ہوم << احمق قاتل - جیک رچی

احمق قاتل - جیک رچی

جب وہ آیا۔تو ولیم اسوقت اپنے گھر میں لائبریری میں موجود تھا۔اس نے جوس بنا کر ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔اور ولیم کو کسی کا انتظار تھا۔ولیم نے آہٹ سن لی تھی۔مگر اسے یقین تھاکہ یہ وقت اس کی بیوی کے آنے کا ہے۔اس لیے مڑکر دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔مگر آنے والا کوئی اور تھا۔وہ دیکھنے میں ایک شریف آدمی لگتا تھا۔اس نے فریم کی عنیک لگا رکھی تھی۔اس کی نظر سامنے ٹیبل پر بیٹھا ولیم کی طرف تھی۔ہاتھوں میں بریف کیس اٹھا رکھا تھا۔وہ ولیم کی طرف بڑھ گیا۔

ولیم نے بھی ایک نظر دیکھ لیا تھا۔وہ اس کے سامنے ٹیبل پر بیٹھ گیا۔اور دوسرے ہی لمحے اس کے ہاتھوں میں ریوالور چمکنے لگا۔ولیم کو اندازہ ہو گیاکہ یہ شریف آدمی ایسے ہتھیاروں کا استعمال کرنے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔ولیم بھی مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔اس نے بڑی مسکراہٹ سے اس کا استقبال کیا۔تو وہ ایک لمحہ کے لیے چونکا۔
”دیکھو ولیم میں....“اس نے کہنا چاہا مگر ولیم نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تم مجھے قتل کرنے آئے ہو۔مگر یہ بتا دو کہ میں تمہیں کس نے قتل کرنے پر مجبور کیا۔اب یہ حق تو بنتا ہے میرا۔“
”نہیں...مجھے کسی نے مجبور یا مامور نہیں کیا۔میں پیشہ ور کلر ہوں....کسی کو بھی قتل کرسکتا ہوں۔“اس نے سکون بھرے لہجے میں کہا۔
”مجھے اچھی طرح معلوم ہے،کہ کون میرا دشمن ہے۔کون میرا دوست...“ولیم نے کہا۔
”اور تمہیں پھر معلوم ہوگیا ہوگا کہ کس نے مجھے قتل کرنے پر پابند کیا ہے۔“ اس نے کہا۔
”ہاں...کیونکہ میں دولت مند آدمی ہوں۔اسے میری دولت پر قابض ہونا ہے۔“ولیم نے پرسکون لہجے میں کہا۔
اس نے بڑی حیرانی سے دیکھا اور چند لمحے وہ دیکھتا ہی رہا۔مگر اس کا ریوالور ولیم پر چوکس تھا۔
”آپ کی عمر کتنی ہے۔“
”پنتالیس سال۔“
”مگر وہ تو جوان لڑکی ہے۔“
”وہ میری بیوی ہے۔“ولیم نے فوراً کہا۔کیونکہ اسے معلوم ہوگیا کہ اسے قتل کرنے کے لیے اس نے ایک پیشہ ور کلر کو مامور کیا ہے۔
”کیا...؟“وہ حیران ہوا۔”پھر تو اس کے پاس قتل کی معقول وجہ ہے۔اور پھر وہ آپ سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے۔مگر تم کیوں اتنے پرسکون ہو۔اگر تمہیں میرے دل میں رحم یا اس کی وفا کے طالب ہو تو تم پاگل ترین انسان ہو۔“
ولیم اب بھی پرسکون تھا۔اس نے گلاس میں شربت انڈلا اور پینے لگا۔

”مجھے اس سے وفا کی امید نہیں ہے۔نا شادی کرتے وقت،البتہ مجھے توقع تھی کہ شادی کے دو سال بعد طلاق کا مطالبہ ضرور کرے گی۔مجھے اس کا حسن دیکھتے ہوئے۔یہ سودا مہنگا نہیں لگا۔لیکن اگر نوبت قتل تک پہنچی ہے،تو یہ قیمت ادا کرنا بڑا مہنگا سودا ہے۔“
