رمضان قریب آگیا ہے۔ قوی امکان ہے کہ رویت ہلال کا مسئلہ ہمارے ہاں پھر ایک معرکۃ الآراء مسئلہ بن جائے گا۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر جگت بازی بھی ہوگی، تنقید بھی ہوگی، لیکن اس امر پر شاید ہی کوئی سنجیدہ بحث ہو کہ اس مسئلے پر ہمارے ہاں کوئی قانون کیوں ابھی تک نہیں بنایا جاسکا؟
برطانوی راج کے دور میں خیبر پختونخوا کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی مرکزیت کسی طرح حد تک قائم رہی ، جیسے ریاستِ سوات اور ریاستِ دیر، وہاں عوام رمضان و عیدین کے معاملے میں ریاست کی حکومت کا فیصلہ مانتے رہے اور آج بھی وہ مرکزی کمیٹی کے ساتھ جڑے ہیں؛ لیکن جہاں ایسی مرکزیت باقی نہیں رہی تھی ، جیسے میدانی اور قبائلی علاقے، وہاں لوگ حکومت کے بجائے مقامی علمائے کرام کے فیصلوں پر عمل کرتے تھے۔خیبر پختونخوا میں کے بعض علاقوں میں افغان مہاجرین کی آمد کے بعد سعودی عرب کے فیصلے کی طرف بھی دیکھا جانے لگا کیونکہ افغان حکومت اس معاملے میں سعودی عرب کے فیصلے کی پابندی کرتی رہی ہے۔ گویا خیبر پختونخوا میں یہ تین رجحان پائے جاتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان میں ”اختلافِ مطالع“ کا مسئلہ بھی اٹھا۔
رویت ہلال کے مسئلے پر 1954ء میں علمائے کرام ایک طویل مباحثے کے بعد کسی حد اتفاقِ رائے تک پہنچ گئے لیکن ان کے فتوے کو ریاستی سطح پر عملاً نافذ نہیں کیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لا کے دوران میں”ترقی پسند“ اور ”جدید“ اسلام کا ماڈل پیش کرنے کی کوشش میں رویت ہلال کے مسئلے پر بھی ایسے فیصلے کیے جن کی وجہ سے عوامی سطح پر بے چینی میں مزید اضافہ ہوا ۔ اس مسئلے کے حل کےلیے حکومتی سطح پر پہلی سنجیدہ کوشش ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئی اور 23 جنوری 1974ء کو قومی اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کے نتیجے میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا نظام وجود میں لایا گیا۔ البتہ چونکہ یہ صرف قرارداد تھی اور اس موضوع پر باقاعدہ قانون سازی نہیں کی گئی، اس لیے اس قرارداد سے بعد میں بہت انحراف بھی کیا گیا۔ مثلاً قرارداد میں کمیٹی کے ارکان کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے میں سے کسی ایک کو اکثریتی ووٹ کے ذریعے ایک سال کے چیئرمین منتخب کرے۔ یہ بھی طے کیا گیا ہر سال اسی طرح نئے چیئر مین کا انتخاب ہوگا۔ معلوم امر ہے کہ اب ایسا نہیں ہوتا۔
مرکزی کمیٹی کے فیصلوں کو اب بھی خیبر پختونخوا کے میدانی اور قبائلی علاقوں میں نہیں مانا جاتا اور یہ معاملہ صرف پشاور کی مسجد قاسم علی خان اور مولانا پوپلزئی تک محدود نہیں ہے، بلکہ مردان، چارسدہ، صوابی وغیرہ میں بھی لوگ مقامی علماء کی پرائیویٹ کمیٹیوں کا فیصلہ مانتے ہیں۔ان علاقوں کے علمائے کرام کی جانب سے عام طور پر یہ گلہ بھی کیا جاتا ہے کہ خیبرپختونخوا سے آنے والی شہادتوں کو کمیٹی قبول نہیں کرتی۔
اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے رمضان کی رویت پر ”روایت“ کے احکام لاگو ہوتے ہیں، جبکہ شوال و ذی الحجہ اور دیگر 9 مہینوں پر ”شہادت“ یعنی گواہی کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس فرق کا قانونی اثر یہ ہے کہ رمضان کی رویت کی قبولیت میں کمیٹی کو بہت زیادہ شدت سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر بظاہر رویت کی روایت کرنے والا قابلِ اعتماد ہو تو بہت زیادہ چھان پھٹک اور غیرضروری جرح نہیں کرنی چاہیے ۔ اسی طرح اس روایت کے راوی کا مجلسِ قضاء (کمیٹی کی میٹنگ) میں خود آنا بھی ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے ”شہادۃ علی الشہادۃ“ کا طریقِ کار اختیار کیا جاسکتا ہے۔ پھر چونکہ مواصلات کا نظام بہت ترقی کرگیا ہے ، اس لیے ضلعی یا صوبائی کمیٹی تک رویت خبر پہنچ جائے، تو اور وہ اس کے نزدیک قابلِ اعتبار ہو، تو اس خبر کی مرکزی کمیٹی تک رسائی بہ آسانی ممکن ہے ۔
