ہوم << ابھرتا ہوا قطر - نواز کمال

ابھرتا ہوا قطر - نواز کمال

اگر ہم نقشہ کھول کر سعودی عرب کی مشرقی پٹی پر نگاہ دوڑائیں تو خلیجِ فارس کے ساحل پر خشکی کے دو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نظر آئیں گے. ایک ٹکڑا بہت ہی چھوٹا جبکہ دوسرا نسبتاً بڑا ہے. بڑے ٹکڑے کو دنیا قطر کے نام سے جانتی ہے.

قطر کی زمینی سرحد صرف سعودی عرب کے ساتھ لگتی ہے. دوسرا قریب ترین ملک بحرین ہے، جسے قطر سے خلیجِ فارس کا نیلگوں پانی جدا کرتا ہے.دو ہزار سترہ کی رپورٹ کے مطابق قطر کی کُل آبادی چھبیس لاکھ ہے . حیرت انگیز بات یہ ہے چھبیس لاکھ میں سے صرف تین لاکھ تیرہ ہزار افراد مقامی ہیں. باقی لگ بھگ 23 لاکھ لوگ غیر ملکی ہیں، جو معاش کے سلسلے میں قطر میں مقیم ہیں. دنیا حیران ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ قطر نے فیفا ورلڈ کپ پر دو سو ارب ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی، جبکہ اسے صرف اکیس ارب کے لگ بھگ آمدنی ہوئی. اس قدر مہنگے اور گھاٹے کے سودے کی کیا ضرورت تھی؟

جواب تک پہنچنے کے لئے قطر کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطی کی تاریخ سے آگاہی ضروری ہے. اس کے بعد اندازہ ہوگا کہ قطر نے کس قدر ذہانت اور سمجھداری سے ورلڈ کپ کے انعقاد کے ذریعے متعدد اہداف حاصل کیے ہیں. خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلم مالک کی بندر بانٹ شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں قطر برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا. 1971 کو یہ ملک آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور شیخ خلیفہ بن حمد آل ثانی حکمران بن گئے. آزادی کے بعد چھوٹا، کمزور اور کم آبادی والا ملک ہونے کی وجہ سے قطر نے مکمل طور پر سعودی عرب پر انحصار کرنا شروع کر دیا. سعودی حکومت اس کی سیکیورٹی کی ضامن ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی خارجہ پالیسی بھی طے کرتی تھی. دوسرے الفاظ میں ایک آزاد ملک ہونے کے باوجود قطر مکمل طور پر سعودی عرب کے زیرِ اثر تھا. یہ سلسلہ چوبیس سال تک چلتا رہا.

1995 میں قطری حکمران شیخ خلیفہ سوئٹزرلینڈ کے تفریحی دورے پر تھے. ان کی عدم موجودگی میں ان کے بیٹے شیخ حمد بن خلیفہ نے حکومت پر قبضہ کر لیا. شیخ حمد سعودی عرب پر مکمل انحصار کرنے کے خلاف تھے اور شاید یہ بغاوت کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک تھی.شیخ حمد بن خلیفہ نے حکمران بنتے ہی سعودی عرب کے اثر و رسوخ سے نکلنے کی کوششیں شروع کر دیں . قطر کی اس جسارت پر سعودی بادشاہت کی پیشانی شکن آلود ہوگئی. یہاں سے دھیرے دھیرے دونوں ریاستوں میں خلیج پیدا ہوئی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی.

اس سے قبل قطر اپنی سیکورٹی کے لئے سعودی عرب پہ انحصار کرتا تھا. 1991 میں خلیجی جنگ کے دوران قطر نے العدید میں بہت بڑا ہوائی اڈہ تعمیر کیا اور غیر ملکی افواج کو قیام کرنے کی اجازت دے دی. نائن الیون کے بعد امریکہ نے خفیہ طور پر اس ہوائی اڈے کو استعمال کرنا شروع کردیا تھا. 2002 کو امریکی نائب صدر ڈک چینی نے یہاں کا دورہ کیا، جس سے دنیا کو پہلی مرتبہ علم ہوا کہ اب یہ اڈہ امریکی تصرف میں ہے. اس کا امریکہ کو جو فائدہ ہوا سو ہوا، مگر اس کے نتیجے میں اپنی سیکورٹی کے حوالے سے قطر کا سعودی عرب پر انحصار ختم ہو گیا.

قطر اور سعودی عرب میں سرد مہری برقرار تھی کہ 2011 کو تیونس سے عرب بہار کا جھونکا چلا اور دیکھتے ہی دیکھتے مشرقِ وسطی اور شمالی افریقی پٹی کے عرب ممالک میں تھرتھلی مچ گئی. اس کے نتیجے میں دیگر کچھ ممالک کی طرح مصر میں بھی تبدیلی وقوع پذیر ہوئی، جس کے نتیجے میں الاخوان المسلمون برسرِ اقتدار آگئی. لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی. شام کی سرزمین آتش کدہ بن گئی. بحرین میں بھی ہلچل ہوئی مگر سعودی عرب کی مدد سے اسے دبا دیا گیا. عرب بہار نے جہاں دیگر بہت سے ستم ڈھائے، وہاں قطر اور سعودی عرب کے مابین پائی جانے والی تلخی کو بھی دو آتشہ کردیا.