”آپ کی بیوی خوب صورت ہونے ساتھ ساتھ لالچی بھی ہیں۔مسٹر ولیم مجھے حیرت ہے،آپ جیسا تجربہ کار شخص کس طرح دھوکہ کھا سکتا ہے۔“اس نے کہا۔
ولیم نے ایک نظر اسکے ریوالور پر ڈالی اور کہنے لگا۔”مجھے یقین ہے کہ تم پیشہ ور آدمی ہو اور معقول معاوضے پر مل سکتے ہو۔“
”جی ہاں...“اس نے جواب دیا۔
”اور تمہیں لطف بھی ملتا ہوگا۔“
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔”بلکل آپ اسے بھیانک خوشی کا نام دے سکتے ہیں۔ولیم مجھے دوسروں کو قتل کرتے وقت بہت خوشی ملتی ہے۔“
ولیم نے چند لمحے اسے غور سے دیکھا۔اس دوران سکوت طاری رہا۔پھرکہا۔” دیکھ لو تمہیں یہاں آئے تین منٹ ہوچکے ہیں اور تم نے ابھی تک مجھے قتل نہیں کیا۔“
”میں اپنے کام پرسکون سے انجام دیتا ہوں۔آج تو کوئی اور کام ہی نہیں ہے۔“
”تو مطلب یہ ہوا کہ تم شکار کو تڑپانا پسند نہیں کرتے بلکہ دہشت زدہ کرکے لطف اندوز ہوتے ہو۔یہی ہے نا۔“ولیم نے کہا۔
”تم گہرے آدمی ہو۔“اس نے ولیم کی طرف تعریفی نگاہ سے دیکھا۔
”اس کا مطب ہے کہ تمہارے لطف اندوز ہونے تک میں زندہ ہوں۔“
”ہاں...مگر میں ساری رات نہیں دے سکتا تمہیں بس ایک آدھ گھنٹہ۔“
”ظاہر ہے۔ظاہرہے۔جوس کے ایک گلاس کے بارے میں کیا خیال ہے۔مسٹر....“ولیم نے کہا تو اس نے نہ صرف بات کو کاٹ دیا۔بلکہ جلدی سے بولا۔
”مجھے تم اسمتھ کہہ سکتے ہو۔“
”ٹھیک ہے مسٹر اسمتھ۔“ولیم نے قدرے مسکراتے ہوئے کہا۔اور مشروب گلاس میں ڈالنے لگا۔وہ مسلسل ولیم کے ہاتھوں کو دیکھ رہاتھا۔ولیم نے گلاس اس کے سامنے رکھ دیا۔
”کہیں مشروب میں زہر تو نہیں ملا دیا۔“اسمتھ نےکہاتو ولیم کے ہونٹوں میں مسکراتے دوڑنے لگی۔
”اچھا سوال کیا تم نے،ایسا تب ہوتا جب مجھے تمہارے آنے کی اطلاع پہلے سے ہوتی۔اب میں جیب میں زیر کی تھیلی رکھنے سے تو رہا۔“
”بہرحال میں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔“
”خطرہ تو تم مول لے چکے ہو مسٹر...“ولیم نے زیر لب کہا تو اسمتھ چونکا
”کچھ کہا تم نے...“
”کچھ نہیں...میں نے کہا کہ مشروب سے لطف اندوز ہوں پھر تم اپنا کام سر انجام دے دینا۔“ولیم نے اس کی طرف دیکھا۔

”اس وقت میری بیوی کہاں ہے۔“ولیم نے پوچھا.”کیونکہ اس نے میرے قتل کی واردات سے غیر موجودگی کا بہترین جواز ڈھونڈ لیا ہوگا۔“
”وہ ایک تقریب میں شریک ہیں۔اور آپ کا خیال درست نہیں ہے کیونکہ وہ ایک درجن سے زائد گواہوں کو پابند کرچکی ہوں گی۔“
”گھسی پٹی کہانی ہے۔“
”گھسی پٹی تو بہرحال نہیں ہے،یہ بڑا اثر انداز ہونے والی ہے۔“اس نے جوس کا بڑا گھونٹ پیا اور گلاس ٹیبل پر رکھا۔”کم ازکم پولیس کو یقین آجائے گا۔میں جلد باز نہیں ہوں۔کیونکہ جب واپس جاؤں گا تو گلاس کو دھو کر اچھی طرح میز پر رکھ دوں گا اور دروازے کا لاک رومال سے صاف کرکے....میں کام اچھے سلیقے سے انجام دیتا ہوں۔“
”تو تم یقینا میرا قیمتی سامان بھی لے جاؤ گے۔“
”بالکل بھی نہیں،ایسا کروں گا تو پولیس کو شبہ بھی ہوگا اور مجھ تک پہنچ بھی سکتی ہے۔“
