ہوم << بچےاس تحریر سے دور رہیں - انعام الحق آزاد

بچےاس تحریر سے دور رہیں - انعام الحق آزاد

حال ہی میں دو واقعات ہوئے۔۔ عاقل و بالغ عوام کو جگانے کے لیے۔۔ بچے دور رہیں۔۔
ایک ہم سے پی ایچ ڈی کی فی میل اسٹوڈنٹ نے رابطہ کیا اور کہا کہ انہیں ایک موضوع پر اپنا ریسرچ پیپر مرتب کرنا ہے اس پر رہنمائی چاہیے۔ ہم نے پہلے تو معذرت کی کہ وقت کی کمی کے باعث ممکن نہ ہو سکے گا، پھر ایویں مارے تجسس موضوع پوچھ لیا۔
ان کا جواب تھا: کنواری لڑکیوں کا بڑی عمر کے مردوں سے مراسم قائم کرنا، وجوہات، زندگی پر اثرات، اور شریعت کی نظر میں اس کا حل؟
موضوع دلچسپ تھا اور معاشرے کا بڑھتا ہوا ناسور بھی۔۔
ہم نے کہا دیکھیں کچھ لکھ کر دینے کا وقت نہیں ہے، ہم سے وقت لے کر کال پر آجائیں، ہم جو کہیں ان کے نوٹس بنا لیں یا چاہیں تو ریکارڈ کرلیں اور جو سمجھ آئے بعد میں اپنی تحقیق میں جو مواد کام کا لگے اسے استعمال کر لیجیے گا۔۔
خیر کال پر بات ہوئی تو ہم نے ان سے پوچھا کہ اب تک آپ نے کیا تحقیق کی ہے اس پر ؟ جس پر انہوں نے کچھ حوالہ جات کا ذکر کیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ایسی بہت ساری اسٹوڈنٹس لڑکیوں کے انٹرویو کیے ہیں اور جاری ہیں جو ایسے رشتوں میں رہی ہیں یا موجود ہیں۔۔
اس کے بعد ہم نے گھنٹہ بھر تقریر کی جسے وہ کچھ دیر لکھنے کی کوشش کرتی رہیں پھر اجازت لے کر بقیہ سب ریکارڈ کرلیا۔۔
حیرانی کی بات ہے کہ جو آنکھوں دیکھے حال اور انٹرویو سے اخذ کردہ نتائج انہوں نے بتائے ان سے کسی حد تک تو ہم واقف تھے پر جس نہج پر معاملات پہنچ چکے تھے وہ انکشافات ہمارے لیے حیران کن تھے۔۔
دوسرا واقعہ آج کا ہے کہ ایک صاحب جن سے شناسائی کو کوئی بیس سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔۔ ان سے کسی اور سلسلے میں کال پر بات ہو رہی تھی، کسی کے رشتے کے حوالے سے موضوع چِھڑا اور ماضی کے دریچوں سے بات اس طرف نکل گئی کہ کالج یونیورسٹی کے کیا حال احوال ہیں، پھر پرانی دوستی کو خاطر میں لاکر انہوں نے اپنے دورِ جاہلیت کے واقعات سنانا شروع کیے جہاں اس قدر تفصیلات تھیں کہ بیان کرنا مشکل ہے۔۔
ویسے تو اس موضوع پر وقتاً فوقتاً کئی افراد نے کئی معلومات دی ہیں۔۔ البتہ جو تفصیلات ان دونوں سے اب تک ملی وہ پہلے نہ تھیں۔۔
محترمہ کے مطابق لڑکیوں میں "شوگر ڈیڈی" کی اصطلاح مشہور ہے۔۔ یہ کامیاب مردوں سے پھنستی یا پھنساتی صرف پیسے کی خاطر ہیں، ان مردوں کی ہر طرح کی خواہش پورا کرنے کے بدلے انہیں اچھا کھانا پینا، موبائل، گفٹ، گاڑیوں کی سیر، برانڈڈ کپڑے، جوتے، پرس اور دیگر تحفے تحائف ملتے ہیں جس سے یہ سوسائٹی میں اپنا اسٹینڈرڈ اعلی بنا کر پیش کرتی ہیں بھلے ہی گھر سے عبایا پہن کر آتی ہوں۔۔ پر تعلیمی اداروں سے Bunk کرتے ہی یہ حجاب اتر جاتا ہے اور پھر کرتی ہیں یہ وہ زندگی انجوائے جو شائد ان کے مستقبل کا شوہر انہیں کبھی یہ سب نہ کرنے دے گا۔۔ اثرات کیا ہوں گے؟ ایمان کا سودا کرنے سے بڑا نقصان کیا ہے کوئی؟ بعض اوقات بیماریاں پکڑ لیتی ہیں، جسمانی ساخت بدل جاتی ہے اور کچھ حاملہ بھی ہو جاتی ہیں لیکن ہر چیز کا حل موجود ہے۔۔ گھر والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ بچی اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہے اور ستو پی کر مطمئن ہوکر غافل رہتے ہیں اور عزتیں سڑکوں، ہوٹلوں، پارکوں، پارکنگ، بند کمروں اور ہوسٹلوں میں نیلام ہو رہی ہوتی ہے۔۔ نقصانات یہ بتائے کہ کچھ شاطر مرد ان کی نازیبا تصاویر اور ویڈیوز بنا لیتے ہیں۔۔ اس کے بعد وہ ان پر خرچ نہیں کرتے بلکہ بلیک میل کرکے انہیں پھانسے رکھتے ہیں۔۔ یعنی اجرت بھی نہیں ملتی پر رکھیل بنے رہنا پڑتا ہے۔۔
