مسئلہ کشمیر پہ ان دنوں بحث جاری ہے، سوچا اپنی رائے لکھوں لیکن ہاتھ کھینچ لیا اور مولانا شیرانی کی کتاب پڑھنے لگا. مولانا شیرانی اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟ 1990 میں انہوں نے پارلیمنٹ میں ایک خطاب کیا جس کا عنوان ہے کشمیر مسئلہ کس کا ہے ؟ ان کی چند باتیں لکھ رہا ہوں، امید ہے کہ اس پہ مثبت بحث ہوگی، فقط فتوی بازی نہیں کی جائے گی.
مولانا شیرانی پارلیمنٹ کے فلور سے صدا بلند کرتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کس کا ہے؟ آیا یہ مسئلہ پاکستان کا ہے یا کشمیریوں کا؟ مولانا کہتے ہیں کہ ہم اس کے دوحصے کرتے ہیں؟ کشمیر محل وقوع کے اعتبار سے دریاؤں کا سرچشمہ ہے، اگر کشمیر ہندوستان سے الحاق کرتا ہے تو پنجاب اور سندھ بنجر ہوجائے گا. دوسرا معدنیات، ٹورازم اور جنگلات کی وجہ سے اس میں معاشی پہلو بھی ہے. اس چیز کو دیکھا جائے تو کشمیر مسئلہ پاکستان کا ہے. دوسرا حصہ ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے. ان کا حق ہے کہ وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں کہ انہوں نے الحاق کرنا ہے یا آزاد رہنا ہے؟ مولانا شیرانی کہتے ہیں کہ اگر یہ مسئلہ ہمارا ہے تو پھر پوری قوم کو جہاد کےلیے نکلنا چاہیے، چند لوگوں کو ٹھیکدرا نہیں بننا چاہیے. اگر کشمیریوں کا ہے تو پھر جہاد کے بجائے ہر جمہوری بندے کو اس کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے، پھر خون کشمیری دیں اور جمہوری آواز ہر جمہوری بندہ بلند کرے کہ آزادی ہر ایک کا حق ہے.
مولانا مزید سوال اٹھاتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر الجھا کیسے؟ اور اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ جب تقسیم ہو رہی تھی تو اس وقت یہ طے پایا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان بنے گا. اس اصول کی رو سے علاقے کے تشریح صوبے سے کی گئی، اس تشریح کے مطابق پورا پنجاب اور بنگال پاکستان کا تھا. اگر پنجاب پورے کا پورا پاکستان بنتا تو آج ہمارے لیے یہ مسئلہ نہ بنتا. جب یہ تشریح کی گئی تو دو خواہشات سامنے آئیں، ایک ہندوؤں کی اور دوسرا انگریزوں کی.
ہندو سمجھ رہا تھا کہ اگر اس تشریح کو مان لیں گے تو تمام اقتصادی مراکز پاکستان کے حصے میں آجائیں گے. جتنے پانی کے ہیڈورکس ہیں وہ بھی پاکستان کے حصے میں آجائیں گے اور کشمیر سے ہمارا راستہ کٹ جائے گا، یوں ہندوستان پاکستان کے سامنے سوالی ہوگا لہذا ہمیں اس تشریح کو توڑنا چاہیے. یہ ہندوؤں کی خواہش تھی.
ایک خواہش انگریز کی بھی تھی. انگریز سمجھ رہا تھا کہ تقسیم کے بعد ہندوستان ایسی سیاست کے ہاتھ لگے گا جو اپنی قوم اور ملک سے مخلص ہوگی جبکہ دوسری طرف قائد کے ہاں کھوٹے سکے تھے جب ہندوستان معاشی لحاظ سے مضبوط ہوگا اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی تو وہ ہمیں آنکھیں دکھائے گا، دنیا پہ حکمرانی کا خواب دیکھے گا کیوں نہ ان کے راستے میں ایسا روڑہ اٹکا دیا جائے جو ان کے پائوں کی زنجیر بن جائے. انگریزوں نے کشمیر کو ہمیشہ کے لیے ان کے گلے کی ہڈی بنا دیا. انگریز کی سوچ تھی کہ پاکستان بن جانے کے بعد جب یہاں اسلام نہیں ہوگا تو لوگ ہندو دشمنی کی بنیاد پہ نہیں لڑیں گے کیوں نہ اقتصادی لحاظ سے ان پہ ایک ایسا خطرہ رکھا جائے جو جنگ کا سبب بن سکے. کل کو جب بھی جنگ کروانی ہو تو مذہبی بنیادوں پہ نہ سہی اقتصادی بنیادوں پہ جنگ کروائی جاسکے. یوں ہماری سیاسی قیادت نے علاقے کی تفسیر صوبے سے کرنے کے بجائے نیچے آنے کو ترجیح دی. افسوس کہ علاقے کی تفسیر ضلع سے بھی نہ کی. اگر ضلع سے کرتے تو گورداسپور کا پورا ضلع پاکستان ہوتا، اگر ایسا ہوجاتا تو کشمیر کا ہندوستان سے راستہ کٹ جاتا لیکن اس سے بھی نیچے آئے اور انہوں نے فیروز پور اور شکرگڑھ کا بھی سودا کر لیا یوں ہماری سخاوت نے یہ مسئلہ آج تک الجھا کے رکھا ہوا ہے.
پھر پاکستان بن جانے کے بعد جب قبائلیوں نے وہاں جنگ کی تو بھارت اقوام متحدہ میں چلا گیا. بھارت جب گیا تو پاکستان بھی اقوام متحدہ میں جا کے فریق بن گیا. جس وقت پاکستان فریق بنا اس وقت کشمیر میں ایک عارضی حکومت بھی تھی اور اس کی فوج بھی، بجائے اس کے کہ کشمیریوں کو فریق بنایا جاتا ہم خود بن گئے، اس کے دو نقصان ہوئے، ایک کشمیریوں کا اعتماد کھو دیا اور دوسرا کشمیر کو متنازعہ بنا دیا. اب پاکستان اگر پیش قدمی کرتا ہے تو بھارت پکار اٹھتا ہے کہ ہم کشمیر کو تو بھول گئے. یاد کریں 65 کی جب جنگ ہوئی تھی تو وہ جنگ کشمیر میں ہونے کے بجائے لاہور میں لڑی گئی اور ہم نے لاہور بچانے کے لیے معاہدہ تاشقند کیا. سچ یہ ہے کہ ہم نےسو کروڑ کے بدلے تین دریا فروخت کیے، ستلج بیاس اور راوی. یہ ہمیں فائدہ ہوا.
مولانا شیرانی کہتے ہیں کہ جنگ دو اسباب سے جیتی جاتی ہے، عقیدے کی بنیاد پہ یا اسلحے کی برتری کی بنیاد پہ. ہم نہ عقیدے میں ایک ہیں اور نہ ہی اسلحہ رکھتے ہیں. ہم خود بھیک مانگتے ہیں. بھیک مانگنے والی قوم کو جذباتی ہونے کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے.
یہ باتیں ہیں مولانا شیرانی کی جو انہوں نے 1990ء میں کی تھیں. افسوس اب تک بدلا کچھ نہیں ہے. مولانا شیرانی کاتجزیہ غلط ہے یادرست اس پہ بحث ہو سکتی ہے لیکن انہیں گالیاں دینا اور فتوے لگانا انصاف نہیں ہوگا. اگر کوئی ان کی باتوں کو دلیل کی بنیاد پہ رد کرنا چاہے تو مجھے خوشی ہوگی....
تبصرہ لکھیے