ہزار روپے میں، مرسیڈیز کون لے گا؟ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے.
پچھلے 24 گھنٹوں میں امریکی سٹاک ایکسچینج میں خون بکھرا پڑا ہے. Nvidia کے حصص ایک دن میں 600 ارب ڈالرز سے زیادہ کے گرے ہیں (پاکستان کا سارا قرض 150 ارب ڈالرز سے کم ہے)، اوورآل بین الاقوامی مارکیٹ سے ڈیڑھ ٹرلین ڈالرز صاف ہوگیا ہے. پچھلے دس دن میں چینیوں نے امریکیوں نے، اور OpenAI کے کھربوں ڈالرز کے خواب کو چکنا چور کر دیا! انہوں نے ChatGPT جیسے طاقتور AI ماڈل کو صرف 1/100 لاگت میں تیار کر لیا ہے۔ ایک دم ڈریگن نے انکل سام کو دھوبی پٹڑا مارا ہے.
میری نظر میں یہ دنیا میں کسی بھی پروڈکٹ کا سب سے بڑا ہارڈ لانچ ہے، جس کی سلامی 1500 ارب ڈالرز سے زائد ہے، ایک ایسی خبر جس نے ٹرمپ کی صدارت کو پانچ دن میں گہنا دیا. یہ پیش رفت ڈاٹ کام کریش جیسے تاریخی مارکیٹ حادثے کو جنم دے سکتی ہے۔ ڈیپ سیک کا "r1" ماڈل: GPT کو پیچھے چھوڑنے والا چینی چیلنج ہے. یہ نہ صرف GPT سے تیز اور ہوشیار ہے، بلکہ کثیرالمقاصد بھی۔
پانچ سال تک AI دنیا کا ایک ہی نعرہ تھا:
"طاقتور AI کے لیے دیوہیکل وسائل چاہییں!"
—کروڑوں ڈالر، ہزاروں ماہرین، فٹ بال گراؤنڈ جتنے ڈیٹا سینٹرز۔ مگر اب یہ نظریہ دھڑام سے گر چکا ہے۔ اوپن اے آئی نے اربوں خرچ کرکے سپر کمپیوٹرز اور ذہین ترین دماغ جمع کیے۔ مگر اب ایک چینی ماڈل نے اسی ماڈل کو "چائے کے ریٹ" میں پیش کر دیا ہے۔ یوں سمجھیں کہ آپ ایک لاکھ ڈالرز کی مرسیڈیز لینے جائیں اور وہاں سے آپ کو ہزار روپے میں اسی کا متبادل مل جائے. یہ محض لاگت میں کمی نہیں، بلکہ AI کی معاشیات کو الٹ دینے والا دھماکہ ہے۔ تبھی لندن، نیویارک، ہانگ کانگ کے سٹاک ایکسچینجوں میں زلزلہ آیا ہوا ہے.
کیوں؟ لگتا ہے کہ 2000 کی ڈاٹ کام کریش والی کہانی اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ اس وقت انٹرنیٹ کی دوڑ میں کمپنیوں نے انفراسٹرکچر پر اربوں لُٹا دیے۔ نتیجہ؟ Webvan جیسی کمپنیاں دیوالیہ، کھربوں ڈالر کا نقصان۔ وجہ سادہ تھی: رسد نے طلب کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ آج AI کی دوڑ اسی راستے پر—مگر دس گنا تیزی سے!
پنڈتوں کے مطابق AI انڈسٹری کو 600 ارب ڈالر کا ریوینیو چاہیے۔ حقیقت میں کتنا چاہیے؟ صرف 60 ارب ڈالر۔ یہ خلیج نہیں، بلکہ خلا ہے۔ اور اب یہ سستا AI ماڈل پورے کاروباری ماڈل کو زمین بوس کر سکتا ہے۔
• بڑے ڈیٹا سینٹرز؟ اب بے کار۔
• مہنگے ہارڈویئر؟ فضول خرچی۔
اے آئی اسٹاک کی بلند ویلیوایشنز؟ ہوا میں قلعے ۔
ڈیپ سیک کی آمد سے پہلے، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی پوری معیشت "مصنوعی قلت" پر کھڑی تھی:
"صرف امیر ترین ہی AI بنا سکتے ہیں۔"
مگر اب یہ قلت ختم۔ نتیجہ؟ بلبلہ پھٹنے کو تیار۔
ٹائم مشین میں جھانکیں: 2000 کے بعد جب انٹرنیٹ بلبلہ پھٹا، تب Amazon جیسی کمپنیوں نے حقیقی مسائل حل کیے۔ اب AI کی دنیا میں بھی یہی ہوگا:
• بجائے بڑے ڈیمو کے—عملی استعمال
• بجائے بڑے ڈیٹا کے—معیاری ڈیٹا
• بجائے کلاؤڈ کے—مقامی ڈیوائسز پر AI
ویب 4 کا جنم:
یہ نئی جنریشن ہوگی:
✓ سستے مگر مؤثر AI ماڈلز
✓ مرکزی نظاموں کی بجائے پھیلے ہوئے نیٹ ورکس
✓ ڈیٹا کی کوالٹی سے پیدا ہونے والی حقیقی قدر
پچھلے 10 دن میں سرمایہ کاروں کی آنکھیں کھلی ہیں: مارکیٹ 1500 ارب ڈالرز کا غوطہ کھا چکی ہے. سو لگتا ہے کہیہ بلبلہ ضرور پھٹے گا۔ مگر جیسے 2000 کے بعد حقیقی انٹرنیٹ انقلاب آیا، اے آئی بھی اپنی اصل شکل میں ابھرے گا—عملی، سستا، اور سب کی پہنچ میں۔ ٹیکنالوجی کا چکر ہمیشہ یہی رہتا ہے: ہائپ → کریش → پھر حقیقی انقلاب۔
کامیاب وہی ہوگا جو:
✘ خیالی اعدادوشمار پر نہیں
✓ روزمرہ کی حقیقی ضرورتوں پر توجہ دے اور اصلی مسائل کا حل پیش کرے.
اے آئی کی یہ لہر آپ کو یا تو موجوں پر سُوار کرے گی. یا پھر بلبلہ پھٹتے ہی چٹان سے ٹکرا دے گی۔ آپ کی باری—اب سوچیں، پھر چلیں۔
تبصرہ لکھیے