ہوم << اسلامیات کے اساتذہ اور طلبا کے نام اہم پیغام . ڈاکٹر جمیل اختر

اسلامیات کے اساتذہ اور طلبا کے نام اہم پیغام . ڈاکٹر جمیل اختر

اسلامیات کے شعبے سے وابستہ تمام اساتذہ اور طلبا کے لیے ایک اہم اور تلخ حقیقت پر مبنی پیغام دینا چاہتا ہوں، جسے اگر مثبت انداز میں لیا جائے تو اس سے پاکستانی تحقیقی ماحول کو بہتر بنانے میں راہنمائی مل سکتی ہے۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ یہ بات کہنا آسان نہ ہو گا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سچائی کو نظر انداز کرنا اسلامیات کے شعبہ کے لیے انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

بات یہ ہے کہ پاکستان بھر میں اسلامیات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ریسرچرز کی مجموعی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگایا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنی یونیورسٹیز میں لکھے جانے والے تھیسز اور مقامی تحقیقی جرائد میں شائع ہونے والے مقالات کا جائزہ لیں تو اس تنقید کو مکمل طور پر ردّ نہیں کیا جا سکتا۔ اس تحقیقی بحران کی بہت سی وجوہات میں سے چند اہم وجوہات یہ بھی ہیں کہ:

1.ہمیں ریسرچ میتھڈالوجی کے بنیادی اصولوں کی بجائے محض "کاپی پیسٹ" کے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ طلبا کو سرقہ (پلیجرازم) ختم کرنے کے طریقے تو بتائے جاتے ہیں، لیکن اوریجنل سوچ اور تحقیقی اصولوں کی تربیت نہیں دی جاتی۔

2.طلبا کو تحقیقی مقالات کے ابسٹریکٹ (خلاصہ) لکھنے کے بنیادی نکات تک نہیں سکھائے جاتے۔ اگر کوئی ایسی اسائنمنٹ دی بھی جائے تو اس پر سنجیدگی سے کام کروانے کی بجائے، جیسی بھی تیار ہو جائے، اسے من و عن قبول کر لیا جاتا ہے اور طلبا کو سکھانے کے لیے ان کی کوئی اصلاح نہیں کی جاتی۔ اسی وجہ سے نہ طلبا کچھ سیکھتے ہیں اور نہ ہی ان کی غلطیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔

3. بدقسمتی سے، ہمارے شعبہ جات میں تحقیقی اخلاقیات (research ethics) کو سرے سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ طلبا اور اساتذہ دونوں کو یہ تربیت نہیں دی جاتی کہ تحقیق میں ایمانداری، اور شفافیت کو کیسے یقینی بنایا جائے۔
اس تحقیقی بحران کے اثرات نہ صرف طلبا بلکہ ہمارے پورے تحقیقی نظام پر ظاہر ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ

4. جب ہمیں بین الاقوامی کانفرنسز یا جرائد کے لیے ابسٹریکٹ لکھنا ہوتا ہے تو ہمیں یہ علم نہیں ہوتا کہ اسے کس طرح لکھا جائے اور کن امور کا خیال رکھا جائے۔ اسی وجہ سے ہماری درخواستیں بار بار مسترد ہو جاتی ہیں۔

5.چونکہ ہم نے کاپی پیسٹ کرنے کی عادت ڈال لی ہے، اس لیے ہمارے مقالات مقامی جرائد میں تو شائع ہو جاتے ہیں، لیکن بین الاقوامی معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہتے ہیں۔

6. بین الاقوامی سطح پر ناکامی کے بعد، ہم نقلی (کلون، فیک) جرائد میں اپنے مقالات شائع کروانے لگے ہیں، جو ہمارے شعبے کی مزید بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔

7. اگر آپ آج ہی پاکستان کی تمام یونیورسٹیز میں اسلامیات پڑھانے والے موجودہ اساتذہ کی ایک فہرست تیار کریں اور ان میں سے دیکھیں کہ کتنے اساتذہ کے آج تک بین الاقوامی سطح پر اوریجنل ریسرچ جرنلز میں پیپرز شائع ہوئے ہیں تو بلا مبالغہ بتا رہا ہوں کہ آپ کو سینکڑوں کی فہرست میں دس سے زیادہ نام نہیں مل سکیں گے۔

میری کسی کی دل آزاری مقصود نہیں، بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ ہم سب مل کر اپنے شعبے کی اصلاح کی کوشش کریں۔ ہم بطور اساتذہ اور طلبا تحقیق کے اصولوں کو سنجیدگی سے سیکھیں اور طلبا کو اس کی مکمل تربیت دیں۔ ایمانداری اور شفافیت کو اپنی تحقیق کا حصہ بنائیں۔ اپنے خیالات کو اوریجنل انداز میں پیش کریں۔ روایتی مباحث سے نکل کر جدید مسائل پر تحقیق کریں۔

ہم اسلامیات والوں کے پاس سب سے بڑا بہانہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری ریسرچ بین الاقوامی جرنلز نہیں چھاپتے، ہماری فیلڈ کے بین الاقوامی جرنلز کی تعداد ہی بہت کم ہے۔ آپ یقین مانیں کہ یہ سب بہانے ہیں جبکہ حقیقت میں ہماری فیلڈ کے سینکڑوں کی تعداد میں بین الاقوامی ریسرچ جرنلز موجود ہیں، اور اسلامیات کی فیلڈ میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، بے شمار ایسے موضوعات ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر آپ جدید مسائل کو حل کرنے کے لیے علمی انداز سے اپنا قلم اٹھائیں گے تو یقین مانیں کہ دنیا اب بھی اسلامیات والوں کی ریسرچ کو پڑھنے اور اسے شائع کرنے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ وہ معیاری ہو۔ لہذا، بین الاقوامی جرائد کی ضروریات کو سمجھیں اور اپنی تحقیق کو اس معیار پر پورا اتارنے کی کوشش کریں۔

صرف رغبت دلانے کے لیے بتانا چاہوں گا کہ 2024 میں میرے پانچ تحقیقی چیپٹرز (book chapters) ترکی، ملائیشیا، اور امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں کے پروفیسرز کی کتابوں کا حصہ بنے۔ میں نے "مدر ملک بنک" کے موضوع پر ایک مضمون web of sciences کے ایک بین الاقوامی ریسرچ جرنل کو بھیجا، جو دو ماہ میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ قبول کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ میری کچھ تحقیقی کتب شائع ہوئیں جن میں سے ایک کتاب کو صدارتی ایوارڈ/قومی سیرت ایوارڈ بھی ملا۔

بطور اساتذہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور اپنے شعبے کی عزت کو بحال کرنے میں کردار ادا کریں۔اگر ہم خود کچھ نہیں کر سکے، تو کم از کم اپنی نسل کی فکر کریں۔ دعا ہے کہ ہم ایسی نسل تیار کر جائیں جو تحقیق کے میدان میں پاکستان کا نام روشن کرے۔ (آمین)