”وہ تصویر جو دیوار پر آویزاں ہے۔“ولیم نے نظروں سے اس کی پشت پر اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”وہ تیس ہزار ڈالر مالیت رکھتی ہے۔“
اس نے ایک ثانیے کے لیے سرموڑ کر تصویر دیکھی،اور کہا۔
”میں اپنے پاس ایسی کوئی چیز رکھنا نہیں چاہتا مسٹر ولیم جو میرا آپ سے تعلق ثابت کرے۔میں فن کا قدر دان ہوں لیکن اتنا بھی نہیں کہ اس کی خاطر پھانسی کا خطرہ مول لے لوں۔“وہ دھیرے سے مسکرایا۔”آپ شاید یہ قیمتی تصویر اپنی زندگی کے عوض مجھے دینا چاہتے ہیں؟“
”ہاں کچھ ایسا ہی خیال تھا۔“
اسمتھ نے انکار میں سر ہلایا۔”مجھے افسوس ہے مسٹرولیم ! جب میں کسی کے لیے معاوضے پر کوئی کام قبول کرلوں،تو مخالف مجھے کسی قیمت پر نہیں خرید سکتا،یہ میرا کاروباری اصول ہے۔“

ولیم نے اپنا گلاس میز پر رکھ دیااور بولا۔”تمھیں غالباً یہ انتظار ہے کہ میں دہشت زدہ ہو ک تم سے گڑ گڑا کر زندگی کی بھیک مانگوں؟“
” ہاں،اور مجھے معلوم ہے کہ آپ کا یہ سکون محض کچھ دیر کی بات ہے۔“
”پھر تم یقیناً مجھے قتل کرو گے؟“
”ظاہر ہے مسٹر ولیم ! ویسے خوشی محسوس کرنے کے باوجود اسے ظاہر نہ کرنا بھی بڑا مشکل کام ہے۔“اس نے کہا۔
”شاید تم اپنے ہر شکار سے گڑ گڑا کے رحم کی بھیک مانگنے کی توقع رکھتے ہو؟“ولیم نےکہا۔
”ہاں اور مجھے اس میں کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔البتہ مسٹرولیم ہر شخص کا انداز مخصوص اور منفرد ہوتا ہے۔ اس نے جواب دیا۔
”تم نے کبھی رحم کھا کرکسی کو زندہ چھوڑا؟“
”اب تک تو ایسا نہیں ہوا“۔وہ بڑے دل آویز اندازمیں مسکرایا۔
”مرنے والوں نے تمھیں مال وزر کی پیشکش بھی کی ہوگی۔؟“ولیم نے پوچھا
”ہاں، اکثر و بیشتر۔“
”پھر بھی انھیں نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا؟“
”جی ہاں،آپ کا خیال درست ہے۔“
”ابھی میں نے تمھیں جو تصویر دکھائی،اس کےپیچھے ایک تجوری پوشیدہ ہے۔“
اس نے لمحے بھر کے لیے سرموڑ کر دوبارہ تصویر دیکھی اورکہا۔”اچھا پھر؟“
”اس تجوری میں اس وقت پانچ لاکھ ڈالر موجود ہیں۔“ولیم نے کہا۔
” یہ تو خاصی بڑی رقم ہے مسٹر ولیم.!“ اس کی آنکھوں نے لالچی چمک دکھائی۔

ولیم نے میز سے اپنا گلاس اٹھایا۔اس میں کچھ مشروب باقی تھا۔پھروہ تصویر کے قریب گیا۔تجوری کھولی۔اندر سے ایک لمبا لفافہ نکالا اور بچے ہوئے مشروب کا ایک گھونٹ لے کر خالی گلاس تجوری میں رکھ پھرتی سے اس کا دروازہ بند کر دیا۔تجوری دروازہ بند ہونے پر خود بخود مقفل ہو جاتی تھی۔
اس کی نظریں لفافے پر جمی ہوئی تھیں۔”یہ لفافہ ذرا یہاں لائیے مسٹر ولیم !“
ولیم نے لفافہ میز پر اس کی طرف اچھال دیا۔وہ چند لمحوں تک اسے گھورتا رہا۔”کیا آپ کو یقین ہے مسٹر ولیم کہ آپ پانچ لاکھ ڈالر کے عوض اپنی زندگی خریدنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟“اس نے پوچھا۔