سعودی عرب نے قطر پر الزام لگایا کہ الجزیرہ ٹی وی نے بحرین میں برپا ہونے والی شورش کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی ہے . دوسری طرف 2013 کو جنرل سیسی نے اخوانی حکومت کو برطرف کرکے حکومت پر قبضہ کر لیا. اس کے نتیجے میں اخوانی رہنماؤں اور کارکنوں کے لئے مصری سرزمین عقوبت خانے میں تبدیل ہوگئی. ایسے میں قطر حکومت نے اخوان المسلمون کی نہ صرف سفارتی اور اخلاقی طور پر مدد کی، بلکہ الجزیرہ کے ذریعے سیسی حکومت کے مظالم کا پردہ چاک کرنا شروع کر دیا. اخوانی رہنماؤں سمیت شیخ یوسف قرضاوی رحمہ اللہ کو پناہ دی. ان اقدامات کی وجہ سے مصری حکومت بھی قطر کی دشمن بن گئی.

جب یمن حوثی باغیوں کی وجہ سے فساد اور بدامنی کا شکار ہوا تو سعودی عرب کی سربراہی میں ایک فوجی اتحاد قائم کیا گیا. قطر بھی اس اتحاد میں شامل تھا. بعد میں اسے یہ کہہ کر اتحاد سے نکال دیا گیا کہ وہ در پردہ حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے.معمر قذافی کے بعد لیبیا میں خانہ جنگی شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں دو مختلف شہروں میں متوازی حکومتیں قائم ہوگئیں. تبروک شہر میں نیشنل آرمی کے لیڈر جنرل خلیفہ ہفتار جبکہ طرابلس میں مخالف دھڑے کی حکومت قائم ہوئی. سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات خلیفہ ہفتار کے ساتھ تھے جبکہ قطر طرابلسی سیٹ اپ کے ساتھ کھڑا تھا.

سعودی عرب کی جانب سے قطر پر یہ بھی الزام تھا کہ وہ سعودی عرب کی مشرقی ساحلی پٹی پر واقع شیعہ اکثریتی شہر قطیف میں ایران کے ساتھ مل کر شرپسندوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، مگر قطر اس سے انکاری رہا.سعودی عرب اور ایران کی چپقلش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں. اس تنازع میں بھی قطر نے اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھی، جسے سعودی عرب نے ایران کی طرف داری سے تعبیر کیا.سعودی قطر تنازع کی ایک اہم وجہ قطری حکومت کی جانب سے ترکی کو ہوائی اڈے کی تعمیر اور اس کی افواج کو قیام کی اجازت دینا بھی تھی.سعودی عرب کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ قطر القاعدہ سمیت دیگر تنظیموں کی مدد کر رہا ہے.

بہرحال یہ وہ وجوہات تھیں جو دو پڑوسی ممالک کو ایک دوسرے سے نہ صرف دور کر رہی تھیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء بھی کر رہی تھیں.اسی کشمکش کے دوران سعودی عرب نے قطر کے سامنے کچھ مطالبات رکھے، جن میں سرِ فہرست الجزیرہ ٹی وی چینل کو بند کرنا، اخوان المسلمون سے دوری اختیار کرنا، ترکی کو ہوائی اڈے کی اجازت نہ دینا اور اسلامی تحریکوں کی پشت پناہی سے باز رہنے جیسے مطالبات شامل تھے. قطر نے ان تمام مطالبات کو جوتے کی نوک پر رکھا، جس کے بعد 2017 کو سعودی عرب نے قطر کا ہر قسم کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا.

اس بائیکاٹ میں مصر، محتدہ عرب امارات، موریطانیہ، سینیگال، مالدیپ اور دیگر چند ممالک بھی شامل تھے. سعودی عرب نے نہ صرف قطر کو خشکی سے ملانے والا واحد زمینی راستہ بند کر دیا بلکہ فضائی اور سمندری حدود بھی مسدود کر دیں. بائیکاٹ کی شدت دیکھتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ جلد ہی قطر گھٹنے ٹیک دے گا مگر وہ پورے قد کے ساتھ کھڑا اور ڈٹا رہا. بالآخر کچھ ممالک کی کوششوں کی وجہ سے یہ محاصرہ ختم ہوا. اس محاصرے کے دوران ترکی نے قطر کا نہ صرف کھل کر ساتھ دیا بلکہ ہر طرح سے تعاون بھی فراہم کیا.

