600x314

کیا انجینئر محمد علی مرزا رینڈ کارپوریشن کا فرنٹ مین ہے؟ – شیراز حسن

مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب سے میرے استفادے کی عجیب داستان ہے ۔ مجھے دار العلوم دیوبند میں صرف ایک سال (دورۂ حدیث) پڑھنے کا موقع ملا ۔

اس وقت میں مولانا ندیم الواجدی صاحب رح سے تو واقف تھا لیکن ان کے قابل فرزند مفتی یاسر ندیم الواجدی سے انجان تھا جو شاید ان دنوں بھی سرحد پر کھڑے اسلامی نظریات پر پہرہ دے رہے ہوں ۔ حتی کہ فراغت کے بعد جب موصوف کا چند ایک ویڈیوز کے ذریعے تعارف ہوا تو حاشیۂ خیال میں بھی نہ آیا کہ یہ ہمارے محبوب قلمکار (مولانا ندیم الواجدی) کے لخت جگر ہیں۔یہ وقوف جہلی اس حد تک بڑھا کہ ایک بار دیوبند کے کسی کتب خانہ میں خریداری کے لئے کتابیں دیکھتے ہوۓ، نگاہ انتخاب ایک نادر العنوان کتاب ‘ گلوبلائزیشن اور اسلام’ پر ٹھہر گئی ۔ کتاب کو مصنف (مفتی یاسر ندیم الواجدی )کے نام سے قطع نظر ،اپنے ندرت مضمون کی بناء پر ہی خرید کر لے بھی آیا .

بالاستیعاب پڑھ بھی لیا حتی کہ جمعہ میں بعنوان "حالات حاضرہ اور اسلام کو در پیش مسائل ” تقریر کرکے اپنی زمانہ شناسی کی دھاک بھی بٹھا ڈالی ۔ لیکن مجال ہے کہ دماغ کا کوئی گوشہ بھی اس جانب ٹریگر ہوا ہو کہ ٹائٹل پر منقوش نام انہی مفتی یاسر کا ہے جن سے ویڈیوز میں استفادہ ہورہا ہے ۔ پھر وہ کتاب جب ہمارے بڑے بھائی سید حیدر حسن کے ہاتھ لگی تو انہوں نے یہ اطلاع دی کہ اس کے مصنف اپنے مفتی یاسر صاحب ہی تو ہیں جسے سن کر ہم سر کھجانے کے سوا کیا کر سکتے تھے ۔

لیکن ابن ندیم الواجدی ہونے کی اطلاع ایک اور عظیم یافت تھی جو اتنی ہی بڑی شرمندگی کا باعث بنی ۔ ہوا یوں کہ ہم ایک بار جانِ بہاراں أشرف العلوم گنگوہ میں حاضر ہوۓ ، کئی اساتذہ سے مل ملا کر ہر دلعزیز استاذ اور معروف قلمکار مفتی ساجد کھجناوری صاحب کے دولت کدے میں فروکش ہوۓ تو رسمیات کے بعد استاذ محترم نے ہمارے علمی مشاغل کے متعلق استفسار کیا ۔ ہم نے منجملہ دیگر مشاغل کے مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب کی ویڈیوز سے استفادے کا بھی تذکرہ کردیا ۔ استاذ محترم نے ان سے نہ صرف واقفیت کا اظہار کیا بلکہ مواصلاتی رابطے کے بارے میں بھی بتایا ۔

ہم جلدی میں پوچھ بیٹھے کہ حضرت آپ ان کو کیسے جانتے ہیں ؟ ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ ،استاذ محترم کے قلمی دوست مولنا ندیم الواجدی صاحب ہی کے بیٹے ہیں ، مفتی صاحب نے جب دبی دبی سی حیرت سے ہمیں بتایا تو ہم تو کھجیا کر رہ گئے ۔ ہم انہیں کیا بتاتے کہ ہم جن سے استفادہ کررہے ہیں ان کے نام نامی میں ولدیت کے لاحقے کے باوجود یہ ہی نہیں سمجھ سکے کہ وہ ہمارے معروف مصنف (مولانا ندیم الواجدی رح )کے دلبند ہیں!

مفتی صاحب بلاشبہ ایک عظیم باپ کے قابل فرزند ہیں، جن کی صلاحیتوں کی جلا بخشی میں لاریب بر صغیر کے قدیم طرز تعلیم کا بھی بڑا کردار ہے، لیکن پریزنٹیشن کا جو جدید آہنگ ان کی دعوت نے پایا ہے، اس پر عصری اداروں کی چھاپ بھی کسی دقتِ نظر کے بغیر محسوس کی جاسکتی ہے۔ جدید و قدیم کی اسی جگل بندی نے ان کی شخصیت کو مجمع البحرین بنارکھا ہے۔ ایک طرف گم کشتگانِ راہ کا انبوہِ عظیم ہے جو ایک داعی کی خرد افروز آواز پر اپنے فکر و عمل کی سمت سیدھی کررہا ہے تو دوسری طرف مدارس کی روایتی مذہبیت ہے جو نقشِ پائے یار میں نشانِ منزل تلاش کررہی ہے ۔یہ دوہری ذمہ داری ہے جس کا بوجھ مفتی صاحب اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھاۓ راہِ عمل میں گامزن ہیں ۔