ساتھ ہی بہت سی لڑکیوں نے اپنی پسند کا ہم عمر بوائے فرینڈ بھی رکھا ہوتا ہے جس کے ساتھ الگ مزے کرتی ہیں پر ایک طالب علم لڑکا خود وہ ششکے نہیں کروا سکتا جن پر ایک اسٹیبلشڈ مرد قدرت رکھتا ہے۔۔ بوائے فرینڈ رکھتی ہیں اپنی جنسی تسکین اور دوسری لڑکیوں کو دکھانے کے لیے۔۔ اور اپنی نفسی خواہشات پوری کروانے کے لیے شادی شدہ مردوں کی ایک بڑی کھیپ ہمہ وقت دستیاب رہتی ہے۔۔ کچھ تو اس کارِ شر میں بہنیں بن جاتی ہیں اور بیک وقت ایک مرد کے ساتھ گروپ کی شکل میں موجود رہتی ہیں۔۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ مرد کتنا بڑا شوگر ڈیڈی ہے۔۔ یہ رشتہ محبت نہیں، ضرورت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔۔ محترمہ نے بتایا کہ انہوں نے کچھ نئی شادی شدہ خواتین کا بھی انٹرویو لیا جو ماضی میں حرام کاریوں میں ملوث تھیں، ان کی زندگی بقول ان کے اب بورننگ ترین ہے، کچھ کو اس بات کا پچھتاوا ہے کہ کاش ابھی شادی نہ کرتی تو وہ زندگی مزید انجوائے کر پاتیں، کچھ اس بات پر پشیمان کہ ہمارا شوہر ہم پر ویسے خرچ کیوں نہیں کرتا اور کچھ اس بات پر نالاں کہ کاش یہ سب نہ کرتی اور اسلام سے اس قدر دور نہ ہوتیں۔۔
مردوں کی طرف کی تفصیلات یہ صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں نے خود اپنے دور میں ہر عمر کی عورت کو اپنی گاڑی میں گھمایا ہے، نیز ان کے دیگر دوست بھی اس بات پر گواہ ہیں کہ وہ سب ہی ان کاموں میں ملوث رہے ہیں۔۔ پندرہ سولہ سال کی بچیوں سے لے کر پچاس سالہ عورت تک ہر عمر اور قسم کی فی میل با آسانی شوگر ڈیڈیز کے لیے دستیاب ہوتی ہیں، یہ پروفیشنلی فاحشائیں نہیں ہوتی، جسمانی طور پر اور مزاج میں فاحشاوں سے قدرے بہتر، صاف ستھری اور جو رجھانا، لبھانا اور منانا جانتی ہے، جس کی ذمہ داری سر پر اٹھانی نہیں پڑتی، یہ نہ ناراض ہوتی ہے نہ تقاضے کرتی ہے، بس ان پر خرچ کرو اور یہ تمہاری، جو سمجھ نہ آئے تو دنیا ختم نہیں ہوتی، بندہ/بندی بدل لو روزانہ کی بنیاد پر جیسے کپڑے تبدیل کیے جاتے ہیں، کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔۔
خواتین میں تین اقسام ہیں، ایک وہ جو خود "شوگر ماما" ہوتی ہیں یعنی ہائی سوسائیٹی کی وہ عورت جو اپنے شوہر سے تسکین نہیں حاصل کر پاتی یا بیزار ہوتی ہے پر مالدار ہونے کی وجہ سے چھوٹی عمر کے لڑکوں پر پیسہ خرچ کرکے اپنی شہوت مٹاتی ہیں۔۔
دوسری مڈل کلاس آنٹیاں، جو پیسہ تو خرچ نہیں کرتی پر اس قابل بھی نہیں ہوتی کہ ان پر کوئی مرد اپنا پیسہ خرچ کرے۔۔ یہ رشتہ بس جنسی تسکین مٹانے کی خاطر بھائی بندی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔۔ ایڈوینچر کا ایڈوینچر اور پلے سے گیا کچھ بھی نہیں۔۔ سامنے لڑکا ہو یا انکل ان کے گھروں کی عورتیں اپنی جگہ مطمئن اور ان آنٹیوں کے شوہر اپنی جگہ پر اطمینان کہ گھر کی عزت گھر میں محفوظ ہے۔۔