ولیم نے کچھ توقف کے بعد جواب دیا۔”نہیں، مجھے یقین ہے کہ تمھیں کسی قیمت پر بددیانتی کے لیے آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔“ اس کی بھنویں سکڑ گئیں۔ وہ کچھ سوچنے لگا۔ پھر بولے”اس کے باوجود آپ نے تجوری سے رقم کا لفافہ نکالا؟کیوں آخر۔؟
ولیم نے ہاتھ بڑھا کر لفافہ اٹھایا اور اسے میز پر الٹ دیا۔کچھ بوسیدہ کاغذات نکل کر میز پر بکھر گئے۔”دیکھ لو،اس میں ایک بھی کرنسی نوٹ نہیں۔یہ سب پرانے بل ہیں اور تمھارے لیے بیکار ہیں۔“
وہ کچھ جھنجھلا سا گیا۔
”پھر اس حرکت کا مقصد ؟“
” مجھے اس بہانے تجوری کھول کر اس میں تمھارا گلاس رکھنا تھا۔اس پر تمھاری انگلیوں کے نشانات ثبت ہیں۔“
اس نے جلدی سے اپنے سامنے رکھے گلاس کی طرف دیکھا اور بولا،۔”وہ آپ کا گلاس تھا،میرا تو یہ رکھاہے۔“
ولیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔”وہ تمھارا گلاس تھا مسٹر! مجھے یقین ہے۔جب پولیس تجوری میں ایک خالی گلاس دیکھے گی تو ضرور سوچے گی کہ آخر یہ تجوری میں کیوں آیا؟اور چونکہ یہ قتل کی واردات ہوگی۔اس لیے وہ گلاس پر ضرور توجہ دے گی۔اسے گلاس پر تمھاری انگلیوں کے نشانات آسانی سے مل جائیں گے۔”اس کی پتلیاں سکڑ گئیں،تلملا کر کہنے لگا۔
”تم بکواس کر رہے ہو۔میں نے آپ کو ایک لمحے کے لیے بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔تم گلاس تبدیل کر ہی نہیں سکتے۔؟“
”کیا واقعی؟ مجھے یاد پڑتا ہے کہ تم نے کم از کم دو بار سرموڑ کر اس تصویر کی طرف دیکھا جس کی قیمت میں نے تیس ہزار ڈالر بتائی تھی۔“
اس نے بے اختیار سر موڑ کر پھر تصویر دیکھی پھر کہا۔” لیکن وہ ایک دو سیکنڈ سے زیادہ کا وقفہ نہیں تھا۔“
”میں وقت کا صحیح تعین تو نہیں کر سکتا لیکن میرے لیے وہ وقفہ کافی تھا۔ میں نے تمھارا گلاس اپنے سامنے رکھا اور تمھارے سامنے اپنا گلاس رکھ دیا۔“ ولیم نے کہا۔
اس کی پیشانی پر پسینے کی ننھی بوند ابھر آئی۔وہ ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ”میں کہتا ہوں، یہ ناممکن ہے۔“
”ممکن ہے۔مگر مجھے یقین ہے۔جب پولیس تمھیں گرفتار کرے گی۔تو تمھیں بڑا تعجب ہو گا۔پھر کچھ عرصے بعد تمھیں موت کی کرسی پر بیٹھ کے موت کو خوش آمدید کہنے کا موقع ملے گا۔مجھے اصل خوشی اس بات کی ہے کہ تمھیں اپنی موت کا ہفتوں یا شاید مہینوں انتظار کرنا پڑے۔ہر نیا دن تمھیں یقینی موت سے قریب تر کرتا چلا جائے گا۔تم نے اب تک کتنے آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔؟اپنے اس کھیل سےکتنی دیر لطف اندوز ہو سکے...زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے...لیکن تمھیں اپنی موت کا کئی ہفتے، ہزار ہا گھنٹے انتظار کرنا پڑے گا۔مجھے اپنے مرنے کا کوئی غم نہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ میں اس وقت تمھیں نہیں دیکھ سکوں گا۔“

