ہوم << ادب، ڈرامہ اور معاشرتی اقدار - ظفراللہ

ادب، ڈرامہ اور معاشرتی اقدار - ظفراللہ

ظفراللہ سید مودودی نے کہا تھا کہ: معاش کے لیے کوئی ادب پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ آدمی معاش کے لیے اینٹیں ڈھولے. لیکن المیہ دیکھیں کہ جن کو پتھر ڈھونا تھے، وہ آج ادیب کہلاتے ہیں اور میڈیا میں اپنی تخلیقات کے ہتھوڑے سے معاشرتی اقدار کو ڈھونے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ادب کا کیا فائدہ ہے؟ آخر ادب کیوں تخلیق کیا جاتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کے ادب کو کیوں پڑھا جائے؟ اور آج ادب کا طالب علم ادب کی بہتر تفہیم پیدا کرنے سے کیوں قاصر ہے؟
ادب دماغ ڈھالنے والی چیز ہے اور مسلمانوں کی فکری اصلاح میں ادب اور ادیب دونوں پیش پیش رہے ہیں. یہ سلسلہ نو آبادیاتی دور، اور اس کے بعد کبھی افراد اور کبھی تحریک کی صورت میں موجود دیکھائی دیتا ہے۔ اس کے بعد ادیبوں نے اپنے علاوہ ادب کا بھی قبلہ تبدیل کر دیا اور نتیجتا وہ معاشرے کے عام فرد سے دور ہوتے چلے گئے. عام فرد ادیب کے ساتھ ادب کو بھی خود کے لیے اجنبی تصور کرنے لگا، ادب زمینی نہ رہا بلکہ حقیقت سے فرار اختیار کرنے لگا. ادیبوں نے ادب اور معاشرے پر ظلم کیا کہ وہ مختلف ازموں کے پرچارک بن گئے اور فکری انتشار میں اضافہ کرنے لگے. آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ ادیب روس کے باقیات میں کچھ تلاش کرتے نظر آتے ہیں اور کچھ امریکہ سے انقلاب اور تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے ہیں. رہتے پاکستان میں ہیں مگر ذہنی طور پر پاکستان کو قبول کرسکے ہیں نہ سماج کو اور نہ اس سماج سے جڑی اقدار کو ۔
ادب کی ایک قسم وہ ہے جسے میڈیا کی سطح پر دیکھا جا رہا ہے. اس کا بیانیہ مادیت پرستی ہے۔ ان کی تخلیقات سے اسلامی تہذیب وتمدن کے بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں۔ آج جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اور تخلیق کار اپنی صلاحیتوں کو جس طرح بروئے کار لا رہے ہیں، اس پر صرف اظہار افسوس کیا جا سکتا ہے. اس قوم کی تہذیبی بربادی ادیب کوئی ردعمل دکھانے اور اس کا نوحہ لکھنے کے بجائے اس میں شریک ہے. لاجواب ڈراموں کی خالق اور ماہرنفسیات حسینہ معین نے اپنے انٹرویو میں آج کے ڈراموں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں :آج کا ڈرامہ ہماری تہذیب تباہ کر رہا ہے۔ ڈراموں کی سطح پر جو مادر پدر آزاد کلچر پروان چڑھایا جا رہا ہے،و ہ ہر گھر کی دہلیز پار کر چکا ہے. اس کا ادراک رکھنے والے بےحسی کی چادر اًوڑھے ہوئے ہیں۔ یہ دور چونکہ میڈیا کا ہے اور میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، ہمارے تخلیق کاروں کی سوچ صرف ایلیٹ کلاس یا برگر فیملی کی کہانی پیش کرنے میں اٹکی ہوئی ہے اور ان ڈراموں سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ پورے پاکستان کا مسئلہ گرل فرینڈز رکھنا اور ان کی ناز برداری کرنا رہ گیا ہے، ایک پاکستانی کی دوڑ لڑکی سے شروع ہوتی ہے اور لڑکی ہی پہ ختم ہوتی ہے. محبت بے شک ایک عظیم جذبہ ہے مگر اس کی بنت ایک خاص طبقے تک محدود رکھنا ادب اور ادیبوں کا المیہ ہے۔ اس دور کاسب سے بڑا کمال یا تضاد یہ ہے کہ ہم سیاہ و سفید میں تمیز کرنے سے محروم ہوگئے ہیں اور ہمارا ادب بھی فحاشی اور عریانیت کا ضمیمہ بن کر رہ گیا ہے اور جب کسی معاشرے میں بداخلاقی اور فحاشی قانون توڑ رہی ہو اور اس سیل ِبد کے آگے بند نہ بندھا جا رہا ہو تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب یہ معاشرہ روبہ زوال ہے۔ پھر اس معاشرے کی بہتری کے لیے کوئی بھی ریورس گیئر نہیں لگتا اور پھر اس معاشرے کو اپنی قدرتی موت مرنا پڑتا ہے۔
جو ڈرامے آج بڑے اہتمام کے ساتھ دکھائے جا رہے ہیں اور ان کے ذریعے ہندوانہ یا بدیسی کلچر کو جس بیتابی سے پروان چڑھایا جا رہا ہے، اس سے سابق بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی کی اہلیہ سونیا گاندھی کی وہ بات یاد آ رہی ہے کہ ہمیں پاکستان کے خلاف جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم نے اپنی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے اسے ثقافتی طور پرفتح کر لیا ہے۔ اس بھیانک منظرنامے میں اصل سوال یہ ہے کہ اپنی تہذیبی و ثقافتی اقدار کی بقا کی جنگ ہم کس طرح لڑیں اور کس کے ساتھ لڑیں۔ سیاسی و مذہبی قیادت کو مختلف بکھیڑوں میں الجھایا گیا ہے، انھیں خود سے فرصت نہیں.

Comments

Click here to post a comment