عیدین کی رویت چونکہ گواہی ہے ، اس لیے اس کے گواہ کا مجلسِ قضا میں آنا ضروری ہے، لیکن اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ مرکزی کمیٹی اس ضمن میں صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں کے فیصلوں پر اعتماد کرے اور اس پر اصرار نہ کرے کہ اس نے خود گواہوں کی گواہی سننی ہے۔ اس شہادت کی قبولیت کے سلسلے میں شاہد پر مناسب جرح بھی کی جاسکتی ہے لیکن اس ضمن میں بھی اختیار صوبائی اور ضلعی کمیٹیوں کو منتقل کرنا چاہیے ۔
مرکزی کمیٹی کے ناقدین عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اتنی شہادتیں آئیں لیکن انھیں مسترد کیا گیا ۔ اصولاً جب تک قاضی گواہی کو قبول نہ کرے ، اس کی حیثیت محض ایک خبر کی ہےاور دلائل و قرائن کی بنیاد پر قاضی گواہی کو مسترد بھی کرسکتا ہے ۔ اس لیے سچی بات یہ ہے کہ اس امر میں جانبین بے جا حساسیت کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔
خیبر پختونخوا میں جب مذہبی جماعتوں کے اتحاد ، متحدہ مجلسِ عمل ، کی حکومت تھی تو صوبائی اسمبلی نے قرارداد منظور کی تھی کہ پاکستان میں وحدتِ رمضان و عیدین کو یقینی بنانے کےلیے رویت کے معاملے میں سعودی عرب کا فیصلہ قبول کرنا چاہیے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ جمہور فقہائے کرام کے مطابق ”اختلافِ مطالع“ کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے ، اس لیے سعودی عرب کی رویت پاکستان میں قبول کی جاسکتی ہے۔
اس موقف کی بنیاد سعودی عرب کے متعلق یہ خوش گمانی ہے کہ وہاں فیصلے اسلامی قانون کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن کئی اہلِ علم نے رویت کے متعلق سعودی عرب کے نظام پر یہ تنقید کی ہے کہ وہاں فیصلے کی بنیاد رویت نہیں، بلکہ فلکی حسابات ہوتے ہیں اور جب ان حسابات کی رو سے چاند کی پیدائش ہوچکی ہو تو اس کے بعد ملنے والی رویت کی خبر کو وہ قبول کرلیتے ہیں ۔
شرعاً فلکی حسابات کی بنیاد پر چاند کی پیدائش کو مہینے کے آغاز کے لیے معیار نہیں بنایا جاسکتا ، نہ ہی محض اختلافِ مطالع کے عدمِ اعتبار کی راے قبول کرکے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے کیونکہ اصل مسئلہ مطالع کے اختلاف کا نہیں بلکہ قانونی اختیار کی حدود کا ہے ۔ سعودی عرب کی عدالت کا فیصلہ پاکستان میں نافذ نہیں ہوسکتا جب تک پاکستان کی عدالت اسے باقاعدہ طور پر قبول نہ کرلے ۔ اس لیے ایسا تبھی ممکن ہوسکے گا جب حکومتِ پاکستان بعض دیگر مسلمان ممالک کی حکومتوں کی طرح یہ فیصلہ کرلے کہ وہ رویت کے متعلق سعودی عرب کا فیصلہ اپنے ملک میں نافذ کرے گی ۔ تاہم اس فیصلے کا ایک ناپسندیدہ اثر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پھر مقامی سطح پر رویت کا اہتمام کرنے میں بہت زیادہ تساہل برتا جائے گا ۔
رویت ہلال کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔ ایسی کسی قانون سازی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہی 2009ء میں سپریم کورٹ نے ، جبکہ افتخار محمد چودھری صاحب چیف جسٹس تھے، اس سلسلے میں پٹیشن کی سماعت سے معذوری ظاہر کی ۔ 2016ء میں حکومت نے اس مقصد کےلیے قانون کا ایک مسودہ تیار کیا تھا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تا حال وہ مسودہ سرد خانے میں پڑا ہے۔
تبصرہ لکھیے