرکتوں کی کارفرمائی۔
جب قلم اور قلم کار سچا نہیں ہوتا ہے تو ان سے فتنے جاگتے ہیں۔ چنیں و چناں کے شرارے پھوٹتے ہیں۔ شکوک و شبہات کے انگارے ابلتے ہیں، سچائی کوچھپانے کے لیے الفاظ کی جادوگری ہوتی ہے، اتہامات کی بوچھاڑیں ہوتی ہیں۔ اعذار لنگ پیش ہوتے ہیں۔ حکومت کوشکایتیں بھیجی جاتی ہیں، لوگ نفاق کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، یا فسق و فجور کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح کی ذہنیت، طبیعت اور مزاج کے لوگوں متعلق رب کریم کا ارشاد ہے:
[pullquote]وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَیْھِمُ الْمَلآءِکَۃَ وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتٰی وَحَشَرْنَا عَلَیْھِمْ کُلَّ شَیْْءٍ قُبُلاً مَّا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ یَجْھَلُوْنَ*وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْھُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ (الانعام:۱۱۱۔۱۱۲)
[/pullquote]
سچا قلمکار سچے قلم کا حامل ہو، آسان کام نہیں ہے۔ ایسے فن کار ذی علم انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ باکردار ہو، حق کا متلاشی ہو، کسی طرح کے تعصب سے اس کا دل و دماغ صاف ہو، قلم کی فنی طاقت اس کے پاس ہو، رعنائی فکر سے مزین ہو، انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے تڑپ رکھتا ہو، شجاع اور بہادر ہو، جھکنے، گرنے اور تملق سے دور ہو، دوہرے کردار سے نفور ہو، مصلحت کے نام پر حق کا قاتل بننے کو سخت ناپسند کرتا ہو۔ قلم کو بیچ کر قلم کو رسوا کرنے پر قطعا آمادہ نہ ہو، سطحیت، چھچھورپن، تعنت، رعونت اورگھٹیا پن کے قریب نہ پھٹکتا ہو. کسی کا آلہ کار نہ ہو، اس کی اپنی سوچ اور اپنے الفاظ و اسلوب ہوں۔ اجتماعی و انفرادی حقوق کی لڑائی لڑ سکتا ہو، بھیڑ چال سے پرے ہو۔ حسن نیت اور حسن نظر سے مالا مال ہو۔ جو قلمکار ان صفات کا حامل نہ ہو وہ سچا قلمکار نہیں بن سکتا۔
سچا قلمکاربننے کے لیے کسی سے سند لینے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ جہانِ قلم میں تحریری صلاحیت رب کریم کی عطا ہے۔ پھر انسان کی اپنی محنت اور جدوجہد ہے اور اپنی سیرت و کردار کی تعمیر ہے، اپنی ذہن سازی ہے اوراس کی اپنی زندگی کا ہدف ہے۔ اس کی نیت، ارادے اور عزائم ہیں۔ بسا اوقات بڑے بڑے ودوان، علوم وفنون کے ماہر مل جائیں گے اور بہت سی کتابوں کے مصنف و محقق، مگر وہ قلمکاروں کے زمرے میں شامل ہونے کے لائق نہیں ہوتے، اس لیے کہ تحریروں میں ان کا اپنا کچھ نہیں ہوتا ہے، تحریروں میں نہ ان کی اپنی فکر ہوتی ہے، نہ ان کی اپنی شخصیت ہوتی ہے، نہ ان میں ان کا جذبہ بولتا ہے، نہ ان میں ان کی تڑپ دکھتی ہے، نہ کوئی پیغام ہوتا ہے، خالی خولی الفاظ اور جملوں کا کھلیان ہوتا ہے۔ الفاظ اور جملے بھی محرر کی شخصیت کی گرمی اور تاب و توانائی سے محروم ہوتے ہیں، تحریریں زندہ اور توانا اس وقت ہوتی ہیں جب شخصیت زندہ اور توانا ہو، مقصدیت ومعتبریت سے موجود ہو۔ قلمکار اگر کسی کا آلہ کار ہو یا اس کا قلم دوسرے کا اجیر ہو، اجیر بایں معنی کہ اس کی تحریرمیں کلیتاً وہی شے ہو جس کا مالک طالب ہو، قلمکار اس میں کلیتاً غائب ہو تو یہ قلمکاری نہیں طوائف گیری ہے کہ قلم کی آبرو قلم کار کی آبرو بکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کو الفاظ اور معانی دیے ہیں تو یہ بہت بڑا عطیہ ہے، اس کی حفاظت ضروری ہے، کسی کو اسے رسوا کرنے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے اور جو قلم کار ہمیشہ یافت اور مفاد کے پیچھے بھاگتے ہیں، ان کو قلم پکڑنے کے بجائے قلی گیری کرنی چاہیے۔ یافت اور مفاد میں دولت، شہرت، نیک نامی، چاپلوسی، مکر اور جھوٹ سب داخل ہیں۔
