ہوم << بلوچستان میں سِرِّیَّت کا کھیل - ببرک کارمل جمالی

بلوچستان میں سِرِّیَّت کا کھیل - ببرک کارمل جمالی

Mass Image Compressor Compressed this image. https://sourceforge.net/projects/icompress/ with Quality:80

سِرِّیَّت ایک ایسا خطرناک موضوع ہے جس پر اس ملک میں لکھا ہی نہیں گیا . ہاں اگر لکھا بھی گیا ہے تو بہت کم، اور وہ بھی ادھورا لکھا گیا ۔ سریت ایک ایسا موضوع ہے جس پہ کھل کر بولا یا لکھا بھی نہیں جا سکتا ہے۔

بلوچی زبان میں سریت ایسی عورت کو کہتے ہیں ، جو رازدار ہو ۔ سریت کے لفظی معنی رازداری یا خفیہ رسوم کی ادائیگی یا پر اسرار طریقے سے شادی کے ہیں۔ جبکہ سریت کی ایک قسم رکھیل بھی ہے، جس کے معنی بلا نکاح کسی عورت سے تعلقات قائم رکھنا ہے. سریت بازاروں یا مارکیٹ کے بارے میں آج تک کھل کر بات نہیں کی گئی۔ کئی سریت ہمارے ارد گرد یا علاقوں میں موجود ہوتے ہیں، مگر کھل کر انھیں سریت کہا جا سکتا کیونکہ سِرِّیَّت بلوچی میں ایک گالی ہے۔ بلوچستان میں کئی لوگ پائے جاتے ہیں، جنھوں نے چوری چھپے شادی کی، یا کہیں ناجائز تعلقات رکھے، اس دوران بچے بھی پیدا ہوئے ، مگر اس شخص کے خاندان نے اس تعلق کو قبول نہیں کیا۔ بہت سے امیر زادے ، نواب، وڈیرے، سردار، بلوچستان کے میر و پیر، جاگیر داروں کے سریت پائے جاتے ہیں، جو کھل کر دنیا کے سامنے نہیں آتے، حتی کہ ان کے والدین، بہن بھائی اور رشتہ دار بھی اس سے بےخبر ہوتے ہیں، بہ مشکل دنیا کے سامنے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے لوگ جو سریت رکھتے ہیں، ان کا ٹھکانہ اکثر ایسی جگہوں پر ہوتا ہے جہاں پر ان کا کوئی واقف کار نہیں ہوتا، وہ لوگ وہاں رازداری سے زندگی گزارتے ہیں ۔

سریت معاشرے میں اکثر عام طور کسی اجنبی نام یا ٹائٹل کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ سریت اکثر جاگیر دارانہ سوچ رکھنے والی خواتین ہوتی ہیں جن پہ ان کے محبوب سب کچھ لٹا دیتے ہیں۔ زمین، جاگیر، مال متاع سب سریت کی دہلیز پہ میسر ہوتا ہے، حتی کہ جائیداد تک میں حصہ دیا جاتا ہے، کہیں سے انکار ہو تو بعض اوقات سِرِّیَّت بلیک میل کرکے جائیداد میں اپنے ناجائز بچوں کا حصہ لے لیتی ہیں۔ بعض اوقات سریت کی اولادیں اپنے ناموں کے آگے میر ،پیر ،سردار کا لیبل لگا کر معاشرے میں پر سکون زندگی گزارتی ہیں۔

سریت کی کئی اقسام دنیا میں پائی جاتی ہیں، کبھی کنیز کی صورت میں، کبھی غلام کی صورت میں، کبھی لونڈی کی صورت میں،کبھی گرل فرینڈز کی صورت میں. ان سے بچےبھی پیدا ہوتے ہیں، یہ بچے بڑے ہوتے ہیں، تو دنیا کے سامنے اپنا اعلی مقام پیدا کرنے کے لیے کسی نہ کسی شخص کو اپنے باپ کا نام تک دیتے ہیں۔ باپ تو کاغذ کے ٹکڑوں پہ آ جاتا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ سریت بننے والا طعنہ پوری زندگی چلتا رہتا ہے۔ بلوچستان میں کئی لوگ سِرِّیَّت رکھتے ہیں، مگر ان کو ایسی جگہ پر ٹھکانہ بنا کر دیا جاتا ہے جو سِرِّیَّت کے رشتے داروں کے لیے بھی نامعلوم ہوتا ہے ۔

سریت بلوچستان کے سرداروں، نوابوں، میروں، پیروں نے پال رکھے تھے، اور اب تک سلسلہ چل رہا ہے. ہمارے ارد گرد ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن کو سریت کہہ سکتے ہیں مگر اس کی ہمت کوئی نہیں پاتا. کسی پیر میر یا سردار زادہ کی اولاد کو سِرِّیَّت نہیں کہا جا سکتا. بلوچ معاشرے میں سریت کا تصور موجود تو ہے مگر کسی اہل قلم کو اس پہ لکھنے کی اجازت نہیں ہے. کوئی لکھنے کی جرات کرتا ہے تو اگلے دن اس کی لاش کسی چوراہے پر ملتی ہے. بہت سے اہل قلم نے سرداروں اور میروں کے خوف سے لکھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ بلوچستان کے کالم نگار طاقتور اسٹبلشمنٹ کے خلاف کھل کر لکھنے میں دیر نہیں کرتےمگر سِرِّیَّت کے موضوع پر کچھ لکھنے سے خوف کھاتے ہیں، اس لیے اس پر بہت کم قلم اٹھایا گیا ہے۔ اس کا مطلب خود کو معاشرے کے سامنے موت کے منہ میں دھکیلنا ہوتا ہے۔

بلوچستان کے ہر طبقے کے امرا کا سِرِّیَّت پایا جاتا ہے. یہ صرف جاگیرداری سماج ہی میں نہیں بلکہ صنعتی اور شہری سماج میں بھی پائی جاتی ہے۔ بعض لوگ خفیہ نکاح کے نام پر یہی کھیل کھیلتے ہیں، اور پوری زندگی اسی طرح گزارنے پہ مجبور ہوتے ہیں۔ اس موضوع پر بات ہونی چاہیے، اور اس سے چھٹکارے کی سبیل نکلنی چاہیے. ایسا کرنے والے ایک دوسرے کو دنیا کے سامنے اپنائیں، اس کے لیے نکاح کا جائز راستہ اختیار کریں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے مسلمان بھائیوں کو سِرِّیَّت ے بجائے نکاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ ناجائز اولاد کے بجائے ایک جائز اولاد کو جنم دے سکیں۔

Comments

Click here to post a comment