ٹرمپ کا کہنا ہے غزہ چھوڑدیں، مصر میں آباد ہوجائیں، اردن میں بس جائیں، دنیا کی سہولتیں حاصل کرلیں، مگر اہالیان غزہ کو کیا ہوگیا کہ وہ آفر قبول ہی نہیں کر رہے؟
کیا وہ اس صدی کے سب سے پاگل لوگ ہیں، اس سے پہلے بھی اسرائیلی اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے ملین ملین ڈالر کے انعامات کے اعلان کر رہے تھے، لیکن کوئی انہیں غزہ میں ساتھ دینے والا نہیں ملا، جبکہ قناۃ العربیہ اور اس کے چیلے چپاٹوں کے مطابق وہاں کے باشندے مقاومۃ سے تنگ تھے، پھر عجیب منظر دیکھا کہ جنگ بندی کا اعلان ہوا اور عورتیں مقاتلین کا پھولوں سے سواگت کرنے لگیں، جتنے گنوائے اس سے زیادہ بھرتی ہوئے، ترجمان نے اعلان کیا کہ ہمیں دنیا بھر سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں، پروپیگنڈہ پھیلانے والے اپنا منہ لے کر رہ گئے، جب کچھ نہیں بچا تو یہ ثابت کرنے لگے کہ جنگ فتح نہیں شکست ہے، ہاں بھئی ہے شکست، جب تک قوم فروش رہیں گے تب تک سرفروش شکست کھاتے رہیں گے۔
غزہ اور ضفۃ غربیۃ کو آج نہیں تو کل خالی کرایا جائے گا، یہی پلان ہے، یہی نوشتہ دیوار ہے جو دنیائے صیہونیت نے خود سے لکھی ہے، اور اس کا مقابلہ فلسفے سے نہیں، صرف مزاحمت اور تیاری سے ممکن ہے. ضفہ غربیہ نے صلح کرکے کیا حاصل کیا ہے؟ ہر دن چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں، ہر دن کسی نہ کسی کے گھر پر بلڈوزر چلتا رہتا ہے، اسرائیلیوں کی آبادی میں توسیع ہوتی رہتی ہے. میں شروع سے کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنی جنگ لڑ رہے ہیں انھیں لڑنے دیں، وہ جنگ کریں، مصالحت کریں، ہجرت کرجائیں، وہ ان کا قضیہ ہے. جب آپ ان کے معاملے میں فریق ہی نہیں تو مصلحت اور مفسدت کا فلسفہ کیوں جھاڑ رہے ہیں؟
ٹرمپ پہلے دن آفس میں آتا ہے، کھل کر بولتا ہے کہ پچھلی مرتبہ استثمار(سیکورٹی اصلا) کے نام پر چار سو بلین ڈالر لیا تھا، اس بار مہنگائی تھوڑی بڑھ گئی ہے تو پانچ سو کردیتے ہیں. یہ Humiliation ہے، یہ ذلت و نکبت ہے جو ہم مسلمانوں پر مسلط کردی گئی ہے، یہ استثمار متبادل نہیں ہے، ادھر سے جواب آتا ہے کہ پانچ سو چھوڑیں، ہم چھ سو کردیتے ہیں، اور یہ ہمارے مطبلین یہاں پر ڈھول بجانے لگتے ہیں. ایسے ایسے دلائل ڈھونڈ کر لاتے ہیں کہ بس یہی کہنا پڑتا ہے کہ حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے، پھر ابھی سکون کی سانس بھی نہیں لے پائے کہ پھر ارشاد ہوا اسے بڑھا کر ایک ٹریلین کردیں اور تیل کی قیمتیں بھی گرا دیں۔
ایک حکم پر سر کے بل دوڑ آنے والے ان لوگوں پر حکم لگا رہے ہیں، ان لوگوں کو سمجھا رہے ہیں جو اپنا سب کچھ لٹا کر بھی ہار ماننے کے لیے تیار نہیں، کہ قیدیوں کے ساتھ جن کے سلوک نے اسلامی تعلیمات کو گلوبل ہیڈلائن بنا دیا، کہ جن کی اپنی شرطوں پر معاہدوں نے دنیا کو نیتن یاہو سے یہ پوچھنے پر مجبور کردیا کہ نسلی تطہیر کے سوا تم نے غزہ میں کیا کیا؟
تطبیع اور صلح کے درمیان فرق نہ جاننے والے جیالوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ تم کو مصلحت اور مفسدت کا فرق نہیں معلوم، بھائی جاؤ پہلے اس موضوع پر کتابیں پڑھو، اور صیہونیوں کے عزائم کو سمجھو، وہ جیالے ان کے عزائم کی راہ میں روڑا ہیں، آج جب صیہونی حالت جنگ میں ہیں تب انہوں نے اتنی ترقی کی ہے، کل کو اگر انہیں ہمیشہ کے لیے حالت امن نصیب ہوگیا تو کبھی سوچا ہے کہ ریاض اور دبئی کے محلات میں کیا سازشیں چلیں گی؟ کون سا ملک محفوظ رہے گا؟ شکر ادا کرو کہ اپنی قربانیاں دے کر تمھیں محفوظ رکھ رہے ہیں، اگر غزہ کی حالیہ جنگ نہ ہوئی ہوتی تو آج اہل سنت و الجماعت کو ملک شام نہ ملا ہوتا۔
ٹرمپ نے اعلان کیا ہے امن و سلامتی والی زندگی کی، اب جاؤ، اہالیان غزہ کو سمجھاؤ کہ ویسے بھی تمھارے گھر برباد ہوچکے، تمھاری زمینیں تباہ ہو چکی ہے، تمھیں تمھارے کھنڈرات میں کیا ملے گا؟ مصلحت کا تقاضا ہے کہ چھوڑ دو یہ سب، ہجرت کرجاؤ نئی زمین، نئی زندگی کی تلاش میں، کیا وہ تمھاری بات پر راضی ہوں گے؟ کیا تمھاری مصلحت اور مفسدت کا قاعدہ ان بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور ماؤں کو سمجھ میں آئے گا؟ اگر آگیا تو فبہا و نعمت، اور نہیں آیا تو خدا کے لیے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو، اگر حمایتی نہیں بن سکتے تو کم سے کم فریق مخالف تو نہ بنو۔
تبصرہ لکھیے