سچے قلم اور قلمکار کے لیے زندگی آسان نہیں ہوتی۔ وہ اپنے ماحول میں زندگی کا مشاہد ہوتا ہے۔ اس کا مقدس پیشہ برے کو برا اور اچھے کواچھا کہنا فرض مانتا ہے۔ جس کی زندگی کا مشن یہ ہو، ظاہر ہے کہ آج کے طاغوتی دور میں اسے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ایک طرح سے حتمی مسئلہ ہے۔ اس کی زندگی جہاد مسلسل کی زندگی ہوتی ہے، مکر و فریب کے افراسیاب اسے کھاجانے کی کوشش کریں گے ہی۔ تاریکیوں کے پاسدار اس سے جینے کا حق چھین لینے کی کوشش کریں گے ہی۔ سطحیت کے شکار ان کو کہاں سمجھیں گے؟ جھوٹے، منافق، چندہ خور، خائن، ظالم، سنگ دل، استحصالی اسے کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟ منافق اور بکاؤ قلم اسے کیسے جھیل سکتے ہیں؟ فکر ونظر سے عاری اسے کیسے گوارا کرسکتے ہیں؟ ہوس پرست، حرف پرست، زر پرست، اوہام کے شکار، جتھہ بند، ذات برادری اور علاقائیت کے شکار اسے کیسے پسند کرسکتے ہیں؟ ایسے لوگوں کو طفیلی قلمکار راس آسکتے ہیں جو پانی کے تنکے ہوتے ہیں، ہوا انھیں ادھر سے ادھر لیے پھرتی ہے۔
آج کے طاغوتی دور اور سنوات خداعات میں کسے فکر کہ سچائی تلاش کرے۔ زندگی کے اثقال اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ہرشخص انھیں ڈھونے میں تھکا ہارا ہوا ہے۔ ہوس زر و شہرت کی اس قدر طلب ہے کہ چند سکوں کے عوض انسان دین و ایمان اور شخصیت و کردار بیچنے پر آمادہ ہے۔ چھیناجھپٹی کا یہ عالم ہے کہ دنیا چوربازار بنتی جا رہی ہے۔ فریب کا اس طرح دور دورہ ہے کہ ہر شخص دوسرے کو دھوکے دینے پر ہی تلا نظر آتا ہے۔ خود فریبی بہانہ ہے زندگی کاٹ لینے کا۔ خیر کو شر اور شر کو خیر بننے میں اتنی بھی دیر نہیں لگتی جتنی سانس لینے میں دیر لگ سکتی ہے۔ اجالے اندھیرے سب برابر ہوتے جا رہے ہیں۔ مانگے کے اجالوں کو لوگ سورج بنائے بیٹھے ہیں اور خیرات کو سرمایہ۔ ایسے میں سچے قلم اور سچے قلمکار کے لیے کتنی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں، اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ لیکن سچا قلم اور سچے قلمکار اتنے سخت جان ہوتے ہیں کہ ان حالات میں بھی وہ سچائی کا فریضہ نبھانے سے نہیں باز آتے۔
سچے قلم اور سچے قلمکار کے خلاف ایک دنیا ہوتی ہے، طعنے ہوتے ہیں، اتہامات ہوتے ہیں، پروسیکیوشن ہوتاہے، دھمکیاں ہوتی ہیں، سازشیں ہوتی ہیں، قید و بند اور دار و رسن ہوتا ہے لیکن سچائی ان کی ایسی طاقت ہوتی ہے کہ انھیں جھکنے، دبنے اور ٹوٹنے نہیں دیتی۔ سچے قلمکار کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے اور رہے گی اور ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے. وہی زندگی کا اجالا، رونق حیات اور انسانیت کا سرمایہ ہیں. اگر وہ القط ہو جائیں تو اندھیرا ہی اندھیرا۔ اور اندھیروں کے پاسدار خائن، بدقماش اور نافہم ستمگر ہمیشہ اس کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
(شیخ عبدالمعید مدنی، علی گڑھ انڈیا سے ہیں)
تبصرہ لکھیے