رقص کرتے ہوئے صدقہ بھی اُتارا جائے
کیسے ممکن ہے تجھے جیت کے ہارا جاٸے
ایک بھی شخص بھری بھیڑ میں اپنا نہیں ہے
ایسے حالات میں کس کس کو پکارا جائے
شہرِ قاتل ہے یہ،انسان کہاں بستے ہیں
آدمی آدمی کے ہاتھوں سے مارا جائے
عشق کے کھیل میں انعام کہاں ملتا ہے
اس میں تو جیت کے بھی سارے کا سارا جاٸے
مجھ پہ لازم ہے رکھوں میں ترے جذبوں کا خیال
چاہتی ہوں مجھے ہر آن پکارا جاٸے
مانگتے کب ہیں دعا لوگ ثمینہ سید
چاہتے سب ہیں کہ بس خوان اُتارا جائے۔۔
تبصرہ لکھیے