آج دوستوں سے بات ہوئی تو بتایا گیا کہ مسجد کے نوجوان امام صاحب تبدیل کیے ہیں. بہت عام سی بات لیکن مجھے لگا کہ جیسے کہہ رہے ہوں کوئی چیز بدلی کی ہے. تب سے طبیعت شدید بوجھل ہے.
دیہات میں امام مسجد کی ذمہ داری انتہائی حساس اور مشکل ہے. حساس اس طرح کہ بالکل ابتدائی سطح پر تعلیم اور معلومات سے شروع کرنا ہوتا ہے، اور اس کے لیے امام مسجد کو بہت حکمت اور علمی مہارت درکار ہوتی ہے کہ لوگوں کو افراط و تفریط سے بچا کر دین کی اصلی روح سے روشناس کروایا جا سکے. اور مشکل اس طرح کہ لوگ امام مسجد کو بھی ذاتی ملازم سمجھ کر رکھتے ہیں، مسجد اللہ کے گھر سے زیادہ چند اشخاص کی ذاتی ملکیت یا مسلک کی نمائندہ ہوتی ہے. ایسے ماحول میں ایک عالم اور امام مسجد کے روز مرہ معمولات تو درکنار اس کا سانس لینا تک مشکل کر دیا جاتا ہے، لوگ اس کے ہنسنے مسکرانے تک پہ نقد کرتے پاۓ جاتے ہیں. سلام ہے ان نوجوان علما کو جو چند ہزار روپے میں صرف اور صرف اللہ کے دین کی خدمت کے جذبے سے انتہائی مشکل حالات میں گزارا کرتے ہیں. جن کو گھر میں اولاد بھی غیر ضروری سمجھتی ہے، ان کا رعب اور زور بھی مولوی صاحب پر چلتا ہے اور وہ بے چارہ اف کہے بغیر ہنس کے سب سہہ جاتا ہے.
یہاں پر چند سوالات قابل غور ہیں. بطور معاشرہ یا سوسائٹی ہمارا رویہ کیا ہے؟ کیا ہم اپنی ذمہ داری پوری طرح سے نبھا رہے ہیں؟ کیا مسجد ہماری ترجیح ہے بھی یا نہیں؟ حکومت کو ان کی کچھ فکر ہے یا نہیں؟ سوسائٹی اور حکومتی سطح پر یہ بڑا موضوع ہے، اس پر بہت کچھ کہا اور سنا جا سکتا ہے، یا اور بہت سی نالائقیوں کی طرح اسے بھی عدم توجہی اور سیاست کہہ کر جان چھڑائی جا سکتی ہے.
آخر میں صرف مدرسہ اور اس کی پراڈکٹ عالم دین رہ جاتا ہے، اس پر بات کر لیتے ہیں کہ اس موضوع کا سب سے اہم کردار یہی ہے. صرف چند لمحوں کے لیے غور کیجیے کہ صبر و حلم کا یہ پیکر مدرسے کے پہلے دن سے زندگی کے آخری لمحوں تک اس شان سے جیتا ہے کہ ایک ایک کردار ہزار ہزار داستان ہے، اور اس میں معاشرے کے لیے صبر اور برداشت کا عظیم درس ہے. یہ عجز و انکسار کا ایسا ہمالیہ ہے جو ہمارے سروں پر علم و عمل کی چھاؤں کیے ہوۓ ہے. کیا کبھی کسی نے دیکھا کہ اپنے حقوق اور تنخواہ کے لیے سڑکوں پہ نکلے اور احتجاج کرتے پاۓ گئے ہوں یا سالانہ ترقی و وظیفہ کے لیے حکومتی املاک جلا رہے ہوں. ہم جیسے لوگ لاکھوں روپے میں تنخواہ لینے کے باوجود استعفے کی دھکمی ہر ماہ دہراتے ہیں اور ہر نئے کانٹریکٹ پہ نئے مطالبے لیے ہوتے ہیں، پھر بھی ہزار شکوے اور شکایتیں ہیں کہ ختم نہیں ہوتیں. اہل نظر و فکر سے درخواست ہے کہ علمائے کرام انبیا کے وارث اور ہمارا سرمایہ ہیں، ان کی قدر کریں کہ یہ آکسیجن ہیں جو زندگی کا متبادل ہے.
مسجد کے مولوی اور موذن کو جو مقام ملنا چاہیے ہمارے معاشرے کے بہت سے لوگ اسے وہ مقام نہیں دیتے مولوی کو عزت و احترام دینے کے بجائے اسے نوکر سمجھا جاتا ہے اسے دس بارہ ہزار تنخواہ دیکر امید کرتے ہیں وہ غلام بنکر رہے گا حالانکہ عام انسان کی طرح اسکی بھی بہت ضروریات گھر، راشن، بچے، تعلیم اخراجات ہوتے ہیں۔
موذن پر تنقید کتنا آڈان ہے ہر خود سردی گرمی بارش میں مسجد جا کر دن میں پانچ وقت اذان دینے کی ذمہ داری لینا نہایت مشکل کام لگتا ہے