دوہری ذمہ داری کبھی بھی آسان نہیں ہوتی ، بالخصوص جبکہ وہ کارِ شیشہ و آہن ہو ۔ لاریب کہ مفتی صاحب اپنے علم، مطالعہ اور قدرتِ کلام کے لحاظ سے غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں اور ان صلاحیتوں سے بہت حد انصاف بھی کررہے ہیں لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا وہ دو مختلف المزاج اور متباین الطبع طبقوں کی توقعات کا محور ہیں۔ عوام الناس اور ان میں بھی بالخصوص عقل گزیدہ لوگوں کی دعوت کے تقاضے الگ ہیں جن سے مطابقت بٹھانے میں بریشم کی طرح نرمی و ملائمت کا استعارہ بننا پڑتا ہے جبکہ روایتی نفسیات کی ڈیمانڈ بالکل مختلف ہے جس کی تعمیل الگ قسم کے رویوں کو تحریک دیتی ہے ۔ یہاں نرمی، ہمدردی اور خیر خواہی جیسے جذبات کا گزر کوسوں دور سے ہوتا ہے۔ سوء ظن ، فتوی اور بالآخر اخراج ہی وہ تدریجی وحدت ہے جو یہاں عمل کا لائحہ ٹھہرتی ہے ۔

مفتی صاحب کی دعوتی اپروچ میں ان دو مختلف قسم کے رویوں کا اجتماع ایک محسوس حقیقت ہے جو بتدریج ان کی شخصیت میں وجود پزیر ہوئی ہے ۔ ہمارا مفتی صاحب کو سننے کا دورانیہ سالوں پر محیط ہوچکا ہے ۔ ہم نے اپروچ کا یہ ارتقائی عمل بچشم سر دیکھا ۔ ایک وقت تھا جب مفتی صاحب، انجینئر محمد علی مرزا سے لیکر جاوید احمد غامدی صاحب تک سبھی کے لئے اچھے باتیں بول لیتے تھے ۔ ان سے اپنے اختلاف اظہار شائشتہ پیراۓ میں کردیتے تھے۔لیکن روایتی علماء میں بڑھتی مقبولیت کے ساتھ وہ اپنا یہ ٹمپرامنٹ کھوتے جارہے ہیں۔

اب وہ اپنی اسٹریمز میں آنے والے ان ملحدین، سیکولرز اور لبرلز سے آدابِ اختلاف برت سکتے ہیں جو اپنی شناخت کردار اور کارناموں کے لحاظ سے گمنام ہوں لیکن جو طبقہ روایتی علماء کا مطعون ہوکر فتوے کی زد میں آچکا ہو ، مفتی صاحب کے تمسخر استہزاء اور فتوے سے بچ کر نہیں جاسکتا، بھلے ہی وہ دامنِ اعمال میں دینِ الہٰی کی کچھ نہ کچھ مثبت خدمات کا توشہ رکھتا ہو ۔جیسا منہ ویسا تھپڑ ، معاملات کی دنیا میں بھلے ہی قیاسی سا لگتا ہو مگر دعوتِ دین کے طریقِ کار میں اسکی کوئی عقلی جگہ نہیں بنتی ۔ دعوتِ دین کا اخلاقی اصولوں سے عاری ہونا نہ صرف یہ کہ دعوتی فوائد سے محرومی کا باعث ہے بلکہ اصحابِ دعوت کی شامت کردار کا موجب بھی ہے جو پھیل کر سوء عاقبت پر بھی منتج ہوسکتا ہے .

یہاں یہ صاف کردینا ضروری ہے کہ مفتی صاحب اپنی دعوت علمی طور پر کن اصولوں پر استوار کریں ، اسمیں میرے جیسے ناقص العلم بندے کے مشورے ان کسی کام کے نہیں ۔ وہ اپنے مطالعے اور تجربات کی روشنی میں بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کب برہانِ عقلی کو استعمال کرنا ہے اور کہاں چراغ فطرت کی لو جلانی ہے ، میں جن اصولوں کا ذکر کررہا ہوں وہ عالمگیر اخلاقی مسلمات ہیں جو ہر شخص کی فطرت میں ودیعت ہیں ۔ جنکا اعجازی بیان ہادیْ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مختصر فرمان” لایؤمن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ” میں پوری شان کے ساتھ موجود ہے ۔

ویسے بھی مفتی صاحب جیسے فہم و فراست کے حامل، عالم دین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ الزام تراشی اور منفی پروپیگنڈا سے پیدا شدہ اثر کی عمر کچھ بہت نہیں ہوتی ۔ انسانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت غوغا پسند ہوتے ہے جو اس طرح کے پروپیگنڈا سے متاثر ہوکر شور مچاتی ہے ۔ اس شور و غوغا کا وقتی اثر اتنا سحر انگیز ہوتا ہے کہ نشہ پلاکر گرانے والے کے نتھنوں تک جا پہنچتا ہے اور میخانے کی آنکھ ساقی کے گرنے کا تماشا کرتی ہے ۔ زیادہ وقت نہیں گزرتا کہ نشہ ہرن ہوتا ہے اور حقائق اپنی سابقہ صورت میں موجود ہوتے ہیں !