تیسری قسم کنواری لڑکیوں کی ہے جو زندگی انجوائے کرنا چاہتی ہیں اور صرف امیر، مالدار یا پھر ہوس پرست اشخاص کو گھیرتی ہیں جو خود لٹنے کو تیار ہوں، گھر میں بیویاں ان کے لیے بنیں سنوریں پر انہیں فرق نہیں پڑتا کیونکہ ساری رنگینیاں تو باہر ہی دیکھ کر آتے ہیں۔۔ جسے کچی عمر کی نوجوان لڑکیاں کثرت سے دستیاب ہوں اسے اپنی بیوی کیونکر بھلی لگے گی؟ وہ پورن دیکھ کر اس جانب راغب ہوتا ہے، کوئی ہاتھ لگ جائے تو پھر سب بھلا کر اسی راہ پر چل نکل کر ان لڑکیوں سے اپنی ساری فینٹسی پوری کرتا ہے، تھکا ہارا گھر لوٹتا ہے، بیوی کا چہرہ دیکھتا ہے تو موڈ خراب، کھانا کھا کر نہ آیا ہو تو کھا کر فون میں گھس جاتا ہے، ریلز دیکھنا یا لڈو اسٹار کھیلنا۔۔ ایک ڈیڑھ بجے تک نیند آجانا اور پھر اگلے دن وہی روٹین، کام، دوسرا کام اور گھر بس۔۔
بیوی کو سمجھ نہیں آتا کہ اچانک اٹینشن نہ ملنے کی وجہ کیا ہے؟ وہ بلاتی رہتی ہے پر اس کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔۔ نتیجہ؟ ٹوٹتے گھر یا عمر بھر کے سمجھوتے۔۔ ہاں بعض اوقات یہی بیویاں جن کے حقوق ادا نہیں ہوتے اور تقاضے سر چڑھ کر بولتے ہیں پھر یہی وہ "آنٹیاں" بن جاتی ہیں اور اپنی تسکین کا سامان کہیں اور سے پورا کرتی ہیں۔۔ دیر سویر شوہر کا اگر دیوالیہ نکل جائے تو اسے اپنی بیوی یاد آتی ہے کہ چلو گھر میں بھینس پال تو رکھی ہے۔۔ اب یہ اسے بلاتا ہے تو وہ ٹھینگا دکھاتی ہے کیونکہ اب یہ خود اپنے شوہر کی طرح پبلک پراپرٹی بن چکی ہوتی ہے، وجوہات جو بھی ہوں دونوں ہی گناہ کی راہ پر گامزن اپنی سڑی ہوئی زندگی گزار کر بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا رہے ہوتے ہیں۔۔ شوہر کہتا ہے بیوی کو اس میں دلچسپی نہیں، بیوی کہتی ہے بہت تھی، تب تم تھے نہیں اور اب مجھے رہی نہیں۔۔ پسِ منظر کیا ہے اللہ بہتر جانے۔۔ دونوں کا پرانا سائیکل کسی نہ کسی طرح چلتا رہتا ہے جب تک خواہش ختم نہ ہو جائے یا ہدایت نہ مل جائے۔۔ مت بھولیے اس وقت تک ان کا بیٹا اور بیٹی بھی اسکول کالج تک پہنچ چکے ہوتے ہیں۔۔ آگے آپ سمجھدار ہیں۔۔
ان سب کا ایک ہی حل ہے، دین! مانیں یا نہ مانیں، نکاح آسان ہو، جائز طریقے سے سب کے فطری تقاضے پورے ہو رہے ہوں، خواہشات کا غلبہ کم ہو، میڈیا سے زیادہ کتابوں سے دلچسپی ہو، معاشرے کا ماحول اچھا ہو، تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط ہو، اختلاط نہ ہو اور اللہ سے قربت و خوف ہو تو یہ سب ایسے فتنوں کو ختم کر سکتا ہے۔۔ پر ہماری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔۔ بلاشبہ سب ایسے نہیں ہوتے، بچنے والے خود کو بچا کر رکھتے ہیں لیکن اس پر فتن دور میں اپنے ایمان کی حفاظت کرنا اتنا آسان نہیں ہے وہ بھی تب جب گناہ تک رسائی اور قدرت دونوں ہو نیز ان پر کوئی حد بھی نہ نافذ ہوتی ہو تو کوئی کیوں نہ ڈگمگائے؟ سسٹم بہتر نہیں کرنا اور خیر کی امید بھی اسی سے رکھنا ؟ جب کہ گھر سے نکال کر راستہ بھی خود دکھانا ؟ اب ایسی ستم ظریفی پر کوئی روئے یا ہنسے ؟
۔
انا للہ وانا الیہ راجعون، یہ ہے ہمارے معاشرے کی ایک بھیانک کڑوی سچائی جو نہ نگل سکتے ہیں نہ اگل، جو بڑے پیمانے پر ہماری زندگیوں کی ایک اٹل حقیقت بن چکی ہے۔۔