ولیم نے محسوس کرلیا کہ اس کی انگلیوں نے جیسے ریوالور کی لبلبی پر دباؤ بڑھادیا ہے۔وہ خاموشی سے ولیم کو گھور رہا تھا۔
”میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تمھارے آخری لمحات کیسے ہوں گے۔؟“ولیم نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔”مجھے یقین ہے اسمتھ۔تمھیں بھی دوسروں کی طرح یہ غلط فہمی ہوگی کہ جب مرنے کا وقت آیا،تو بے حد پر سکون انداز میں اس کااستقبال کرو گے۔مگر میرا خیال ہے کہ جب جیل کےمحافظ تمھیں گھسیٹتے ہوئے......“
” تجوری کھولو ورنہ میں تمھیں گولی مار دوں گا۔اس کی آواز شدید غصے سے کانپ رہی تھی۔
ولیم بہت زور سے ہنسا اور بولا۔”واہ مسٹر،خوب لطیفہ سنایا۔جب تک تجوری بند ہے تم میرا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ہاں یہ ہم دونوں کو معلوم ہے، اگر میں نے تجوری کھول دی،تو تم یقیناً مجھے گولی مار دو گے۔“
ماحول میں گہرا سکوت طاری ہو گیا۔تقریباً آدھے منٹ بعد اس نے کہا۔” آپ اس گلاس کا کیا کریں گے۔؟“
”اگر تم نے مجھے قتل کیے بنا یہاں سے چلے گئے جس کا اب مجھے پورا یقین ہے،تو میں یہ گلاس ایک سراغ رساں ادارے کے پاس لے جاؤں گا....تا کہ گلاس سے تمھاری انگلیوں کے نشانات اتار کر محفوظ کر لیے جائیں۔پھر میں تمھاری انگلیوں کے نشانات آج کی مکمل روداد کے ساتھ ایک لفافے میں بند کر ان کے حوالے کر دوں گا۔انھیں ہدایت کروں گا کہ اگر میری موت غیر فطری طور پر واقع ہو،تو وہ لوگ میرا لفافہ اسی طرح پولیس کے حوالے کر دیں۔“
وہ چند لمحے مجھے گھورتا رہا۔” اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی“۔ آخر اس نےگہری سانس لے کر کہا۔”میں آج سے جانے کے بعد دوبارہ کبھی تمھیں شکل نہیں دکھاؤں گا۔“
ولیم نے نفی میں سر ہلایا اور کہا۔”تمھاری اس یقین دہانی کے باوجود میں اپنے منصوبے ہی کو ترجیح دوں گا کیونکہ اس طرح مجھے مستقبل کا تحفظ بھی مل جائے گا۔“
وہ کسی سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر سر اٹھا کر بولا” آپ کےپولیس سے ابھی رابطہ کیوں نہیں کر لیتے۔؟“
” اس کی بھی چند وجوہ ہیں۔“ولیم نے جواب دیا۔اس نے اپنے ریوالور کی طرف دیکھا پھر اسے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیا، بولا۔”آپ کی بیوی قتل کے لیے کسی دوسرے کی خدمات بھی تو حاصل کر سکتی ہے؟“
”ہاں تمھاری آج کی کارکردگی سے مایوس ہو کر وہ ضرور کوئی نیا آدمی تلاش کرے گی۔“
”میں نے قتل نہ بھی کیا تو پھربھی سراغ رساں ادارہ آپ کا لفافہ فورا پولیس کے حوالے کر دے گا۔پولیس آپ کے قتل کے الزام میں مجھے گرفتار کرے گی اور عدالت بھی مجھے موت کی سزا سنا دے گی؟“اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
”ظاہر ہے،بشرطیکہ.....“ولیم نے اپنا جملہ نامکمل چھوڑ دیا۔اسمتھ خاموشی سے جملہ مکمل ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ولیم نے کہا۔
