کراچی یونیورسٹی کے معروف استاد پروفیسر طاہر مسعود نے اپنا دردِ دل رکھا ہے۔ زندگی بھر کی جمع پونجی سے فلیٹ خریدا لیکن اب تک انہیں ہاتھ کچھ نہ آیا۔
پاکستان میں چند شعبے ایسے ہیں جن کے ظلم کی داستانیں ہیں۔ ان میں سے ایک پراپرٹی اور ریئل اسٹیٹ کا شعبہ ہے۔ زمین کی خریدوفروخت سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہر پہلو کی خود تحقیق کرنی چاہیے۔ جب تک اطمینان نہ ہو، کسی کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آںا چاہیے۔ یہ بدقسمت جملہ مشہور ہے کہ پراپرٹی کے کام میں اپنے باپ پر بھی یقین نہیں کرنا چاہیے۔ اس شعبے میں ظلم کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ پاکستان میں ایک بڑے طبقے کی بڑی عیاشی یہ ہوسکتی ہے کہ ایک چھوٹا سا پلاٹ خریدا جائے۔ اس سے اگلے مرحلے کی عیاشی یہ کہ اس پر گھر تعمیر کیا جاسکے۔ اس کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ کیسے کیسے رقم جوڑنا پڑتی ہے۔ اور اگر اس میں بھی دھوکا ہوجائے تو ذرا اس دُکھ کا اندازہ لگائیں کہ کیا گزرتی ہوگی؟
میری فیملی کا خود اس حوالے سے ایک بدترین تجربہ رہا۔ اسلام آباد میں چند سال پہلے ہم نے سوچا کہ ایک پلاٹ خریدا جائے۔ پتا چلا کہ کراچی سے آنے والے ایک دوست اس شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں طویل عرصے سے ذاتی طور پر جانتا تھا۔ نیک، پارسا اور تہجد گزار۔ گفتگو قرآن وسنت سے ہمیشہ مزین۔ ظاہری شکل وصورت بھی ایسی کہ دیکھ کر خدا یاد آجائے۔ ہم نے سوچا اس سے بہتر کون ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اس سے پلاٹ کے لیے بات کی۔ موصوف نے ایک لمبے چوڑے چکر میں ڈال کر آخر میں کہا کہ میرے پاس ایک پلاٹ ہے، میں بیچنا تو نہیں چاہتا، لیکن آپ لوگ میرے قریبی ہیں، اس لیے آپ کو دے سکتا ہوں۔ ہم بھی اخلاص کے مارے، دام میں آگئے۔
کہانی بہت طویل ہے لیکن مختصر یہ کہ پیسے ہمارے ہاتھ سے چلے گئے۔ بعد میں علم ہوا کہ سب دھوکا تھا، فراڈ تھا۔ بہت مشکلوں سے کئی ماہ کی کوششوں کے بعد اس سے اپنی رقم نکلوانے میں کامیابی ملی۔ حیرت یہ کہ موصوف کو ذرا بھی شرمندگی نہ ہوئی، ذرا احساسِ ندامت نہ تھا۔ جس طرح اپنی رقم نکلوائی، اسے بھی "کرامت" ہی کہہ سکتے ہیں۔ اب ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب کا واقعہ پڑھا تو اپنا دکھ یاد آیا۔ بات یہ ہے کہ لین دین کوئی بھی ہو، آنکھیں کھلی رکھنی چاہییں۔ "دیکھی جائے گی" "اللہ مالک ہے" "آپ سے کیا حساب کتاب کرنا ہے" "آپ رکھ تو لیں بعد میں دیکھ لیں گے".
اس قسم کے استحصالی جملوں سے متاثر ہونا چاہیے نہ ہی لین دین میں دوستی رشتہ داری کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ خصوصی طورپر جائیداد کی خریدوفروخت میں آنکھیں ماتھے پر رکھنی چاہییں۔ یہی میرا تجربہ ہے اور یہی بعد کی مصیبتوں سے بچنے کا واحد حل ہے۔
تبصرہ لکھیے