پچھلی دہائی میں افغان جنگ کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات کا طویل دور چلا . مذاکرات کی میزبانی قطر کے حصے میں آئی. ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں قطر کا نہایت اہم کردار رہا. اس کاوش نے قطر کا قد کاٹھ عالمی سطح پر اونچا کردیا.حالیہ حماس اسرائیل جنگ میں اگر کوئی خلیجی ملک متحرک نظر آرہا ہے تو وہ قطر ہے. دونوں فریق کے بیچ مذاکرات ہوں، حماس کی قیادت کو رہائش فراہم کرنا ہو یا فنڈنگ کرنی ہو، قطر پوری تندہی کے ساتھ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے.شام میں برسرِ اقتدار آنے والی مزاحمتی قوتوں کو بھی قطر کا بھرپور تعاون حاصل رہا. انقلاب کے بعد قطر کے امیر شیخ تمیم وہ پہلی عرب سربراہ شخصیت ہیں جو اس وقت شام کے دورے پر ہیں.

قطر نہ صرف سفارتی طور پر اور اپنی آزاد خارجہ پالیسی کی وجہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے لئے دردِ سر بنا ہوا ہے بلکہ معاشی طور پر بھی انہیں ٹف ٹائم دے رہا ہے. 2018 اٹھارہ کی رپورٹ کے مطابق قطر فی کس آمدنی کے لحاظ سے پوری دنیا میں پہلے نمبر پر تھا.قطر کی فضائی کمپنی قطر ایئرویز کو 2022 کی سب سے بہترین فضائی کمپنی قرار دیا گیا ہے. متحدہ عرب امارات کی ایمریٹس ایئرلائن کو تیسرا درجہ دیا گیا. درجہ بندی کے لیے پوری دنیا سے ساڑھے تین سو سے زائد کمپنیوں کی فہرست بنائی گئی تھی. دوحہ کے حماد انٹرنیشنل ائیر پورٹ کو پچھلے سال کی طرح اس سال بھی دنیا کا بہترین ایئرپورٹ قرار دیا گیا ہے.

سعودی عرب میں محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سے وہاں کی حکومت کی جانب سے مسلسل ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں، جن سے پوری دنیا میں یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ سعودی عرب اب آہستہ آہستہ آزاد خیالی کی طرف بڑھ رہا ہے. شریعت کے نسبتاً قریب تر ریاست کی شناخت سے دھیرے دھیرے پیچھا چھڑا رہا ہے. دنیا کے مختلف خطوں میں سرگرمِ عمل اسلامی تنظیموں اور تحریکوں سے فاصلہ بڑھا رہا ہے. سعودی عرب کے مزاج میں اس نوعیت کے بدلاؤ سے عالمِ اسلام میں ایک خلا سا پیدا ہو گیا ہے.

قطر نے اس خلا کو پُر کرنے کی بہت عمدہ کوشش کی ہے. حماس کی حمایت، الاخوان المسلمون کی پشت پناہی, شامی انقلابیوں کی مدد اور طالبان سے قربت اس کی واضح دلیل ہے. گزشتہ فیفا ورلڈ کپ میں بھی قطر نے مغربی تنقید کی پروا نہ کرتے ہوئے قدم قدم پر اپنی اسلامی شناخت کو بہت عمدگی سے اجاگر کیا اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو خاموش پیغام دیا کہ سعودی عرب کے رویے میں بدلاؤ سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اب قطر کی صورت میں ایک نئی کرن جگمگانے لگی ہے.

ان تفصیلات سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ قطر نے فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد میں پیسہ کیوں پانی کی طرح بہایا. قطر ورلڈ کپ کے دوران ایک ماہ تک پوری دنیا کے حواس پر چھایا رہا. یہ دراصل اپنی تشہیر کی مہنگی مگر کامیاب ترین کوشش تھی. اس کاوش نے دنیا کے سامنے قطر کی صلاحیتوں کے جلوے بکھیر دیے ہیں . اس کا پرامن ماحول، عوام کا دوستانہ رویہ، مہمان نوازی اور مالداری سمیت دیگر کمالات سے خلق خدا واقف ہوچکی. دنیا نے یہ بھی جانا کہ صرف سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات ہی نہیں، قطر بھی اس خطے کا اہم کھلاڑی ہے. مستقبل قریب میں بیرونی سرمایہ کاری کے دھارے قطر کی جانب زور و شور سے بہتے دکھائی دے رہے ہیں.

قطر کی ترقی کے پیچھے اس کے پڑوسیوں کا نادرست اور ترش رویہ بھی شامل ہے. اپنی آزاد خارجہ پالیسی کو برقرار رکھنے کے لئے ترقی کا پہیہ تیز رفتاری سے گھمانا قطر کی ایک طرح سے مجبوری بھی ہے. سفارتی طور پر دیکھا جائے تو بلاشبہ قطر متحدہ عرب امارات سے بہت آگے جبکہ سعودی عرب کا ہم پلہ نظر آتا ہے. معاشی طور پر وہ ان دونوں کے قریب قریب کھڑا ہے . ایسا لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں دوحہ کی دلکشی، رعنائی اور چکاچوند سے دبئی جیسے شہر کی آنکھیں بھی خیرہ ہو رہی ہوں گی.