” تم اب بھی بچ سکتے ہو اسمتھ ! بشرطیکہ میری بیوی کسی نئے آدمی کی خدمات حاصل کرنے کے قابل نہ رہے۔کیا میری بیوی نے تمھیں یہ بتایا تھا کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔؟“
وہ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولا۔”جی ہاں۔صرف یہ بتایا کہ وہ کسی مسز پیٹرسن کے گھر میں ہے۔وہاں سے گیارہ بجے رات کو واپسی کے لیے اٹھیں گی۔انھوں نے کہا تھا کہ مجھے اپنا کام گیارہ بجے سے پہلےپہلے انجام دینا ہو گا۔“
”گیارہ بجے؟ تب تو بہت تاریخ تاریکی چھا چھا جاتی ہے۔ویسے بھی آج کی رات بہت تاریک ہے،کیا تمھیں۔پیٹرسن کا مکان معلوم ہے؟“ولیم نے پوچھا
اس نے مجھے غور سے دیکھا اور کہا۔”نہیں۔“
ولیم نے اسے مسز پیٹرسن کا پورا پتا تفصیل سے بتایا۔تا کہ وہ آسانی سے مکان تلاش کر لے، پھر کہا۔”بھی ہے گیارہ بجنے میں خاصا وقت ہے،تم اطمینان سے وہاں پہنچ سکتے ہو۔“

وہ دونوں آدھ منٹ تک ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رہے۔ولیم نے کہا”اچھی طرح سوچ لو۔ اپنے مستقبل کی حفاظت کے لیے تمھیں یہ کام کرنا وہ گا۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔“
وہ آہستہ آہستہ کوٹ کے بٹن بند کرنے لگا۔ پھر بولا..”گیارہ بجے آپ کہاں ہوں گے مسٹر ولیم؟“
”میں اپنے کلب میں پانچ دوستوں کے ساتھ تاش کھیل رہا ہوں گا۔ وقت آنے پر وہ دوست پولیس کو حلفیہ بیان دیں گے کہ ولیم لمحے کے لیے بھی ان کی نظر سےاوجھل نہیں ہوا۔گیارہ بجے ان کے ساتھ تھا۔میرا خیال ہے، تم یہ کام گیارہ بجے ہی کر لو گے۔؟“
” اس کا انحصار مناسب حالات اور موقع ملنے پرہے۔“ اس نے کہا۔
”تم نے مسٹر پیٹرسن کا مکان نہیں دیکھا۔میں...بتاؤں۔وہاں تمھیں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔“ وہ ولیم کو بےبسی سے گھورتا رہا پھر دھیرے سے مسکرایا۔”آپ کوکسی زمانے میں اپنی بیوی سے محبت تو ہو گی۔؟“
ولیم نے میز پر رکھا ہوا ایک قیمتی مجسمہ اٹھا کے کہا۔”جب میں نے اسے خریدا۔تو مجھے یہ بہت پسند تھا۔میں اسے تعریفی نظروں سے دیکھتا رہتا۔ لیکن اب مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔سوچ رہا ہوں کہ اسے گودام میں ڈال دوں اور اس کی جگہ نیا مجسمہ خرید لاؤں۔“
☆☆
اسمتھ کے رخصت ہوتے ہی ولیم نے میز پر رکھا گلاس اٹھایا اور سیدھا ایک سراغ رساں ادارے کے دفتر پہنچا۔گلاس حوالے کرتے ہوئے اس نے انھیں اسمتھ کی انگلیوں کے نشانات حاصل کرنے کی ہدایت کی اور اپنے کلب چلا گیا۔وہاں پہنچ کر گھڑی دیکھی۔پونے گیارہ بج رہے تھے۔ولیم نے اسمتھ کے سامنے تجوری میں جو گلاس رکھا،وہ وہیں موجود رہا کیونکہ اس پر واقعی ولیم کے انگلیوں کے نشانات موجود تھے۔وہ قاتل احمق ترین انسان بن گیا تھا۔ولیم کو احساس تھا وہ غدار بیوی کو ٹھکانے لگا کر ہی دم لےگا۔
(ترجمہ: عرفان علی عزیز )